تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     18-03-2016

تہذیبیں اور تصادم

دو عالمی جنگوں نے کئی غلام بادشاہ بنا ڈالے‘ اور بہت سارے بادشاہوں کو غلام۔ یہ پچھلی صدی کے تیسرے عشرے کا ذکر ہے۔ آج تاریخ کا جبر یہ ہے کہ بادشاہ نظر آنے والے عملی طور پر مغرب کے سب سے بڑے غلام ہیں‘ اور وہ بھی جبری غلام‘ جبکہ ''درشنی‘‘ بادشاہ سلامت کی رعایا بلکہ غلامی میں پِسے ہوئے لوگ بغاوت پر آمادہ ہیں۔
بہت دن پہلے عظیم فلسفی شاعر اقبال نے مغرب کی نرسری کے تیار کردہ جدید بادشاہوں کی امارت کو یوں طشت از بام کیا تھا:
کیا خوب امیرِ فیصل کو، سَنّوسی نے پیغام دیا
تُو نام و نَسب کا حجازی ہے، پر دل سے حجازی بن نہ سکا
اسی لیے اپنے عوام سے خوفزدہ مطلق العنان حکمران عوام کے سرمائے سے اسلحے کے انبار لگانے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں تہذیبوں کے تصادم کا نعرہ ایک بار پھر بلند ہوا ہے۔
سب سے پہلے یہ نعرہ سیاسیات کے عالمی ماہر سیموئیل پی ھٹنگٹن نے لگایا تھا۔ سیموئیل کے نظریے کے مطابق مختلف کلچر اور تہذیب رکھنے والے آج ایک دوسرے سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ تازہ نعرہ دبئی کے ٹاپ سکیورٹی آفیشل لیفٹیننٹ جنرل داعی خلفان تمیم نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ٹویٹ کے ذریعے بلند کیا‘ جسے عالمی پریس میں کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ جنرل خلفان تمیم دبئی کی سکیورٹی کے انچارج اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔ جنرل تمیم کے مطابق اگر امریکہ کے صدارتی الیکشن 2016ء میں ری پبلکن پارٹی کا امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہو گیا‘ تو پھر تہذیبوں کا تصادم ضرور ہو گا۔ اس تصادم کی پیش گوئی کی بنیاد درست ہو سکتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت ٹرمپ کی انتخابی ریلیوں میں ہونے والی ہنگامہ آرائی سے ملتا ہے۔ لیکن پیش گوئی کے لیے دی گئی اضافی دلیل 100 فیصد غلط ہے‘ کیونکہ جنرل تمیم نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر ڈیموکریٹ امیدوار ہلری کلنٹن صدارتی الیکشن ہار گئی‘ تو پھر تہذیبوں کا تصادم ٹل نہیں سکتا۔
دکھ سے کہنا پڑتا ہے، لیکن زمینی حقائق ہمیں کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 1979ء میں افغانستان پر حملہ ہوا۔ اس حملے کے نتائج پاکستان سمیت پورا جنوب مشرقی ایشیا آج تک بھگت رہا ہے۔ اس بات سے کون انکار کرے گا کہ اس حملے کی دعوت اور حملے کے لیے میدان کی تیاری ضیا آمریت اور عرب بادشاہوں کی مشترکہ پیشکش تھی۔ افغانستان پر دوسرا حملہ بھی تہذیبوں کے تصادم کے تناظر میں نہیں بلکہ فرمائشی تھا۔ یہ تو چند عشرے پہلے کے المناک واقعات ہیں۔
ذرا آگے چلتے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں مڈل ایسٹ جنگ نمبر ایک اور مڈل ایسٹ کی جنگ نمبر دو کیا تہذیبوں کا تصادم تھی؟ اس کا جواب ہے: بالکل نہیں‘ بلکہ یہ جنگ بھی شخصی حکمرانوں، ان کے خاندانوں اور اثاثوں کو بچانے کے لیے لڑی گئی۔ بہارِ عرب کے بعد تیونس سے لے کرلیبیا تک اور مراکش سے شام تک مسلم آبادیوں پر سارے حملے مسلم حکمرانوں کی دعوت، معاونت اور سہولت کاری سے ممکن ہوئے۔
آج جو لوگ اپنی لگائی ہوئی آگ کی تپش کی وجہ سے اسے تہذیبوں کا تصادم کہہ رہے ہیں‘ وہ شام، افغانستان، لیبیا اور عراق پر امریکی، مغربی حملوں کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ ان ملکوں کے ہوائی جہازوں نے تہذیبوں کا تصادم ختم کرنے کے لیے بیت المقدس کی آزادی کی طرف کبھی اڑان کیوں نہیں بھری؟ یہ جدید مسلم تاریخ کی بدبختی ہے کہ مسلمانوں کے وسائل بزدل مسلم حکمران مسلمان ملکوں پر ہی آگ اور بارود کی بارش برسانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
آج جن مسلم معاشروں میں مغربی جمہوریت ہے‘ وہاں بھی اقتدار پر چند خاندان قابض ہیں۔ پاکستان اس سلسلے میں بہترین کیس سٹڈی ثابت ہوا۔ آپ جانتے ہی ہیں‘ 70ء کے عشرے میں پاکستان 22 خاندانوں کے قبضے میں تھا۔ ضیا کے اسلامی نظام سے لے کر مشرف کی روشن خیال حکمرانی تک 22 خاندانوں کے بجائے 22 رشتہ دار برسرِ اقتدار آ گئے‘ جس کے نتیجے میں ملک بھر میں تین طرح کے لوگ طاقتور ہوئے۔ پہلا طبقہ: ریٹائرمنٹ کی عمر سے گزرے ہوئے وہ ''بابے‘‘ جو تین عشروں سے قوم کو خوشامد کی سائنس پڑھانے کی مشقت کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسرا طبقہ گھریلو نوکروں، خاندانی ملازموں اور ذاتی خدمت گزاروں پر مشتمل ہے۔ اوپر درج دونوں طبقات دستر خوانِ اقتدار کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں۔ تیسرے ہیں، 22 رشتہ دار۔ اس وقت پورا پاکستان ان رشتہ داروں کے قبضے میں نہیں‘ بلکہ شکنجے میں جا چکا ہے۔
معیشت سے مہنگائی تک‘ سیاست سے ''قانونی شریعت‘‘ تک، فیصلہ سازی ان کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ان بادشاہوں کو صیحح معنوں میں ''سیانے‘‘ کہا جا سکتا ہے‘ جن کے اپنے ذاتی کاروبار چلانے کے لیے دماغ چلتے‘ جبکہ کاروبار دوڑتے ہیں۔ انہی کے ہاتھوں ریاستی ادارے برباد اور لاوارث ہوئے۔
برطانیہ کی حکومت نے ایک تازہ فیصلہ کیا‘ جس کے نتیجے میں انگلش وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی والدہ میری کیمرون نوکری سے محروم ہو گئیں۔ 81 سالہ میری کیمرون ہر روز ایک چیرٹی ادارے کے بچوں کی خدمت کے لیے جاتی تھیں۔ اس طرح وہ فرنگی معاشرے کے لیے ایک پیداواری یونٹ ثابت ہوئیں۔ برطانوی سرکار نے اپنی حکومت کے اخراجات کم کرنے کے لیے جو مہم شروع کی ہے‘ میری کیمرون والا ادارہ اس کی زَد میں آیا‘ اور ادارہ بند ہو گیا۔ کسی نے پروا نہ کی کہ اس ادارے میں ڈیوڈ کیمرون کی 81 سالہ والدہ کام کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پنجاب کی بہترین حکمرانی کو دیکھ لیں۔ پچھلے 8 سال میں اتنی دھمکیاں ہمارے موجودہ حکمران کشمیری لیڈروں نے مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج کو نہیں دیں‘ جتنی اپنے بنائے ہوئے احتساب کے ادارے کو دے ڈالیں۔ کہا: پنجاب میں سندھ والا کام نہیں ہونے دیں گے۔ گڈ گورننس پھر بولی: پنجاب میں رینجرز کی ضرورت نہیں۔ پوٹھوہار سے سرائیکی تک پھیلے ہوئے غریب علاقوں کا ٹوٹل بجٹ 200 ارب سے کم‘ جبکہ لاہور کا بجٹ تین وفاقی یونٹوں سے زیادہ ہے۔
دیانتداری کے ساتھ حالات کا جائزہ لیں تو ایک بات طے شدہ ہے‘ ہمیں تہذیبوں کے کسی تصادم سے خطرہ نہیں‘ بلکہ اپنے اندر کی بدتہذیبی سے ڈرنا چاہیے۔ جب بھی کہیں گڑبڑ ہوتی ہے‘ ہم کہتے ہیں: یہ مغرب اور یہودیوں کی سازش ہے۔ یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ آخر مغرب اور یہودی کس کے ذریعے سازش پر عمل کرتے ہیں۔ کون ان کے ہاتھوں میں کھلونا ہے یا کٹھ پُتلی۔ نام جس کا بھی ہو کرائے کا پیادہ یا بادشاہ کون ہے؟ جالب نے یہی بات برسوں پہلے یوں کہی:
نام چلے ہرنام داس کا، کام چلے امریکہ کا
مورکھ اس کوشش میں ہیں، سورج نہ ڈھلے امریکہ کا
نردھن کی آنکھوں میں آنسو آج بھی ہیں اور کل بھی تھے 
برلا کے گھر دیوالی ہے، تیل جلے امریکہ کا
دنیا بھر کے مظلوموں نے بھید یہ سارا جان لیا
آج ہے ڈیرا دھن والوں کے سائے تلے امریکہ کا
غیر کے بل بوتے پر جینا، مردوں والی بات نہیں
بات تو جب ہے اے جالب‘ احسان نہ لے امریکہ کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved