تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     18-03-2016

لبرل نواز شریف : ایک نئے اتحاد کا ہدف؟

دینی جماعتوں اور وزیراعظم محمد نواز شریف کے درمیان ماضی قریب تک اعتماداور خلوص کا ایسا رشتہ تھا جس کا فائدہ ہمیشہ میاں صاحب کو پہنچا اور نقصان دینی جماعتوں کی سیاست کو۔ اس تعلق کا آغاز اگرچہ جنرل ضیاء الحق کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا لیکن ان کی موت کے بعدملک کی دینی قیادت نے اپنے ووٹوں کی قربانی دے کر نواز شریف کو تین باراس امید میں وزیراعظم بنایا کہ وہ اقتدار سنبھال کر ملک کے سیکولر حکومتی نظام کو عوام کے اسلامی تشخص سے ہم آہنگ کردیں گے۔ اسے اتفاق سمجھیے، ستم ظریفی کہیے یا کچھ اور کہ نواز شریف کے ہر دورِ حکومت میں اسلامائزیشن کی بات چند نمائشی اقدامات سے آگے کبھی بڑھ نہیں سکی۔ غیر سودی معیشت یا عدالتوں کے ذریعے اسلامی قوانین کا نفاذ تو دور کی بات ہے، یکساں نصابِ تعلیم اور اردو کو بطور واحد سرکاری زبان کے طور پر لاگو کرنے جیسے آسان اور ابتدائی کاموں میں بھی وزیراعظم نے کبھی محسوس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پچھلے برس نومبر میںجب انہوں نے ملک کے لیے ''لبرل‘‘ نظریات کی ضرورت پر زور دیا تو دینی رجحان رکھنے والے طبقے کے لیے یہ بات کسی دھچکے سے کم نہیں تھی۔ اس وقت یہی سمجھا گیا کہ شاید وہ لفظ''لبرل‘‘ کی اصطلاحی باریکیوں سے ناواقف ہیں اس لیے وہ روا روی میں اسے استعمال تو کر گئے ہیں لیکن ان کا مطلب کچھ اور تھا۔ وزیراعظم سے نظریاتی خوش گمانی رکھنے والی دینی قوتوں کو اس وقت یہ علم نہیں تھا کہ تحفظِ نسواں کے حوالے سے خالص مغربی تصورات پر مبنی ایک مسودۂ قانون خاموشی سے پنجاب اسمبلی میں جمع کرایا جاچکا ہے اور صوبائی
وزیرقانون رانا ثناء اللہ چند علماء کو چائے پر بلا کر مشاورت کا تکلف بھی فرما چکے ہیں۔ اس مسودے کو باقاعدہ قانون کی شکل دینے کے لیے صرف بلدیاتی انتخابات ختم ہونے کا انتظار ہورہا تھا، جیسے ہی بلدیاتی انتخابات مکمل ہوئے اس مسودے پر آئیں بائیں شائیں قسم کی بحثیں وزیرقانون نے اپنے دفتر میں منعقد کیں اور پھر اسے اسمبلی سے بغیر کسی بحث کے منظور کراکے گورنر کے دستخط کے لیے بھیج دیا گیا۔ اس قانون کے خلاف جب حکومتی اراکین اسمبلی بھی بولنے لگے تو خود وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے اس قانون کے حق میں سوشل میڈیا پر بیان داغ دیا۔ اس بات میںتو کوئی شک ہی نہیں کہ پنجاب کا تحفظِ نسواں قانون واضح قرآنی احکامات(سورۂ نساء آیت 34) کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس پر دلائل بازی نہیں ہوسکتی اس لیے دینی طبقات میں بحث کا عنوان اب یہ قانون نہیں بلکہ وزیراعظم اور ان کی جماعت کی بدلی ہوئی نظریاتی جہت ہے ۔ اسلام پسندوں کے فعال طبقات یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ ایک ایسی جماعت کا ساتھ کیوں دیں جو نازک قومی معاملات پر مشکوک موقف رکھتی ہے، دینی مدارس کی مشکیں کسنے پر تیار رہتی ہے اور قانون سازی کرتے ہوئے اہم احکامات کو نظر انداز کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی؟
دینی طبقات کی اس مایوسی کا پہلا باقاعدہ اظہار مفتی رفیع عثمانی صاحب نے مجیب الرحمن شامی صاحب کے ساتھ ایک انٹر ویو میں کیا۔ انہوں نے ممتاز قادری اور تحفظ نسواں کے قانون کے تازہ معاملات کے ساتھ غیر سودی معیشت پر موجودہ حکمرانوں کے ماضی کے طرزِ عمل کو جوڑ کر جونتیجہ اخذ کیا وہ یہ تھا کہ حکمران ملکی قوانین کو اسلامی رنگ دینے سے قصداً گریز کرتے ہیں۔ اس انٹر ویو کے نشر ہونے کے دو دن بعد جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں ہونے والی دینی جماعتوں کی قیادت کی کانفرنس میں علماء نے جو کچھ کہا وہ دراصل مفتی رفیع عثمانی صاحب کے اخذ کردہ نتائج کا تلخی سے بھرپور سیاسی اظہار تھا۔ کانفرنس میںآنے والے ہر مندوب کی رائے تھی کہ حکومت کے خلاف ہمہ گیر تحریک کا اعلان کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق نے جب ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تو خود انگلیاں ان کی طرف بھی اٹھنے لگیں۔ حافظ حسین احمد نے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ مولانا فضل الرحمن اپنے حلیف (مسلم لیگ ن) اور سراج الحق اپنے حلیف(تحریک انصاف ) کو چھوڑ کر اپنے لوگوںیعنی دوسری دینی قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔ اس پر مولانا فضل الرحمن کو کہنا پڑا کہ حکومت میں شمولیت کا مطلب اس کے ہراقدام کی تائید نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار نواز شریف کے اتحادی بنے ہیں لیکن مولانا سمیع الحق ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی مدد سے میاں صاحب کو اقتدار ملا۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ مولانا سمیع الحق کے ساتھ ہوا، جس انداز میں ان کے کردار پر گندگی اچھالی گئی، اس نے انہیں نواز شریف سے الگ تو کردیا مگرزیادہ دور نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ2013ء میں انہوں نے اقتدار سنبھال کر کالعد م تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے کے لیے مولانا سے مدد مانگی تو وہ ایک بار پھر بروئے کار آگئے۔ لیکن تحفظ نسواں قانون کی منظوری سے مولانا سمیع الحق اتنے مایوس ہوئے کہ اب وہ نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان نظریاتی مماثلت کی مثالیں دیتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ اتنا آگے جا چکے ہیں کہ انہیں وزیراعظم کی ذاتی عبادت گزاری بھی کسی بڑی سکیم کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ''جنرل پرویز مشرف اپنی عنداللہ مقبولیت کے ثبوت میں اپنے خانہ کعبہ کے اندر اور اس کی چھت پر جانے کے واقعات سناتے ہیں۔ میاں نواز شریف مواجہ رسولﷺ کے قریب کھڑے ہوکر تصویر کھنچوا کر خود کو اسلام پسند ظاہر کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جب شریعت بل منظور ہوا تو ان کی پیش کردہ ترمیم کے نتیجے میں یہ کھوکھلا ہوگیا۔ سود کی حرمت کا فیصلہ ہوا توان کی حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ لے جاکر بے سود کردیا۔ ناموس رسالت ﷺ کے قانون کو پوری طرح نافذ نہیں کرسکے اور اب تحفظِ نسواں کا قانون منظور کراکے خود کو امریکہ کی نظروں میں لبرل ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ 
مولانا سمیع الحق نے گئے وقتوں میں اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پھر انہی کی مشاورت سے بننے والی ملی یکجہتی کونسل نے متحدہ مجلس عمل میں ڈھال کر ایک سیاسی اتحاد بنا دیا۔ ان دونوں اتحادوں سے وہ خود تو کوئی سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکے لیکن یہ طے ہے کہ جن قوتوں کے خلاف یہ اتحاد بنائے گئے تھے، ان کا بیڑہ غرق کرنے میں یہ پوری طرح کامیاب رہے۔ نواز شریف کی خوش قسمتی ہے یہ تو دوسروں کے خلاف اتحادوں کے روح ورواں رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کبھی کوئی مؤثر اتحاد ممکن نہیں ہوا۔ دینی جماعتوں کے لب و لہجے کو دیکھیں تو اب یہ نا ممکن نہیں لگتا۔ اسلام پسند نواز شریف کو دینی طبقات نے جو رعایتیں دے رکھی تھیں، لبرل ازم کے علمبردار نواز شریف سے واپس لے لی ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved