تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-03-2016

مذہبی سیاستدانوں کیلئے موقع

''تحفظ نسواں بل‘‘ منظور ہو گیا ہے۔ عملاً نافذ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے نفاذ کے لئے جن اداروں کی ضرورت ہے‘ وہ ابھی بنائے ہی نہیں گئے۔ مولوی حضرات نے اس بل کے خلاف مہم شروع کرنے کی دھمکی دے کر حکومت کوایک خاص پیغام دیا ہے ‘ جس کا بل سے خاص تعلق نہیں۔ ملاحضرات جب احتجاج کی دھمکی دیتے ہیں‘ تو ان کامقصد کوئی اور ہوتا ہے۔ انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے حکومت کمزور ہے۔ مولوی حضرات کوئی سا بھی نعرہ لے کر‘ اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ کسی بھی مسئلے پر جذباتی ماحول پیدا کر کے‘ حکومت کو کمزور پوزیشن میں ڈالا جا سکتا ہے اور مولوی حضرات اس وقت چڑھائی کی حالت میں ہیں۔ انہیں اپنی طاقت سے زیادہ حکومت کی کمزوریوں پر بھروسہ ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ گھریلو قوانین میں تھوڑے سے ردوبدل سے وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔ اسمبلی سے پاس ہونے والے بل میں کیا کیا گنجائشیں ہیں؟ یہ ذیل میں ایم الیاس خان کے مضمون میں دیکھا جا سکتا ہے‘ جسے بی بی سی ڈاٹ کام نے شائع کیا ۔
''پاکستان میں 30 سے زائد مذہبی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر صوبہ پنجاب نے خواتین کے تحفظ کا قانون واپس نہ لیا تو وہ احتجاجی مظاہرے کریں گے۔یہ لوگ خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کو روکنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کی حمایت کیوں نہیں کرتے اور آخر اس قانون کی ضرورت کیوں آ پڑی؟خواتین کی صحت، تعلیم، سیاسی بااختیاری اور معاشی استحکام کے حوالے سے انتہائی خراب کارکردگی کے باعث اقوام متحدہ کے صنفی عدم مساوات کے اشاریے میں 188 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 147واں ہے۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان گروہوں اور قبیلوں میں بٹا ہوا معاشرہ ہے جہاں جاگیردارانہ نظام اب بھی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ اس نظام میں خواتین کے ساتھ ذاتی ملکیت کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔شہری طرز زندگی میں اضافے اورانحطاط پذیرمشترکہ خاندانی نظام خواتین کے خلاف ہونے والی زیادتیوں اور برے رویے میں اضافے کا سبب بنا ہے۔خواتین کے حقوق کی غیرمنافع بخش تنظیم ''عورت فاؤنڈیشن‘‘ کی 2014 ء کی رپورٹ کے مطابق سال کے ہر دن، چھ خواتین قتل اور چھ اغوا ہوئیں، چار کے ساتھ زیادتی ہوئی اور تین خواتین نے خودکشی کی۔ جہیز کے لیے کیا جانے والا تشدد اور تیزاب پھینکنے کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔گزشتہ دہائیوں میں خواتین کی حیثیت بہتر بنانے کے لیے مسلسل قانون سازی کی جاتی رہی ہے تاہم ان قوانین کو باقاعدہ طورپر نافذ نہیں کیا جا سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اختیارات، مرد حکام کے قبضے میں ہیں جبکہ پولیس، خواتین کے خلاف ہونے والے زیادہ تر واقعات کو ''گھریلو جھگڑوں‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے، بلکہ بعض واقعات میں تو خواتین ہی پر اکسانے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔حال ہی میں متعارف کرائے جانے والے قانون میں شکایت کنندہ بھی خواتین ہیں اور قانون نافذ کرنے والی بھی خواتین ہیں۔
پنجاب تحفظ نسواں ایکٹ 2015ء میں متعارف کروائے جانے والے نظام کے تحت صوبے بھر میں ضلعی سطح پر خواتین اہلکاروں کو تعینات کیا جا سکے گا۔ یہ اہلکار خواتین کی جسمانی، معاشی، یا پھر نفسیاتی تشدد کی شکایات پر کارروائی کرنے کی مجاز ہوں گی۔جرائم میں گھریلو تشدد، جنسی تشدد، نفسیاتی اور جذباتی زیادتی، معاشی زیادتی، ہراسانی اور سائبر جرائم، شامل ہیں۔اس قانون کے تحت تحفظ نسواں کی ضلعی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جن میں ضلعی انتظامیہ، پولیس، محکمہ سماجی بہبود اور محکمہ قانون شامل ہیں۔مذکورہ قانون کے تحت ایسا یونیورسل ٹول فری ٹیلی فون نمبر مہیا کیا جائے گا جس پر خواتین فون کرکے اپنی شکایات درج کروا سکیں گی۔ درج شدہ شکایات کے تحت تحفظ خواتین کی اہلکاروں کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی ایسے گھر یا عمارت کے احاطے میں داخل ہو سکیں گی، جہاں کسی خاتون کو حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہو۔قانون کے تحت خواتین کے لیے پناہ گاہیں قائم کی جا سکیں گی اور عدالتوں کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کے مرتکب پائے جانے والے مردوں کو پناہ گاہوں اور متاثرہ خاتون کی نوکری کرنے کی جگہ کے نزدیک جانے سے روک سکیں۔قانون دونوں فریقین کے مابین مفاہمت پر زور دیتا ہے اور ابتدائی مرحلے میں اسے جرم کے زمرے میں شمار نہیں کرتا۔ تاہم عدالت کی حکم عدولی کا مرتکب ہونے‘ خاتون کے تحفظ کے حق کی پامالی، رہائشی یا معاشی استحکام کو نقصان پہنچانے کی صورت میں ان جرائم کے مرتکب مرد کو ایک سے دو سال کی سزا ہو سکتی ہے جبکہ دو لاکھ سے پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔لبرل حلقوں میں اس قانون کو جامع مسودے کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، جس میں خواتین کی خلاف تشدد کی تعریف وسیع تناظر میں کی گئی ہے اور اس کے ازالے کے لئے ایک مسلسل کام کرنے والا میکنزم تشکیل دیا گیا ہے۔یہ قانون تقاضا کرتا ہے کہ وسیع پیمانے پر ادارے کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے اور بھرتیوں، افرادی قوت کی تربیت اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے نظام کے قانونی اور انتظامی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیلاً اصول و ضوابط متعین کئے جائیں۔اس قانون کو ''مرحلہ وار‘‘ شکل میں نافذ کیا جا سکتا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ پہلی ضلعی تحفظ نسواں ٹیم کی تشکیل میں ابھی وقت ہے۔
وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی جماعت اور پنجاب کی حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے 2015 ء میں یہ قانون متعارف کروایا تھا۔ صوبائی کابینہ اور اس کے بعد پنجاب کی پارلیمان نے اس مسودے کو رواں سال فروری میں متفقہ طورپر منظور کیا تھا۔ن لیگ کی دائیں بازو کی جماعت کی شہرت کی حامل ہونے اور اکثر مذہبی جماعتوں کی حمایت کے باعث اس قانون کو چند حلقوں کی جانب سے حیرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔دوسری جانب کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت کو یہ قدم ان مسائل سے نمٹنے کے دباؤ کے باعث اٹھانا پڑا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے زیادہ تر واقعات پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں ہی پیش آتے ہیں۔
رواں ہفتے منگل کے روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مرکزی اسلامی سیاسی جماعتوں سمیت 30 سے زائد مذہبی جماعتوں نے مشترکہ اجلاس میں اس قانون کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے پنجاب حکومت کو متنبّہ کیا ہے کہ اگر 27 مارچ تک اس قانون کو واپس نہ لیا گیا تو وہ اس کے خلاف مظاہروں کا آغاز کر دیں گے۔ایک رہنما کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے 1977 ء سے زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ 1977 ء میں چلنے والی مذہبی تحریک پاکستان کی پہلی مقبول منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی صورت میں منتج ہوئی تھی۔
مذہبی جماعتوں کی جانب سے خواتین کے حقوق کی مہمات کا موازنہ اکثر فحاشی کو فروغ دینے سے کیا جاتا ہے۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کے نئے قانون سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہو گا اور یہ ملک میں موجود روایتی خاندانی نظام کو تباہ کر دے گا۔دوسری جانب عورت فاؤنڈیشن کے نعیم مرزا سمجھتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں نئے قانون کے تحت خواتین کے بااختیار ہونے پہ زیادہ برہم ہیں۔وہ کہتے ہیں 'خواتین ٹول فری نمبر پر مدد کے لیے فون کر سکتی ہیں، خواتین کے تحفظ کی اہلکار ان خواتین کو بچانے کے لیے کسی بھی احاطے میں داخل ہو سکتی ہیں اور خاوند اس قانون کی روشنی میں خاتون کو ان کے گھر سے زبردستی نہیں نکال سکتے۔ اگر وہ پر تشدد رویے پر بضد رہتے ہیں تو انھیں اپنے گھر سے باہر رہنے اور جی پی ایس ٹریکر پہننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جب تک تصفیہ نہ ہو جائے وہ متاثرہ خاتون کے نزدیک نہ آ سکیں۔قانون نافذ ہونے کی صورت میں یہ اقدامات مرد و عورت کے درمیان موجود طاقت کی روایتی مساوات کی بنیاد تبدیل کر دیں گے۔ ایک ایسی بات جسے تسلیم کرنا مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے لیے بہت مشکل ہو گا۔
قانون کے مسودے پر پنجاب کے گورنر نے دستخط کر دیے ہیں تاہم صوبائی حکومت نے اب تک باضابطہ طور پر مطلع نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ صوبائی حکومت ممکنہ طور پرقانون صوبائی اسمبلی واپس بھیج کر اسے کمزور کروانے کے لیے رضامند ہو گئی ہے۔حکومت اگر اس قانون سے پیچھے ہٹتی ہے تو بہت سی انگلیاں طاقتور فوجی ادارے پر اٹھیں گی جن کے بارے میں وسیع پیمانے پر گمان کیا جاتا ہے کہ ماضی میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے کئے جانے والے مظاہرے انہی کے ایما پر ہوئے تھے۔مثال کے طور پر 1977ء کی مذہبی تحریک سے لے کے 90 کی دہائی کے ''ملین مارچوں‘‘ تک، یکے بعد دیگرے سیاسی حکومت گرانے والے مظاہرے۔کئی حلقے سمجھتے ہیں کہ حکومت پیچھے ہٹنے کی صورت میں ہونے والے نقصان کی سیاسی قیمت ادا کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔یہ قانونی مسودہ صوبائی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور ہوا ہے جو عوام کی مرضی کی غمازی کرتا ہے۔ پیچھے ہٹنے کی صورت میں جمہوریت کو نقصان پہنچے گا۔ اس سے خواتین میں بھی مایوسی پھیلے گی جنھوں نے اس قانون سے اپنی امیدیں باندھ لی ہیں۔اس کے علاوہ قانون واپس لینے یا کمزور کرنے کے اقدام سے سماجی بنیاد پرستی کو مزید فروغ ملے گا جس سے نمٹنے کے لیے سول حکومت اور فوج دونوں کم از کم گھریلو محاذ پر جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved