تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     20-03-2016

جنرل پرویز مشرف کی اُڑان

جنرل (ر) پرویز مشرف علاج کے لئے بیرونِ ملک پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے دبئی جا کر پہلا کام جو کیا، وہ اپنے مداحوں سے ایک طویل ملاقات تھی۔ کمر کے درد میں مبتلا ہمارے کمانڈو نے دو گھنٹے سے زیادہ بے تکان تبادلہء خیال کیا اور بتایا کہ وہ چند روز میں اپنا طبی معائنہ کرائیں گے۔ جنرل موصوف کی بیماری کو سیاسی قرار دینے والے کم نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کمر کی جو تکلیف ان کو لاحق بیان کی گئی ہے، وہ ستر سال کے ستر فیصد لوگوں کو لاحق ہو سکتی ہے۔ اس کا علاج پاکستان کی گلی گلی میں ہوتا ہے، ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکٹر یہاں پائے جاتے ہیں اور جنرل صاحب کی کمر کس کر دکھا سکتے ہیں، لیکن یہ تو بہرحال مریض کی صوابدید پر ہے کہ وہ اپنا علاج کس سے اور کہاں کرانا چاہتا ہے۔ جنرل صاحب نے اس کے لئے دبئی یا براستہ دبئی امریکہ کا انتخاب کیا ہے‘ تو ان کی مرضی۔ 2014ء میں ان کی والدہ کی بیماری کا چرچا ہوا تھا، وہ دبئی میں زیر علاج تھیں اور جنرل صاحب ان کی عیادت کے لئے وہاں جانا چاہتے تھے، لیکن حکومت ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے پر تیار نہیں تھی۔ سو انہیں سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ وہاں سے انہیں ریلیف تو ملا، لیکن عملاً ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا کہ عدالت نے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کے باوجود یہ حکم پندرہ روز کے لئے معطل کر دیا تاکہ وفاقی حکومت چاہے تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر سکے۔ اس سے فائدہ اٹھایا گیا اور اٹارنی جنرل بنفس نفیس سپریم کورٹ جا پہنچے۔ وہاں مقدمہ چلنا شروع ہوا تو اب جا کر نتیجے پر پہنچا ہے۔ سپریم کورٹ نے ان کے لئے دروازہ کشادہ کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی کو اپنے ذمے لینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس نے تو سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے یہ اقدام کیا ہے۔ دلچسپ تر بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ان کا نام 5 اپریل 2013ء کو ای سی ایل میں ڈالا تھا، جبکہ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں جو حکم جاری کیا اس پر 8 اپریل 2013ء کی تاریخ درج ہے۔ گویا وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے تحریری حکم سے پہلے ہی انہیں پاکستان کی حدود میں قید رکھنے کا فرمان جاری کر دیا تھا۔ کہا جا سکتا ہے ایسا سپریم کورٹ کی منشا بھانپتے ہوئے کیا گیا، لیکن یہ تو بہرحال کہنے کی بات ہو گی۔
جنرل پرویز مشرف کے وکلا کا استدلال تھا کہ سپریم کورٹ نے 8 اپریل کو جو کچھ کہا، وہ ایک عبوری حکم تھا، جب پرویز مشرف کے خلاف دائر کی جانے والی درخواست کو نبٹایا گیا‘ تو اس میں اس کا اعادہ نہیں کیا گیا، اس لئے یہ ختم ہو گیا، جبکہ اٹارنی جنرل زور دے رہے تھے کہ سپریم کورٹ کا مذکورہ حکم اپنی جگہ ایک الگ حکم ہے، اسے عبوری نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے تحت پرویز مشرف پاکستان کی سرزمین سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔ سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور قرار دے دیا کہ جنرل پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم بلا جواز ہے۔ وفاقی حکومت نے اپیل دائر کی تو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپنے پرانے حکم کو عبوری قرار دے کر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ وفاقی حکومت یا پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت اگر چاہے تو اس حوالے سے کوئی بھی قانونی حکم جاری کر سکتی ہے۔ یعنی سپریم کورٹ کے کندھے پر بندوق رکھنے کے بجائے اپنے کندھے پر اپنی بندوق رکھ کر اپنا کارتوس استعمال کرے اور اپنے ہدف کو مار گرائے۔ ایک نیا حکم جاری کرنا وفاقی حکومت کے لئے آسان نہیں تھا، سو اس نے اپنی مشکل یوں آسان کر لی کہ جنرل پرویز مشرف کو اُڑنے کا اذن دے دیا۔ اب معاملہ ان کی اپنی بیماری کا تھا، دو سال پہلے ہی سے وہ اپنی کمر کی دہائی تو دے رہے تھے، لیکن اس وقت زیادہ تر زور والدہ صاحبہ کی علالت کا تھا، اب سارا بوجھ ان کے اپنے کندھوں نے اٹھا لیا ہے۔ وفاقی حکومت کے فیصلے نے اس کے حریفوں کو بہت پریشان کر دیا، پیپلز پارٹی تو باقاعدہ خم ٹھونک کر میدان میں آ گئی، بلاول بھٹو اور خورشید شاہ بیک وقت بین کرنے لگے۔ بھرپور احتجاج کرنے کا اعلان کیا لیکن پنچھی اُڑ چکا تھا۔ رانا ثناء اللہ انہیں تسلیاں دے رہے ہیں کہ عدالت نے حکم جاری کیا تو انٹرپول کے ذریعے جانے والے کو واپس لے آیا جائے گا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف اس وقت دستور کی دفعہ 6 کے تحت غداری کیس کے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ چل رہا ہے، لال مسجد کی واردات بھی زیر سماعت ہے۔ ججوں کو قید کرنے کا الزام بھی ان کے سر ہے اور باقاعدہ کارروائی جاری ہے۔ اکبر بگٹی کے قتل کے حوالے سے جو مقدمہ ان پر قائم کیا گیا تھا، اس میں وہ بری ہو چکے ہیں، لیکن دوسرے مقدمات عدالتوں میں ہیں اور ان کے باقاعدہ ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہو چکے ہیں۔ ایسے میں پرویز مشرف کی اُڑان سے ان کے مخالفین کسمسا رہے ہیں۔ ان کو یہ صدمہ بھی پہنچا ہے کہ نواز شریف حکومت نے اپنے آپ کو آسمانی بجلیوں سے بچا لیا ہے۔ اس حوالے سے جو امیدیں لگائی جا رہی تھیں، ان پر پانی پڑ چکا ہے۔
پرویز مشرف پر جو مقدمات قائم ہیں، اگر ان کی تفصیل میں جائیں اور موصوف نے ان کا جس طرح ''سامنا‘‘ کیا ہے، اس کا جائزہ لیں تو ایک ایک دن کی ایک ایک کروٹ یہ واضح کر رہی ہے کہ کسی سابق آرمی چیف کے خلاف کارروائی معمول کا معاملہ نہیں ہے، بالخصوص آرٹیکل 6 کے تحت انتہائی غداری کا مقدمہ تو انتہائی کٹھن ہے۔ دستور میں یہ دفعہ رکھ کر اس کے بنانے والوں نے اپنے تئیں مارشل لاء کا جو راستہ روکا تھا، وہ خیالِ خام تھا۔ اٹھارہویں ترمیم کے خالقوں نے اسے زیادہ وسعت دے کر جو تیر مارا، وہ بھی اپنے ہدف کو نہیں لگا۔ ایک ایسا قدم جو فوج ایک ادارے کے طور پر اٹھاتی ہے، اس کے ذمہ دار کو کٹہرے میں کھڑا کرنا آسان ہے نہ ہو گا۔ پاکستان میں دستور سے بالاتر کوئی اقدام جب بھی ہوا ہے، فوج نے ایک ادارے کے طور پر کیا ہے، مشرق وسطیٰ یا بعید کی طرح کسی باغی گروپ یا عنصر کو اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اداراتی اقدام کی پاداش میں کسی ایک فرد کو سزا دلوانے کے حق میں جو بھی دلائل دیئے جائیں، عملاً یہ کارِ دارد ہو گا۔ پاکستان کے اہلِ سیاست اور اہل دانش کے لئے یہ مقام گہرے غور و خوض کا ہے۔ کرپشن اور بداعمالیوں کے سمندر میں ایک دوسرے کو غوطے دینے والے، فوجی قیادت کی مرضی کے علی الرغم احتساب کا ڈول نہیں ڈال سکیں گے۔ معاملات ضرورتوں کے تابع رہیں گے، تو نظریہ ضرورت مرمر کر زندہ ہوتا رہے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved