تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-03-2016

کیا کروں‘ کدھر جائوں؟

بہت اشتعال انگیز دن گزر رہے ہیں۔ ایک نوجوان کو صرف دوائیں دینے اور مجھے تنگ کرنے کے لئے رکھ لیا گیا ہے۔ اسے یہ فکر نہیں ہوتی کہ میں کیا سوچ رہا ہوں اور اس فکر میں ہوتا ہوں کہ سوچ رہا ہوں‘ کیا سوچوں؟ اسی سوچ بچار کے دوران وہ نوجوان نمودار ہوتا ہے ''آپ کی دوا کا وقت ہو گیا۔‘‘ ہو سکتا ہے‘ وہ گھنٹے دو گھنٹے بعد آتا ہو۔ مجھے یوں لگتا ہے‘ یہ ابھی گیا تھا اور ابھی واپس آ گیا ہے۔ کالم لکھنا میرا پیشہ ہے اور مجھے دوا دینا اس نوجوان کا پیشہ ہے۔ جب دو متصادم پیشے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پڑ جائے‘ تو یہ ایک نہایت ہی اذیت ناک تجربہ ہے۔ اسے دوا دینے سے روکتا ہوں‘ تو اپنی بیماری سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے اور بیماری سے نہ بچوں‘ تو وہ مجھے اس پیاری پیاری دنیا سے دھکے مار کے نکال دے گی۔ اس بات سے میں بہت ڈرتا ہوں۔ جہاں تک دوسری دنیا کا تعلق ہے‘ مجھے اس کے بارے میں پورا پتہ نہیں۔ ہو سکتا ہے‘ میری روح نکال کر‘ فرشتے مجھے میری آخری منزل تک پہنچا دیں۔ وہ کیا ہو گی؟ جنت یا دوزخ؟ جنت کی امید لگانے کا حق تو مجھے حاصل نہیں اور دوزخ میں جانے سے ڈرتا ہوں۔ وہیں رہنا پڑ گیا تو؟ کبھی کبھی سوچتا ہوں‘ فرشتوں نے میری روح قبض کر کے آسمانوں کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ہی کہیں چھوڑ دی تو؟ ابھی تک فرشتوں کی قبض کردہ کسی روح کو ادھر ادھر بھٹکتے نہیں دیکھا۔ بہت سے لوگوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ کہیں بھٹکی ہوئی روح تو نہیں؟ ایسے لگتا ہے‘ جیسے فیلڈ مارشل ایوب خان‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاالحق کہیں وہی روحیں تو نہیں‘ جنہیں فرشتوں نے نکال کر واپس جاتے ہوئے کہیں خلا میں چھوڑ دیا ہو؟ کیونکہ جنت یا دوزخ سے بہت عرصہ ہوا کوئی خبر نہیں آئی اور خلائوں میں کبھی کسی کی بھٹکتی روح کا نشان نہیں ملا۔ جو بھٹکی روح ملی‘ وہ ایم کیو ایم کے کارڈ ہولڈر کی تھی۔ مجھے کوئی ایم کیو ایم والا کہیں ملا‘ تو میں نے بڑی محنت اور محبت سے اسے مشورہ دیا ''بھائی! تم ایم کیو ایم چھوڑ دو۔‘‘ اس نے بڑے اخلاق سے جواب دیا ''حضور! جیسے آپ چاہیں۔ دل کبھی ایم کیو ایم میں رہنے کو نہیں چاہا۔ لیکن کسی نے کبھی کوئی مفید مشورہ بھی نہیں دیا۔ آپ پہلے آدمی ہیں‘ جنہوں نے بار بار مجھے کام کا مشورہ دیا اور میں اسی پر عمل کر رہا ہوں۔‘‘ 
'کیا آپ نے ایم کیو ایم چھوڑ دی؟‘‘
''جی بالکل!‘‘
''پھر کس جماعت میں گئے؟‘‘
''ایم کیو ایم۔‘‘
''حد ہو گئی؟ آپ نے ایم کیو ایم چھوڑی اور پھر ایم کیو ایم میں گئے؟‘‘
''کیا کرتا بھائی؟ ایک اور ایم کیو ایم بن گئی۔ میں نے سوچا اگر نئی ایم کیو ایم میں جانا ہے‘ تو اسی میں چلے جاتے ہیں۔‘‘
''آپ بڑے خوش نصیب ہیں۔ ایک ایم کیو ایم چھوڑتے ہیں اور فوراً ہی دوسری میں شامل ہو جاتے ہیں؟‘‘
''میری قسمت میں یہی لکھا ہے۔ اردو بولتا ہوں اور جب بھی یہ پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں جاتا ہوں‘ تو وہ بھی ایم کیو ایم ہوتی ہے۔ اپنے بھائی بندوں کے بغیر رہنا بھی نہیں آتا۔ جس دوسری پارٹی میں جاتا ہوں‘ وہاں پہلے سے موجود سارے ساتھی‘ مجھ سے اردو میں بات کرتے ہیں۔‘‘
''تم ایسا کرو پنجابی‘ پشتو یا سندھی سیکھ لو۔ اس طرح تمہیں ایم کیو ایم میں رہنے کی عادت پڑ جائے گی۔‘‘
''یہ بھی کر کے دیکھ لیا۔ جس پارٹی میں گیا‘ اندر سے وہ ایم کیو ایم نکلی۔‘‘
''یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
''آئیے! آپ کو تجربہ کر کے دکھاتا ہوں۔‘‘
کسی بھی راہ گیر کو روک کر اس سے پوچھ لیں کہ ''بھائی تم کس پارٹی میں ہوتے ہو؟‘‘
''میں اپنی پارٹی میں ہوتا ہوں۔‘‘
''اس کا نام کیا ہے؟‘‘
''ایم کیو ایم۔‘‘
''عجیب بات ہے۔ تم ایک ہی آدمی ہو اور جب میں تمہیں یہ پوچھتا ہوں کہ تم کس پارٹی میں ہو؟ جواب دیتے ہو میں ایم کیو ایم میں ہوں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں؟‘‘
''حیرت کی بات تمہارے لئے ہو گی۔ میرے لئے نہیں۔‘‘
''وہ کس طرح؟‘‘
''میں نے اپنی طرف سے بار بار ایم کیو ایم کو چھوڑ کر دیکھا۔ مگر جس پارٹی میں گیا‘ وہ بھی ایم کیو ایم ہی تھی۔ ہر پارٹی کے سربراہ الطاف بھائی تھے۔ ہر پارٹی کے کارکن بے چین تھے کہ انہیں اپنے لیڈر کے شکنجے سے آزادی مل جائے‘ لیکن نہیں ملی۔ میں تو خود بے تابی سے اس تلاش میں ہوں کہ مجھے الطاف بھائی کی قیادت سے نجات مل جائے‘ مگر وہاں بھی الطاف بھائی سے ہی پالا پڑا۔ یقین کرو‘ مجھے تم بہت اچھے لگتے ہو۔ میں جس ایم کیو ایم میں بھی جاتا ہوں‘ وہاں کے لیڈر الطاف بھائی ہی نکلتے ہیں اور ہر الطاف بھائی‘ مجھے ایک تابع فرمان آدمی سمجھتا ہے‘ جس کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ اپنا کوئی ذاتی خیال نہیں ہوتا۔ اپنی سوچ نہیں ہوتی۔ وہ صرف الطاف بھائی کا روبوٹ ہوتا ہے۔ اس لئے اپنی پارٹی چھوڑ کر‘ ایم کیو ایم میں جانے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ آپ ایم کیو ایم کو چھوڑ کر‘ ایک نئی ایم کیو ایم میں آ گئے ہیں۔ وہی کلچر۔ وہی چمچہ گیری۔ وفاداری کا وہی طوق۔ جو بھائی فرما دیں‘ اس پر عمل کرو۔ بھائی کے کسی بھی خیال کو غلط کہہ دو‘ تو بھائی پھر یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کو سیدھا راستہ سالم ہڈیوں کے ساتھ دکھایا جائے۔ میں خوش نصیب ہوں کہ جس پارٹی میں جاتا ہوں‘ الطاف بھائی مل جاتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ مجھے یہ لگتی ہے کہ میں ہر پارٹی میں الطاف بھائی ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔‘‘
''تم نے الطاف بھائی ڈھونڈنے کی کتنی بار کوشش کی؟‘‘
''جتنی بار ہو سکا۔‘‘
''اس کے بعد پورے پاکستان میں کوئی الطاف بھائی نہیں ملے؟ تم کسی بھی پارٹی میں چلے جائو‘ ساری لیڈرشپ کو تلاش کر کے دیکھ لو‘ تمہیں کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں ملے گا‘ جو الطاف بھائی سے مختلف ہو۔‘‘
''پھر میں کدھر جائوں؟‘‘
''کہیں بھی چلے جائو‘ وہاں ایک لیڈر ضرور ملے گا۔ آپ کو تسلی بھی دلائے گا کہ اس کی پارٹی میں کوئی الطاف بھائی نہیں۔ لیکن جیسے ہی آپ نئی پارٹی ڈھونڈنے نکلیں گے‘ تو سامنے آپ کو الطاف بھائی ملیں گے اور آپ کے اندر سے جی بھائی! کہنے والا ایک جاں نثار نکلے گا‘ جو الطاف بھائی کے سامنے گڑگڑا رہا ہو گا۔‘‘
''پھر میں کدھر جائوں؟‘‘
''یہیں رہو۔ یہیں الطاف بھائی کے کارکن بنو۔ یہاں ہر طرف ایم کیو ایم ہی ایم کیو ایم ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved