تحریر : عامر خاکوانی تاریخ اشاعت     17-03-2016

سائنس ، ٹیکنالوجی اور ڈپلومیسی

سائنس ، ٹیکنالوجی اور ڈپلومیسی میں کیا تعلق ہو سکتا ہے، یہی بات معلوم کرنے ہم یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی(UMT)کے سیمینار میں گئے تھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کہ ڈیڑھ دو گھنٹے کے لیکچر اور سوال جواب کے سیشن سے لطف اٹھایا۔پاکستان کے مشہور سفارت کار مسعود خان مہمان مقرر تھے۔ مسعود خان چین میں پاکستان کے سفیر رہے، اقوام متحدہ میں بھی کئی برسوں تک ملک کی نمائندگی کی، اہم کمیٹیوں میں شامل رہے، آج کل اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔انہوں نے موضوع سے انصاف کیا۔ سفارت کارعام طور پر مبہم گفتگو کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، دس منٹ بولتے رہیں گے، مجال ہے کہ کچھ پلے پڑ جائے۔ لیکچر پر جانے سے پہلے یہ خطرہ دامن گیر تھا کہ کہیں بوریت نہ ہو۔ایمبیسیڈرمسعود خان نے مگر بڑے آسان اور غیر مبہم الفاظ میں گفتگو کی، جملے تو نپے تلے تھے، مگر ان میں خستگی اورتازگی کا عنصر نمایاں رہا۔لیکچر عمدہ رہا اور اس سے زیادہ سوال جواب کا سیشن۔ 
سائنس وٹیکنالوجی پر بات ہوئی، دنیا بھر میں اس کی اہمیت، اس پرخرچ کئے جانے والے بجٹ کا تذکرہ ہوا، اس تاسف آمیز اعتراف کے ساتھ کہ ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے سرمایہ کاری زیادہ تسلی بخش نہیں۔ مہمان مقرر کے بقول پاکستانی تاریخ کے دو ادوار اس اعتبار سے سنہرے تھے، جب سائنس ، ٹیکنالوجی حکومتی ترجیح بنی رہی۔ صدر ایوب خان کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس دور میں خاصا کام ہوا، حکومت بھی سنجیدہ تھی اور صنعتی میدان میں ہماری ترقی نمایاں رہی۔ دوسرا دور جنرل پرویز مشرف کا تھا، جس میں ڈاکٹر عطاالرحمن کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ بنایا گیا ۔ انہوں نے ہزاروں طلبہ پی ایچ ڈی کے لئے باہر بھیجے ، ملکی یونیورسٹیوں کی فیکلٹی بہتر کی اور اس سے پہلے سائنس کے وزیر کے طور پر انٹرنیٹ کے حوالے سے انقلاب برپا کر دیا۔ مسعود خان کے بقول تیسرا دور اب شروع ہو رہا ہے، جس کا سویرا نظر آنے لگا ہے۔ ان کا اشارہ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کی طرف تھا۔ لیکچر کے بعدارشاد احمد عارف صاحب نے سوال کیا کہ آپ نے جن دو ادوار کا ذکر کیا، اس کے علاوہ باقی حکومتوں نے سائنس کے لئے کیوں کچھ نہیں کیا؟ کیا یہ ترجیحات کا مسئلہ تھا یا ویژن کی کمی تھی ؟ مسعود خان اس سوال کو ٹال گئے ۔ انہوں نے بھٹو صاحب کا حوالہ دیا کہ انہوںنے سائنس کے بجٹ میں دو سو فیصد کا اضافہ کر دیا تھا۔ نوے کے عشرے کی میاں نواز شریف اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں پرکمنٹ کرنے سے البتہ گریز کیا۔ میرے قریب سینئر صحافی عطاالرحمن بیٹھے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آخر میاں صاحب کی حکومت ڈاکٹر عطاالرحمن سے استفادہ کیوں نہیں کرتی؟ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ سائنس دان ہیں اور نہایت متحرک انسان ہیں، انہیں ذمہ داری سونپ کر سپورٹ کیا جائے تو دو تین برسوں میں وہ پورامنظر نامہ بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ جس کا کریڈٹ بہرحال میاں صاحب کی حکومت کو ہی جائے گا۔عطاالرحمن صاحب نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہاکہ ٹھیک بات ہے، وہ پرویز مشرف کا وزیر تھا، مگر تھا تو سائنس دان ، اس سے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے، جہاں اوروں کو لیا ہے، اسے بھی لے لینا چاہیے۔ 
سیمینار میں شریک ایک خاتون پروفیسر نے دلچسپ نقطہ اٹھایا۔انہوں نے بتایا:'' میں نے اپنے طور پر باہر سے پی ایچ ڈی کی اور تین سال تک امریکہ میں ایک بڑے ریسرچ سنٹر سے وابستہ رہی ۔ ساتھی سائنسدانوں میں ایک بھی پاکستانی نہیں تھا،بیشتر چینی یا بھارتی تھے۔ان میں سے جس کسی سے بھی بات ہوئی، ہر ایک نے واپس اپنے وطن جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ درحقیقت وہ سب وطن واپس جانے کے لئے بے تاب تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ وہاں شاندار مستقبل منتظر ہے۔ ریسرچ مکمل کر کے پاکستان واپس آئی تو یہ دیکھ کر شدید مایوسی ہوئی کہ یہاں پر اعلیٰ تحقیق کے حوالے سے ماحول ہے نہ ادارے۔اچھی ملازمتیں ہیں اور نہ ہی معاشرے میں سائنس دانوں کو عزت ملتی ہے۔ مجھے ہر کوئی یہ کہتا تھاکہ آپ آخر واپس کیوں آئیں؟ ایک جگہ ملازمت کے لئے اپلائی کیا تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ملازمت تو ہمارے پاس نہیں ہے لیکن بی بی یہ بتائیں ،ا ٓپ واپس کیوں آ گئیں؟‘ ‘ خاتون پروفیسر کے تیکھے تبصرے کی کاٹ ہر ایک نے محسوس کی۔ 
مسعود خان کئی برسوں تک چین میں سفیر رہے۔ چین کے حوالے سے انہوں نے دلچسپ باتیں بتائیں۔ کہنے لگے کہ چینی ماہرین اب یہ مانتے ہیں کہ ہم نے ثقافتی انقلاب کے دنوں میں زرعی انقلاب کی باتیں کیں اور زراعت کو بہت زیادہ اہمیت دی، بعد میں علم ہوا کہ زراعت اپنی جگہ ، مگر معاشی ترقی کے لئے صنعتی انقلاب لانا پڑتا ہے۔ مسعود خان نے جدید چین کے بانی ڈینگ ژیاو پنگ کے حوالے سے 
ایک واقعہ سنایا۔ڈینگ نے چینی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے جو بنیادی فیصلے کئے، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ ہزاروں چینی طلبہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھیجے جائیں۔ سائنس اور انجینئرنگ کے مضامین کو خاص طور پر ترجیح دی گئی۔ پولٹ بیور و کے ایک رکن نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکے چین واپس نہیں آئیں گے۔ ڈینگ نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں کتنے طلبہ واپس آ سکتے ہیں؟ جواب ملا ، تیس فیصد کے قریب واپس آئیں گے، باقی ستر فیصد امریکہ میں سیٹل ہوجائیں گے۔ ڈینگ نے مسکرا کر کہا، ہمارے لئے اتنے نوجوان ہی کافی ہیں، مگر جتنے طلبہ باہر بھیجنے کا فیصلہ ہوا تھا،اب ان کی تعداد دوگنی کر دی جائے۔ دس بارہ برس کے بعد چینی حکومت نے اعداد وشمار اکٹھے کئے تو پتہ چلا کہ ستر فیصد چینی نوجوان اعلیٰ تعلیم لینے کے بعد وطن واپس آ گئے۔ یہ تب کی بات ہے، جب چین میں ابھی خاصی پابندیاں تھیں اور انفراسٹرکچر اس قدر بہتر نہیں ہوا تھا۔چینی مال کی کوالٹی کے حوالے سے سوال ہوا تو مسعود خان نے انکشاف کیا کہ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے ترقیاتی کاموں میںاچھامیٹریل استعمال کرنے کے حوالے سے چینی بہت سنجیدہ ہیں۔ چینی چاہتے ہیں کہ کہیں سے ناقص مال استعمال کرنے کی شکایت نہ آئے۔ اس لئے اعلیٰ سیاسی قیادت ان تمام پراجیکٹس کی نگرانی کرے گی۔ یہ تمام تفصیل بتانے کے بعد مسعود خان کا مشورہ تھا کہ ہمیں چینی بھائیوں کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے، مگر اپنی طرف سے مستعد بھی رہنا چاہیے۔ کام کی کوالٹی کو ہر حال میں یقینی بنانا ہماری بھی ذمہ داری ہے، خاص کر اس حوالے 
سے معاہدوں میں احتیاط کی جائے اورماہرین کی مشاورت سے اپنے حق میں تمام ضروری شرطیں شامل کرائی جائیں۔
سوال جواب کے سیشن میں نوجوان سکالراور یونیورسٹی کے شعبہ نشر واشاعت کے ایسو سی ایٹ احمد سہیل نے دواہم سوال اٹھائے۔ بھارت تعلقات کے حوالے سے امکانات اور کرکٹ ڈپلومیسی کا اثراور مڈل ایسٹ کی ری میپنگ کا امکان؟ جواب دو ٹوک تھا۔ مڈل ایسٹ میں توڑ پھوڑ کو انہوں نے خارج ازامکان قرار نہیں دیا اور کہا، ''پچھلی صدی میں وہاں جو بندوست کیا گیا تھا، وہ سب ختم ہوگیا ہے اورمڈل ایسٹ کسی بھی وقت فریکچر ہوسکتا ہے، اس کی بڑی وجہ عراق، شام، لیبیا، یمن وغیرہ میںبیرونی مداخلتیں ہیں۔ مستحکم حکومتیں ختم کر کے خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوگئی اور اب شیعہ سنی بنیاد پر تقسیم واضح ہو رہی ہے۔مڈل ایسٹ کی آگ کی چنگاریاں ہمارے ہاں لازمی آئیں گی، ہمیں ریلیکس نہیں بیٹھنا چاہیے۔ پاکستان کو نہایت سوچ سمجھ کر ، احتیاط کے ساتھ پالیسی بنانی ہوگی۔‘‘ 
پا ک بھارت دوستی کے حوالے سے تجربہ کار سفارت کار نے دلچسپ بات کی۔ کہنے لگے،'' پاک بھارت تعلقات نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ باہمی تنازعات ختم کرنے کے لئے ڈپلومیسی کے کتنے ہی دور چلے ہیں، سب ناکام رہے۔ کرکٹ ڈپلومیسی سمیت ہر چیز بے ثمر رہی ،آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔دونوں نیوکلیئر ریاستیں ہیں، ایک حد سے آگے نہیں جائیں گی۔ اس انتظار میں نہ رہیں کہ پاک بھارت تعلقات اچھے ہوجائیں گے تو ہماری معیشت بہتر ہوگی۔ اس کا انتظار کئے بغیر اپنی معیشت پر توجہ دینی چاہیے، عوام کی حالت بہتر کی جائے، یہ سمجھتے ہوئے کہ پاکستان کو مشرق میں ایک معاندانہ یا مخالفانہ رویہ رکھنے والے (Hostile)پڑوسی کے ساتھ جینا ہوگا۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved