ششی تھرور، بھارت کے ممتاز دانشور اور کانگرس کے نمایاں لیڈر ہیں۔ و ہ پاکستان اور بھارت کے تہذیبی رشتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس حوالے سے ایک اچھے مصنف بھی ہیں۔ کرکٹ کو پاکستان اور بھارت کے سیاستدانوں نے جس طرح اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور کرتے رہتے ہیں‘ ششی نے درج ذیل مضمون میں اس کا سرسری تجزیہ کیا ہے۔ میں جزوی طور پر اس سے اتفاق رکھتا ہوں کہ کرکٹ کے ذریعے زبردستی دونوں ملکوں کے سیاسی اختلافات میں کمی نہیں لائی جا سکتی۔ موجودہ کرکٹ ٹی 20ورلڈ کپ بھارت میں ہو رہا ہے‘ جس کی میزبانی بنیادی طور پر کرکٹ کا عالمی ادارہ کر رہا ہے۔ لیکن اس ٹورنامنٹ کے دوران بھی بھارت نے جس طرح دائو پیچ کھیلے اور حد یہ ہے کہ جس میچ میں پاکستانی ٹیم حصہ لے رہی تھی‘ پاکستانی سفارتکاروں کو اسے دیکھنے کے لئے دعوتی کارڈ تک نہیں دیئے گئے۔ پتہ نہیں وہ کونسے لوگ ہیں جو بھارت کی سرزمین پر ہونے والے ایک انٹرنیشنل مقابلے میں بھی کھیلی جانے والی گندی سیاست میں ملوث ہوئے ہیں۔ ذیل میں ششی تھرورکا وہ مختصر مضمون پیش خدمت ہے‘ جو انہوں نے پاکستان کے حالیہ دورہ بھارت کے حوالے سے لکھا۔
''ورلڈ ٹی 20 مقابلوں میں پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں انڈیا کی سرزمین پر ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔دونوں ٹیموں کے درمیان میچ سنیچر کو کولکتہ میں کھیلا جائے گا۔ اِس سے قبل یہ میچ دھرم شالا میں منعقد ہونا تھا لیکن ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ کو لگتا تھا کہ انڈیا کے فوجیوں کے اہل خانہ ''دشمن‘‘ کے ساتھ کھیل کا خیر مقدم نہیں کریں گے۔دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے کرکٹ تعلقات ہمیشہ مشکلات کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ محض کھیل دونوں ممالک کو قریب لانے میں مدد کر سکتا ہے۔ اِس کا جواب ہے ''نہیں۔‘‘کھیل جذبات پر پڑی برف کو پگھلا تو سکتا ہے لیکن یہ جغرافیائی سیاست کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ کرکٹ کے ذریعے سے سفارت کاری تو ہو سکتی ہے لیکن یہ اِس کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ چھ دہائیوں پر مشتمل پاک انڈیا کرکٹ نے ‘دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کے فروغ کے لیے بہت کم کردار ادا کیا ہے۔یہاں کھیل ہمیشہ سے ہی سیاست کا شکار رہا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان 1960ء سے لے کر 1978ء کے 18 سال تک‘ کرکٹ رابطوں میں تعطل رہا۔اِس کے بعد 1987ء سے 1999ء تک ٹیسٹ سیریز میں وقفہ رہا اور موجودہ تعطل 2008 ء میں ہونے والے ممبئی حملوں کے بعد سے برقرار ہے۔کرکٹ تعلقات کو ''معمول‘ ‘پر لانے کا بنیادی چیلنج تقسیم ہند کی وجہ سے درپیش ہے، جس میں مسلم اکثریتی علاقے انڈیا سے الگ ہو گئے تھے۔اِسی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ سے بھاری بوجھ برداشت کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ کیونکہ اِس میں قومی وقار کا مقابلہ اْس بڑے اور طاقتور پڑوسی سے ہوتا ہے‘ جس سے اْنہوں نے علیحدگی اختیار کی تھی۔پاکستانی کرکٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اِس کو فوجی قوم پرستی کے لیے اِستعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب میچ انڈیا کے خلاف ہو۔ایک مذہبی مشن کی طرح نمایاں انداز میں اِس کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2007ء کے ورلڈ ٹی 20 میں اْس وقت کے پاکستانی کپتان شعیب ملک نے ٹیم کی حمایت کرنے پر''پوری دنیا کے مسلمانوں‘‘ کا شکریہ ادا کیا تھا۔اِس کے برعکس انڈیا میں متعدد مذاہب، متعدد نسلیں اور تجارتی بنیادوں پر کرکٹ نمایاں اور اہم ہے۔
یہ وہ دو ممالک ہیں جن کے فوجی تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے پر گولیاں برساتے ہیں، جہاں سرحدی کشیدگی جنگ میں بدل جاتی ہے اور جہاں کرکٹ میچ کے نتائج سے کنٹرول لائن پر فوج کو بطورِ جشن فائر کرنے کی ترغیب مل جاتی ہے۔اِن سب سے بڑھ کر یہ وہ خطہ ہے کہ جہاں پاکستان پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر انڈیا میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور (پاکستانیوں کی نظر میں) انڈیا میں مسلمانوں کی ''مصیبتوں‘‘ کے ذمہ داروں کو سبق سکھانے کے لیے یہ''اخلاقی ذمہ داری‘‘ ہے کہ اِن کو کرکٹ کے میدان میں دھول چٹائی جائے۔دنیا میں کرکٹ کے ایسے کوئی بھی مخالفین نہیں ہیں، جن کے آپس میں ایسے معاملات ہوں۔اِس طرح کے پس منظر کے ساتھ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مقابلوں سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ محض کھیل تک محدود رہیں۔ تاریخ دان اور فلسفی سی ایل آر جیمز تاریخی جملہ لکھتے ہیں کہ' ' وہ کرکٹ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ جو صرف کرکٹ ہی جانتے ہیں۔‘‘دونوں ٹیمیں 1999ء کے عالمی کپ میں برطانوی سرزمین پر ایک دوسرے کے مدمقابل آئی تھیں۔ اْس وقت کشمیر میں کارگل کے مقام پر دونوں ممالک کے درمیان جنگ جاری تھی۔ میچ میں 47 رنز سے انڈیا کی فتح کے ساتھ ہی‘ چھ پاکستانی اور تین انڈیا کے سپاہی ہلاک ہوگئے تھے اور ابھی تک کرکٹ کی صلاحیتوں کے استعمال کے
ذریعے سے تعلقات کی بحالی کی دلیل دی جاتی ہے۔جب انڈیا نے 2003-4ء میں پاکستان کا دورہ کیا‘ تو گذشتہ پانچ دہائیوںکے دوران پہلی بار پاکستان نے ہزاروں ہندوستانیوں کو ''کرکٹ ویزے‘‘جاری کئے تھے اور عام پاکستانیوں کی جانب سے ہندوستانی شہریوں کا پْرجوش استقبال کیا گیا تھا۔ اِس دوران لاہور اور کراچی میں انڈین مہمانوں کو مفت سفر، رعایتی کھانے اور خریداری میں رعایت سمیت اْن کی بے حد مہمان نوازی کی گئی تھی۔لیکن صرف پانچ برس بعد ہی ممبئی میں خوفناک حملے ہو گئے۔انڈیا کو چند مہینوں بعد جنوری 2009ء میں پاکستان کا دورہ کرنا تھا، جو نہ ہوسکا۔انڈیا میں اْس وقت کے وزیر کھیل ایم ایس گِل نے حکومتی اجازت ختم کرتے ہوئے کہا کہ ''آپ ایسا نہیں کرسکتے کہ ایک ٹیم وہاں سے آ کر ہمارے ملک کے شہریوں کو قتل کرے اور دوسری ٹیم انڈیا سے جا کر وہاں کرکٹ کھیلے۔‘‘اِس کے بعد سے (ورلڈ کپ جیسے عالمی مقابلوں، ایک خیراتی مقابلے اور 2011ء کی واحد ون ڈے سیریز کے علاوہ) دونوں ٹیمیں بمشکل ہی ایک دوسرے کے مدمقابل آئی ہیں اور اِس کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں نے انڈین پریمیئر لیگ کے بعد کے ایڈیشنوں میں بھی حصہ نہیں لیا۔تو کرکٹ ماضی میں ایک دوسرے سے ظاہری تضاد کے بندھن میں منسلک، اِن دو ممالک کے درمیان امن کو فروغ دینے کے حوالے سے کس حد تک فائدہ مند ہے؟
کئی سالوں سے اب تک جنگ، شدت پسندی، دہشت گردی اور حتیٰ کہ جوہری ہتھیاروں کے خطرات سے متعلق بات چیت ہوتی رہی ہے۔ انڈین سیاست دانوں کی جانب سے ہمیشہ یہ سوال اْٹھائے جاتے رہے ہیں کہ انڈیا ایک ایسے ملک کے ساتھ کرکٹ کیسے کھیل سکتا ہے جو اس کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کرتا ہو؟حکمران جماعت کے بہت سے ارکانِ پارلیمان اور ہندو انتہا پسند جماعت شیو سینا، پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات رکھنے کی مخالفت کرتے ہیں۔کرکٹ ایک کھیل ہے۔ اور کرکٹ ٹیم بذات خود ملک یا ملک کی علامت نہیں بلکہ صرف ملک کی نمائندگی کرتی ہے۔ کرکٹ پر کسی دوسری قومی جدوجہد سے زیادہ بڑھ کر بوجھ ڈالنا غیر منصفانہ ہے۔
ابھی تک کرکٹ خصوصی طور پر پاکستان کے خلاف انڈیا کے غصے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔
ہم اْن پر پابندیاں نہیں لگا سکتے، اپنے سفارت کار نہیں بلا سکتے، نہ اْن کے ساتھ تجارت ختم کر سکتے ہیں اور نہ ہی اْن کے فلمی اداکاروں کو انڈیا میں کام کرنے سے روک سکتے ہیں۔لیکن ایک سرگرمی کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ کرکٹ ہے۔یہ بہت غلط عمل ہے۔میرا خیال ہے کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ مختلف محاذوں پر تعلقات بحال کرنے کی ضرورت ہے اور میں عوام کے‘ عوام سے براہ راست تعلقات کی پرزور حمایت کرتا ہوں تاکہ فوج اور مولویوں کے اثر کو متوازن کیا جا سکے۔
کرکٹ دونوں ممالک کے تعمیری تعلق کو بحال کرنے کا راستہ ہے، جہاں دو لوگ ایک دوسرے کی بدگمانیوں کے بارے میں سوچنے کے بجائے، ایک دوسرے کی صلاحیتوں کے بارے میں سوچیں۔کرکٹ پہلے بھی اور اب بھی ایک ایسا ہتھیار بن سکتا ہے، جس کے ذریعے سے پالیسیاں بنانے والے عام عوام کے لیے وسیع تر پیغام بھیج سکیں۔تو چلیں ہفتے کو ہونے والے کھیل کا مزہ لیتے ہیں۔انڈیا نے کسی بھی ورلڈکپ میں پاکستان سے شکست نہیں کھائی، اور پاکستان کبھی کولکتہ کے ایڈن گارڈن سٹیڈیم میں انڈیا سے نہیں ہارا۔یہ میچ یک طرفہ ہوگا یا تاریخ رقم ہوگی اور یا یہ صرف ایسا ہوگا جیسے کہ معمول کی کرکٹ ہوتی ہے۔‘‘