نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ پائی جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ ایک یہ کہ
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبوب بن جائیں‘ دوسرا کسی انسان
سے اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھنا۔
بعض موضوعات اپنی اہمیت کے اعتبار سے بہت ہی زیادہ توجہ طلب ہوتے ہیں۔ انہی موضوعات میں سے ایک اہم موضوع مسلمانوں کے درمیان محبت اور الفت ہے۔ اگرچہ یہ موضوع ہر دور میں اہمیت کا حامل تھا لیکن دور حاضر میں اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ دور حاضر کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ جہاں پر دیگر مذاہب اور غلط نظریات رکھنے والے گروہوں سے برأت کا اظہار کیا جاتا ہے وہیںپر بعض علماء اور دانشور حضرات مسلمانوں ہی کے بارے میں اِس طرح کارویہ اختیار کر لیتے ہیں جس سے عامتہ الناس میں ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ بسا اوقات یہ بد گمانی اس حدتک آگے بڑھ جاتی ہے کہ باہمی تعلق اور روابط بھی برقرار نہیں رہتے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کے مابین بھی علمی اختلافات موجود تھے لیکن اِس کے باوجود ایک دوسرے کا احترام ‘ایک دوسرے کی توقیر‘ ایک دوسرے سے محبت اور پیار کا التزام بڑے ہی احسن انداز میں کیا جاتا تھا۔ قرآن مجید کی آیات اور احادیث طیبہ بھی اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار والا برتاؤ کرنا چاہیے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر56 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ''جو اللہ، رسول اور اہل ایمان سے تولیت کو اختیار کرے گا تو بے شک حزب اللہ ہی غالب آئے گا۔‘‘ یعنی اس مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی جماعت کی جو نشانی بتلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان سے محبت کرتے ہیں ۔ اسی طرح جب ہم سورہ حشر کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کی آیت نمبر10 میںاللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کے تین گروہوں کا ذکر کیا ہے۔۔۔۔ ایک جماعت مہاجرین کی، ایک جماعت انصاریوں کی اورایک جماعت ان کے بعد میں آنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ اس آیت مبارکہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ اہل ایمان جو صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین کے بعد آئے ہیں وہ
سابقہ اہل ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اس بات کی بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے دل میں اہل ایمان کے بارے میں کسی خلش کو پیدا نہ فرمائے۔ گویا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خود اس امر کی تلقین فرما رہے ہیں کہ مسلمانوں کو اہل ایمان کے بارے میں کسی قسم کی کجی کا شکا ر نہیں ہونا چاہیے۔ علمی اختلاف کا پیرایہ بھی ادب و آداب کے دائرے میں ہونا چاہیے اور اس کے نتیجے میں کسی قسم کی دوری اور تعصب والی کیفیت ہرگز نہیں پیدا ہو نی چاہیے۔ اس ضمن میں انصاریوں کا کردار بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حشر ہی کی آیت نمبر9 میںواضح فرمایا کہ انصاریوں نے مہاجروں سے محبت کی ‘ اگر وہ تنگی کا شکار بھی ہوتے تو ایثار والے رویے میں کسی قسم کی کمی نہ کرتے۔ انصاریوں کے کردار سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے ہم عصر اہل ایمان سے محبت کرتے تھے۔ جب ہم سورہ فتح کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جس عظیم وصف کا ذکر کیا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے مقابلے میں سخت رویہ رکھتے تھے لیکن آپس میں ان کا معاملہ رحمت والا تھا۔ اگر کبھی اہل ایمان مغالطے کی وجہ سے ایک دوسرے کی دشمنی پر آمادہ وتیار ہو جائیں تو اس وقت بھی باقی اہل ایمان کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان کے درمیان مصالحت کروائیں۔ چنانچہ سورہ حجرات کی آیت نمبر9 میں اللہ تبارک وتعالیٰ واضح فرماتے ہیں کہ اگر مومنوں کے درمیان قتال کی نوبت بھی آ جائے تو باقی اہل ایمان کو ان کے
درمیان صلح کروانی چاہیے‘ لیکن اگر ایک بغاوت پر آمادہ ہو توباقی سب کو اُس کے خلاف قتال کرنا چاہیے اور اگر باغی گروہ اپنی اصلاح کر لے تواس کے ساتھ صلح جوئی اور عدل والا رویہ اپنانا چاہیے۔ اس سے اگلی آیت ہی میںاس امر کا اعلان فرما دیاگیا کہ'' بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام حمید نے اہل ایمان کے درمیان بھائی چارے کا تصور پیش کیا ہے اور اسی سورہ کی آیت جو غیبت کے خلاف ہے اس میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی بات کاذکر کیا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی غیبت سے اعراض کرے ‘ کیا کوئی بندہ اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کاگوشت کھائے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کے درمیان اتنی محبت اور پیار ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی غیبت سے بھی اعراض کریں۔
یہ معاملہ توکتاب اللہ کا ہے، جہاں تک تعلق ہے احادیث مبارکہ کا ‘ تو اس میں بھی جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کا ذکر آیا ہے تو وہ بھی حقیقت میں اہل ایمان کی محبت ہی کے باب میں ہے۔ اسی طرح انصاریوں کی الگ سے محبت کابھی ذکر کیا گیا ہے۔ بخاری شریف کی ایک حدیث میں مذکور ہے ‘ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ''انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔‘‘ اس بات کااطلاق دور حاضر میں بھی ہوتا ہے کہ انصاری بہر حال مسلمانوں کی ہی ایک جماعت تھے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کرنے کی تلقین کی‘ تو ہمیں بھی اپنے ہم عصر اہل ایمان لوگوں سے محبت کرنی چاہیے۔ اسی طرح بخاری شریف ہی میں ایک اور مقام پر حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ پائی جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ ایک یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبوب بن جائیں‘ دوسرا کسی انسان سے
اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھنے کے بعد اہل ایمان کو ایک دوسرے سے بھی محبت کرنی چاہیے۔ اسی طرح بخاری شریف ہی میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص ایمان دار نہ ہو گا کہ جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر شخص اپنے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو پسند کرتا ہے۔ آدمی کبھی نہیں چاہتا کہ دنیا اور آخرت کی بربادی اس کامقدر بنے، تو یہ بات اس کو اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرنی چاہیے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کوئی شخض یہ کب پسند کرے گا؟ اس کی ایک ہی صورت ہے کہ اس کے دل میں اپنے بھائی کے لیے محبت اور پیار ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ اعراف میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو جنت میں جہاں اور نعمتیں حاصل ہوں گی وہیں پر یہ نعمت بھی حاصل ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے دل سے ایک دوسرے کا بغض نکال دے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں تمام اہل ایمان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور معاصرانہ چشمک،حسد ،بغض اور تفرقے سے ہم سب کو محفوظ فرمائے اوراپنے کلام حمید کی اس آیت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمادے کہ ہم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور باہمی تفرقے کا شکار نہ ہوں۔ اگر ہم ایسا کرلیں تو بحیثیت قوم اپنے لسانی ، قومی، صوبائی اور جماعتی تعصبات پر قابو پاکر ایک مضبوط قوم بن سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کے اعمال کی اصلاح فرمائے۔ آمین ثم آمین۔