تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-03-2016

اہلِ مذہب اور حکمران طبقہ

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ لبرل بننے کے خواہش مند حکمران، جب وقت آیا تو اہل مذہب کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئے۔ رہے اہل مذہب تو وہ جانتے ہیں کہ بازارِ سیاست میں عوام کے مذہبی جذبات کا نرخ، اِن دنوں کیا ہے۔
بھٹو صاحب کی داستان ہمارے سامنے ہے۔ مشرف بھی کتوں کے ساتھ تصویر بنا کر مصطفیٰ کمال بنے پھرتے تھے۔ ان کا لبرل ازم بھی ان کی ذاتی خواہشات سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ خواتین کے حقوق پر ان کے دور حکومت میں بھی ایک قانون بنا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس کا محرک تھی۔ آج نظریاتی کونسل کو ثالث ماننے والے، اُس وقت اس قانون اور کونسل کے خلاف شمشیرِ برہنہ بن گئے۔ مشرف صاحب نے اہل مذہب کو جمع کیا اور نظریاتی کونسل کے مقابلے میں ایک نیا بل تجویز کر دیا گیا۔ حکمران شاید ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آدمی سوچتا ہے، جس کہانی کا انجام پہلے سے معلوم ہے، اس کے بار بار آغاز کا فائدہ؟
پاکستان کے مذہبی سیاست دان انتخابات میں جیت نہیں سکتے‘ لیکن وہ مذہب کے نام پر جذبات کو مشتعل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کبھی ایسی نہیں تھی۔ سنجیدہ سیاست اور متعین اہداف۔ لوگ ساتھ چلیں یا نہ چلیں۔ موقف اور طرز سیاست کا تعین عوامی جذبات سے نہیں، فکری یک سوئی اور اطمینان کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ یہ مگر ماضی کی داستان ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ عوام نے مذہب کو نہیں، لیکن مذہبی سیاست دانوں کو مسترد کر دیا تھا۔ یہ حکمران طبقہ ہے جس نے انہیں زندہ رکھا۔
تاریخ یہی ہے کہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ دور اوّل میں یہ جنگ نظریاتی تھی۔ اہل مذہب اخلاص کے ساتھ ایک اسلامی ریاست کی تشکیل چاہتے تھے۔ ان کے اس تصور پر علمی و فکری بحث ممکن ہے‘ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے خلوص کے ساتھ جدوجہد کی۔ اس کا حاصل 1973ء کا آئین ہے۔ ریاست نے کلمہ پڑھ لیا۔ میرا کہنا ہے کہ اس کے بعد پاکستان میں مذہبی سیاست کا جواز ختم ہو گیا۔ دورِ ثانی کا آغاز بھٹو صاحب کے خلاف سیاست میں ہوا، جب 'سوشلزم کفر ہے‘ کا نعرہ بلند ہوا۔ یہ ایک مبالغہ آمیز خیال اور فکری انتہا پسندی تھی۔ اسلامی سوشلزم پر سو علمی اعتراضات وارد ہوتے ہیں‘ لیکن اسے کفر کہنا ایک جسارت تھی۔ اس تحریک کا نقطۂ عروج تحریک نظامِ مصطفیٰ تھی۔
بھٹو صاحب کے خلاف جاری مذہبی سیاست سے، سب سے زیادہ فائدہ ضیاء الحق مرحوم نے اٹھایا۔ پھر نواز شریف صاحب نے۔ سوشلزم کے بعد، اسلام میں عورت کی حکمرانی کا سوال اٹھایا گیا اور اسلام کے زور پر بے نظیر صاحبہ پر اقتدار کے دروازے بند کرنے کی کوشش ہوئی۔ نواز شریف صاحب کو اس کا فائدہ ہوا۔ اس راہ کے تیسرے مسافر پرویز مشرف تھے، جب متحدہ مجلس عمل نے ان کے اقتدار کو آئینی جواز فراہم کرنے کے لیے دست تعاون دراز کر دیا۔
اس دوران میں سیاسی ارتقا نے عوام کو باشعور بنا دیا۔ لوگوں نے جان لیا کہ اہل مذہب استعمال ہوتے ہیں‘ اور چند حقیر سیاسی فائدوں کے لیے عوام کے مذہبی جذبات کو کسی بے نظیر اورکسی نواز شریف کے ہاتھوں فروخت کر دیتے ہیں۔ یوں مذہبی سیاست اپنا تمام تر جواز کھوتی چلی گئی۔ اگر کوئی باقی بچا تو وہ مولانا فضل الرحمن تھے۔ انہوں نے کمال مہارت اور دانش مندی سے ایک حکمت عملی تشکیل دی اور مذہب سے سیاسی مفادات کشید کیے۔ میں یہ لکھ چکا کہ اس کی بنیاد مذہب کی سماجی قوت تھی جسے انہوں نے بہت خوبی کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا۔ اس وقت جو اتحاد تشکیل پا رہا ہے، اس کی اصل قوت وہی ہیں۔ انہوں نے ایک طرف وفاق المدارس کے ملک گیر اجتماع کا اعلان کر رکھا ہے‘ اور دوسری طرف حقوقِ نسواں قانون کے خلاف تحریک بھی اٹھا رکھی ہے۔ حکومت بھی جانتی ہے کہ اہلِ مذہب کی اصل قوت وہی ہیں۔ اس لیے معاملہ بھی انہی سے کرنا چاہیے۔ مو لانا حکومت کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہیں۔ وزیر اعظم نے کسی اور کو نہیں، صرف انہی کو ملاقات کے لیے بلایا۔ ان کی سابقہ سیاست کو دیکھتے ہو ئے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ اگر حکومت اور مولانا کے مابین 'اتفاقِ رائے‘ ہو گیا تو اس قانون کے خلاف تحریک دم توڑ دے گی۔ اسلام اور خاندانی نظام پر منڈلاتے ہوئے خطرات کے بادل یک دم چھٹ جائیں گے۔ اشک شوئی کے لیے بل کی ایک آدھ سطر بدلی جا سکتی ہے تاکہ مولانا اسے جواز بنا کر تحریک کا دم نکال دیں۔ 
میرے نزدیک مذہبی طبقے کی اس قوت کا راز حکمران طبقے کی کمزوری اور کم نگاہی میں پو شیدہ ہے۔ یہ پیپلز پارٹی ہو، ن لیگ ہو یا تحریکِ انصاف، ان کے پاس مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کا کوئی بیانیہ موجود نہیں۔ وہ اس بحث کے فکری پہلوئوں سے بے خبر اور اس معاملے کو صرف سیاسی فائدے اور نقصان کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ یہ ممتاز قادری کی سزا ہو یا حقوق نسواں کا بل، اس کا کوئی تعلق حکومت کے کسی نظریے یا سوچ سے نہیں ہے۔ اربابِ اقتدار اگر اسلام کی بات کرتے ہیں‘ تو مکمل لاتعلقی کی بنیاد پر۔ اسی طرح اگر لبرل ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں تو بھی اس کی کوئی نظریاتی بنیاد موجود نہیں۔ اگر حکمرانوں میں کوئی اس باب میں واضح نقطہ نظر رکھتا تھا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے؛ تاہم انہیں نظریات سے زیادہ اقتدار سے لگاؤ تھا۔ اس لیے انہوں نے بھی اپنے نظریات کے برخلاف، اہلِ مذہب کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ لبرل اقدار کی کچھ جھلک پیپلز پارٹی میں موجود ہے لیکن اس کا معاملہ بھی اپنے بانی جیسا ہے۔
پاکستان کو ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کے حوالے سے ایک جدید بیانیے کی ضرورت ہے۔ یہ مذہبی طبقے کے پاس ہے نہ حکمران طبقے کے پاس۔ دونوں مذہب کو عوامی جذبات کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں۔ حکومت یہ دیکھ رہی ہے کہ مذہبی سیاست دان کیا ان مسائل پر کوئی عوامی تحریک اٹھا سکتے ہیں؟ اگر انہیں یہ اندازہ ہو جائے کہ ایسا ممکن نہیں تو ان سے بڑھ کر لبرل کوئی نہیں ہو گا۔ اگر ان کا تجزیہ یہ ہو کہ اس سے ان کے اقتدار کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں‘ تو پھر ان سے بڑھ کر مذہبی بھی کوئی نہیں۔ کم از کم اہلِ مذہب میں مولانا فضل الرحمٰن کو اس کی اچھی طرح خبر ہے۔ یوں ان کی حکمتِ عملی بہت حقیقت پسندانہ ہے۔
موجودہ مذہبی سیاست کا اسلام کے مستقبل سے کوئی تعلق ہے اور نہ حکومت کا لبرل ازم سے۔ اہلِ مذہب کا کہنا ہے کہ وہ ایک بار پھر 1977ء کی تحریک نظامِ مصطفیٰ کی طرز پر، ایک نئی تحریک برپا کر دیں گے۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس تحریک کا اسلام کو کیا فائدہ ہوا؟ کیا اس کے نتیجے میں ریاست یا سماج نے ایک انچ بھی اسلام کی طرف پیش قدمی کی؟ حکومت سے پوچھا جا نا چاہیے کہ اگر وہ خواتین کے حقوق کے باب میں ایسی ہی سنجیدہ اور اسلام کی 'روشن خیال‘ تعبیر پر یقین رکھتی ہے تو صرف روایتی مذہبی لوگوں سے مشاورت کیوں؟ وجہ وہی ہے جو میں عرض کر چکا۔ عوام کے مذہبی جذبات بھڑکانے کی صلاحیت صرف روایتی علما میں ہے، اس لیے مشاورت بھی انہی سے ہو رہی ہے۔
افسوس کہ اس ملک کو اسلام خالص مل سکا‘ نہ لبرل ازم۔ ہر چیز کو مختلف طبقات نے جنس بازار بنا دیا۔ کتنے سادہ ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران طبقے کی کوئی نظریاتی وابستگی بھی ہو سکتی ہے۔ اس حکمران طبقے میں اب اہلِ مذہب بھی شامل ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved