تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-03-2016

نازِ بالیدگی

انسان کی پوری تاریخ یہی ہے، اقتدار کی وحشیانہ آرزو میں باہم ٹکراتے لشکر۔ ان کے لیے استعمال ہوتے اور ان کی زد میں آنے والے عامی۔ انسان کی پوری تاریخ یہی ہے۔
تاب نہیں لا سکتا۔ جس آدمی کے سینے میں احساس کی ایک رمق بھی ہو، وہ اس تصویر کی تاب نہیں لا سکتا۔ یہ ایک چار سالہ بچی ہے‘ جسے کوئی زخم نہیں لگا۔ جس کے پاکیزہ چہرے پر رنج اور ملال کا شائبہ تک نہیں۔ فقط حیرت ہے اور تجسس۔ پھر بھی، پھر بھی ایک نظر ڈالتے ہی احساس ہوا کہ ہزاروں لوگوں کو اس نے رلا دیا ہو گا۔ دیارِ شام میں کسی مظلوم اور مجروح گھرانے کی یہ نور نظر، اُس بچے سے مختلف نہیں، جو ترکی کے ساحل پر جان ہار گیا تھا۔ ساری دنیا میں اس پر ایک کہرام مچا تھا۔ اس کے باوجود کہ جہاد کی جعلی تحریکوں نے دراصل جو قوم پرستی، اقتدار طلبی اور حُب جاہ کی تحریکیں ہیں، پورے عالم میں مسلمانوں کو رسوا کر دیا ہے، بعض مغربی ملکوں نے اپنی سرحدیں ان کے لیے کھول دیں۔ انسانوں کا خالق جب کوئی فیصلہ فرما لے تو دلوں کو وہ بدل ڈالتا ہے۔ فرمایا: لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ فرمایا: انسانوں کے دل دشت میں پڑے ہوئے پر کی مانند ہیں، ہوا جسے الٹاتی پلٹاتی ہے‘‘۔
جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے نا مقبولیت گوارا کی مگر شام کے مہاجرین کو اپنے وطن میں داخلے کی اجازت دے دی۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا: مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہیں، جب اس کے ایک حصے کو ضرر پہنچے تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں۔ جدید ملائشیا کے معمار ڈاکٹر مہاتیر محمد سمیت کتنے ہی صاحب دل چیختے رہ گئے۔ کسی بھی مسلم ریاست نے ان پر اپنا دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ فراقؔ نے کہا تھا ؎
جب جب اسے سوچا ہے دل تھام لیا میں نے
انسان کے ہاتھوں سے انسان پہ کیا گزری
اللہ جانے اس میں کیا بھید ہے کہ دنیا کا سب سے قدیم شہر دمشق جب سے آباد ہوا، طوفانوں کی زد میں ہے۔ تین ہزار برس ہوتے ہیں بخت نصر نے جب اس سرزمین میں آباد موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں پر یلغار کی تھی۔ ان میں سے کچھ ایران میں پناہ گزین ہوئے۔ انہی کا دیار اصفہان ہے۔ اصل میں یہ ایسپاہان تھا‘ اسی ہزار یہودیوں کو جہاں گھوڑوں کی خدمت پر مامور کر دیا گیا۔ سرکارؐ سے منسوب ہے کہ اس شہر کے کالے کپڑوں والے (اس معرکہ عظیم میں جو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان آخر کار فیصلہ کن ہو گا)امت کا ساتھ نہیں دیں گے۔ ہجرت کرنے والوں کے قافلے اپنی صلیبیں اٹھائے بھاگتے چلے گئے۔ ان میں سے کچھ خراسان کے دور دراز گوشوں تک پہنچے، جس کا ایک حصہ بعد میں افغانستان کہلایا۔ شورشوں کا مرکز، ہمیشہ شمال کے حملہ آوروں کی زد میں۔ گیارہ سو سال پہلے غزنی ایک سلطنت کا مرکز بنا تو ماوراء لنہر کے علاوہ، آس پاس کی آبادیوں کے شہسواربرصغیر کا رخ کرنے لگے۔ بلاد شام کے کچھ مہاجرکشمیر جا پہنچے، دنیا کا سب سے اونچا میدان۔ دو ہزار برس وہ الگ تھلگ اور آسودہ رہے۔ ایک ہزار برس پہلے برصغیر کے ہندو سماج پر پہلی بڑی دستاویز، کتاب الہند کے مصنف البیرونی نے لکھا: ''کوئی غیر یہودی کشمیر میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ ساڑھے آٹھ صدیوں تک شمال سے یلغار ہوتی رہی جب احمد شاہ ابدالی نے پانی پت میں مرہٹوں کو شکست دے کر ان کا زور توڑ دیا۔ مغلوںکے جانشین تھک گئے تھے۔ چغتائیوں کا سورج غروب ہو گیا اور سات سمندر پار سے آنے والے فرنگیوں کا علم برصغیر پر لہرانے لگا۔ خانہ 
جنگی کا دور ختم ہونے کے بعد ڈیڑھ صدی تک لہراتا رہا۔
اس بچی کی کہانی بہت ہی مختصر ہے۔ تصویر بنانے کے لیے کیمرے سے جب اسے ہدف بنایا گیا تو وہ اسے رائفل سمجھی اور اپنے ہاتھ اس نے بلند کر دیئے۔
یہ اس نادر روزگار شاعر مجید امجد کی ایک نظم ہے اور یہ سوال کرتی ہے کہ جس دنیا میں بچے ہی محفوظ نہ ہوں، اس کا جمال کیا‘ اس کا جلال کیا‘ اُس کی تہذیب کیا اور اُس کا مستقبل کیا:
برہنہ سر ہیں، برہنہ تن ہیں، برہنہ پا ہیں شریر روحیں
ضمیرِ ہستی کی آرزوئیں
چٹکتی کلیاں 
کہ جن سے بوڑھی، اداس گلیاں 
مہک رہی ہیں 
غریب بچے کہ جو شعاعِ سحرگہی ہیں 
ہماری قبروں پہ گرتے اشکوں کا سلسلہ ہیں 
وہ منزلیں جن کی جھلکیوں کو ہماری راہیں 
ترس رہی ہیں 
انہی کے قدموں میں بس رہی ہیں 
حسین خوابوں 
کی دھندلی دنیائیں جو سرابوں 
کا روپ دھارے 
ہمارے احساس پر شرارے 
انڈیلتی ہیں 
انہی کی آنکھوں میں کھیلتی ہیں 
انہی کے گم سم 
اداس چہروں پر جھلملاتے ہوئے تبسم 
میں ڈھل گئے ہیں ہمارے آنسو، ہماری آہیں 
طویل تاریکیوں میں کھو جائیں گے جب اک دن 
ہمارے سائے
اس اپنی دنیا کی لاش اٹھائے 
تو سیلِ دوراں 
کی کوئی موجِ حیات ساماں 
فروغِ فردا 
کا رخ پہ ڈالے مہین پردا 
اچھل کے شاید 
سمیٹ لے زندگی کی سرحد 
کے اس کنارے 
یہ گھومتے عالموں کے دھارے 
یہ سب بجا ہے ، بجا ہے ، لیکن... 
یہ توتلی نوخرام روحیں کہ جن کی ہر سانس انگبیں ہے 
اگرانہی کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے 
تو بہتی ندیوں 
میں آنے والی ہزار صدیوں 
کا یہ تلاطم 
سکوتِ پیہم کا یہ ترنم
یہ جھونکے جھونکے
میں کھلتے گھونگھٹ نئی رتوں کے
تھکی خلاؤں
میں لاکھ اَن دیکھی کہکشاؤں
کی کاوشِ رم
ہزار ناآفریدہ عالم...
تمام باطل
نہ ان کا مقصد نہ ان کا حاصل
اگر انھی کونپلوں کی قسمت میں نازِ بالیدگی نہیں ہے
غلبے کی آرزو، سرزمین شام کا وحشی بشارالاسد اسی کا استعارہ ہے اور اس کی پشت پر کھڑا ہوا ایران اور روس بھی۔ اس سے برسرِ جنگ عرب ممالک‘ القاعدہ اور داعش کے جنگجو بھی۔ امریکہ اور مغربی یونین بھی۔
انسان کی پوری تاریخ یہی ہے، اقتدار کی وحشیانہ آرزو میں باہم ٹکراتے لشکر ان کے لیے استعمال ہوتے اور ان کی زد میں آنے والے عامی۔ انسان کی پوری تاریخ یہی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved