کس قدر احمقانہ بات ہے۔کبھی کسی قوم کا داخلی بحران‘ کسی دوسرے ملک نے نمٹایا ہے؟ ایک دوسرا ملک اور وہ بھی برطانیہ بہادر جس کے سرکاری ادارے الطاف حسین کو ڈھانپنے پر تلے ہیں۔ تین برس میں وہ کالا پیسہ سفید کرنے کی شہادتیں تلاش نہیں کر سکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دہشت گردی پر وزیر اعظم اور سپہ سالار کی ملاقات میں قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ کیوں موجود نہ تھے؟ جنرل راحیل شریف کے ساتھ صرف آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر ہی کیوں شریک ہوئے۔ گزشتہ ملاقاتوں میں بعض دوسرے جنرل بھی شامل ہوا کرتے۔
ایوان وزیراعظم کااعلامیہ یہ کہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اور بھی تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کون سی تیزی؟ بہترین افرادی قوت کے ساتھ افواج پاکستان پہلے ہی بہترین کاوش میں مصروف ہیں۔ کراچی میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں اسی فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ضرب عضب آخری مرحلے میں داخل ہو چکی۔ اگرچہ دوبار پہلے بھی جنرل عاصم سلیم باجوہ نے یہ دعویٰ کیا تھا مگر اب قابل فہم ہے۔ قرائن یہی کہتے ہیں۔
پشاورکے بس دھماکے اور شب قدر کے دوالمناک واقعات کے علاوہ کراچی میں رینجرز کی چوکیوں پر حملے اب بھی جاری ہیں۔ بہت دن کے بعد الطاف حسین منظرِ عام پر آئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ ایم کیو ایم اس کی ذمہ دار نہیں۔ اسی سانس میں مگر یہ بھی کہا کہ اگر اس کے کارکن ملوث ہوں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اپنے دعوے پر یقین خود انہیں بھی نہیں۔کارروائی تو ظاہر ہے کہ ہو گی اور قانون کے مطابق ہی، جو ان کے لیے موت کی سزا تجویز کرتا ہے۔ موقع واردات پرمقابل آئیں تو گولیوں کی بوچھاڑ ان کی سزا ہے۔ دھر لیے گئے اور عدالتوں کے سپرد ہوئے تو کون کہہ سکتا ہے کہ کیا ہو گا۔ 4500گرفتار ملزموں میں سے 1100 ضمانت پر رہا ہو چکے۔ اوّل اوّل تو ایم کیو ایم کی قیادت مانتی ہی نہ تھی کہ ان کا کوئی تعلق اس تنظیم سے ہے۔ صولت مرزا سمیت مختلف مجرموں کے بارے میں شواہد پیش کر دیئے گئے تو یہ ارشاد ہوا کہ 1992ء کے آپریشن میں جو کارکن بھارت بھاگ گئے تھے، ان میں سے بعض ''را‘‘ کے ہتھے چڑھے۔ قیادت بہر حال معصوم ہے۔ اب یہ ثابت ہو چکا کہ لندن میں پارٹی کے مرکزی دفتر کا ''را‘‘ سے مسلسل رابطہ تھا۔ پارٹی رہنما طارق میر کے مطابق ''را‘‘ نے ایم کیو ایم کو پالا اور سنبھالا۔ سرفراز مرچنٹ بھی بہت سے شواہد پیش کر چکے۔ رہا الطاف حسین کا یہ دعویٰ کہ رینجرز کی چوکیوں پر ہونے والے حملوں کا کوئی تعلق ان سے نہیں تو سوال یہ ہے کہ اس سے قبل کب انہوں نے صداقت شعاری کا مظاہرہ کیا ہے کہ اب ان پہ اعتماد کیا جائے۔ اگر وہ قیام پاکستان کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں‘ اپنے کارکنوں کو ساحل سمندر پر فائرنگ کی مشق کرنے کا مشورہ دیتے ہیں‘ جنرلوں کو دھمکاتے ہیں کہ ان کے بیج اور بلے باقی نہ رہیں گے تو یہ الطاف حسین کے کارندوں کے سوا کون ہو سکتا ہے، جو رینجرز کو ہدف کرے؟ نون لیگ، جماعت اسلامی یا تحریک انصاف؟ پیپلز امن کمیٹی، ثروت قادری کی سنّی تحریک اور اے این پی پہلے ہی فرار اختیار کر چکیں۔ بھتہ خوری اور قتل و غارت میں جب وہ ملوث تھے، تب بھی مسلح افواج اور رینجرز ان کا ہدف نہ تھیں۔
حیدر عباس رضوی سمیت ایم کیو ایم کے کتنے ہی لیڈر ملک سے باہر جا چکے۔ ڈاکٹر فاروق ستار ہی اب الطاف حسین کے نفس ناطقہ ہیں۔ دبے الفاظ میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے لوگ دہشت گردی کے مرتکب ہوئے مگر جواز یہ ہے کہ ان کے خلاف کارروائی ہوئی تھی۔
کارروائی تو نواز شریف کے خلاف بھی ہوئی تھی، 12 اکتوبر 1999ء کو انہیں اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ فوج کے خلاف ان کے دل میں نفرت نے جنم لیا، تب سے اس کے سب سے بڑے دشمن بھارت کا تابع مہمل بننے پر آمادہ ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف نے ان کے حقِ اقتدار کو تسلیم کیا۔ جنرل کیانی کا ذکر موصوف نے جب کیا‘ تحقیر کے ساتھ کیا۔ جنرل راحیل سے عالی جناب کو کوئی اندیشہ نہیں مگر ان کی موجودگی میں کبھی نہیں مسکراتے ‘چہرے پہ ہمیشہ رنج کا غلبہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اور سپہ سالار کی درجنوں تصاویر کو یکجا دیکھیے، مسکراہٹ تو دور کی بات ہے، آشنائی کا کوئی تاثر بھی دکھائی نہیں دے گا۔ پھر نریندر مودی کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کے منظر ملاحظہ فرمائیے۔ کھلکھلاتے وہ نظر آتے ہیں‘آسودہ اور شادمان ۔نون لیگ کا میڈیا سیل یا پرویز رشید اگر تردید کریں تو تصاویر چھاپی جا سکتی ہیں۔
میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کو احساس ہے مگر نواز شریف کبھی ادراک نہ کر سکے کہ ان کے خلاف جنرل پرویر مشرف نے اقدام کیا تھا، مسلح افواج نے نہیں... اور جیسا کہ کل عرض کیا تھا 70فیصد پاکستانیوں نے اس کی تائید کی تھی۔ اس لیے کہ عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے نواز شریف ملک کو ایک راجواڑہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب بھی یہی کر رہے ہیںکہ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کریں۔ امن و امان کی انہیں پروا ہے، عدالتی نظام بہتر بنانے، ملازمتیں پیدا کرنے اور نہ ٹیکس وصول کرنے کی۔ جنرل پرویز مشرف کو تختہ دار پر لٹکا کر وہ اپنا کلیجہ ٹھنڈاکرنے کے آرزومند تھے‘ بایں ہمہ نون لیگ کا کوئی کارکن بھارت گیا اور نہ ہی وہ کبھی تخریب کاری کی مرتکب ہوئی۔ یہ بات کبھی کسی کے سان گمان تک میں نہ آئی، اس لیے کہ مسلم لیگی کارکنوں کی تربیت ان خطوط پر نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم کے حامیوں کو ملک کے خلاف اکسایا جاتا رہا۔ اور یہ کارخیر خود الطاف حسین نے انجام دیا۔ ان الفاظ پر ایک بار پھر غور کیجئے ''پاکستان کا قیام‘ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی‘‘۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں پر قیامت ٹوٹتی رہی۔ اس کے سینکڑوں لوگ اغواء اور قتل کر دیئے گئے ۔وہ کیوں تشد دکی طرف مائل نہ ہوئی؟ ملک توڑنا الطاف حسین کاہدف تھا۔ مہاجروں کے حقوق کا تحفظ اور سیاست ہی مطلوب ہوتی تو کس نے انہیں روکا تھا اب بھی کون روکتا ہے؟
وہ ظلم کا شکار ہوئے۔ سیاست کا انہیں حق ہے ۔ کراچی شہر کوڑے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے ‘ پینے کا پانی تک خریدنا پڑتا ہے‘ حتیٰ کہ ڈیفنس جیسی آبادیوں میں۔ سندھ سب سے امیر صوبہ ہے مگر بیشتر بجٹ ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ بلدیات کو اختیار دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ دیہی علاقوں سے جیت کر آنے والے جاگیردار شہری آبادی کی تحقیر کے مرتکب ہیں۔ جتنا بھی احتجاج وہ کریں ان کا حق ہے، مگر دہشت گردی؟
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سرکاری سرگرمیوں میں تیزی لانے کا مطلب کیا ہے؟ فوج کا کردار قابل فہم ہے مگر سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب اور مرکز میں نون لیگ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ فوج الجھی رہے اور وہ من مانی کرتے رہیں۔ وزیراعظم اگر سنجیدہ ہوتے تو نیکٹا کو فعال کرتے‘جس کے بجٹ کا بڑا حصہ اب تک جاری نہیں ہو سکا۔ اس کے صدر دفتر کا عملًا وجود ہی نہیں۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو بار بار جنرل راحیل شریف کو یاد دہانی نہ کرانا پڑتی کہ وزیرستان کے مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو تیز کرنا مقصود ہے توکسی اجلاس میں جنرل ناصر جنجوعہ ہی نہیں‘ چاروں وزراء اعلیٰ کو بھی موجود ہونا چاہیے۔ سول انٹیلی جنس افسروں اور چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو بھی۔ آئی بی‘ سپیشل برانچ‘ سی آئی اے کے علاوہ پولیس کی تفتیش اور عدالتوں کو بہتر بنائے بغیر دہشت گردی کا انسداد کس طرح ممکن ہے؟
وزیراعظم اور ان کے رفقا دہشت گردی کے خلاف دلائل تک نہیں دیتے‘ ان کا کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ انکشاف یہ ہوا کہ ایک برطانوی این جی او کے ماہرین پاکستان کا دورہ کرتے ہیں کہ پاکستانی بیانیہ تشکیل دے سکیں۔
کس قدر احمقانہ بات ہے۔ کبھی کسی قوم کا داخلی بحران‘ کسی دوسرے ملک نے نمٹایا ہے؟ ایک دوسرا ملک اور وہ بھی برطانیہ بہادر جس کے سرکاری ادارے الطاف حسین کو ڈھانپنے پر تلے ہیں۔ تین برس میں وہ کالا پیسہ سفید کرنے کی شہادتیں تلاش نہیں کر سکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔