خطرہ شمال سے ہے۔ سول اور فوجی دونوں سطح پر اس نکتے کا جب تک ادراک نہ ہو گا۔ جب تک وہ یکسو ‘ہم آہنگ اور پر عزم نہ ہوںگے، مساجد، مارکیٹوں، مزارات اور امام بارگاہوں میں بم دھماکوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
افغانستان سے خطرہ ہے۔ پاکستان ہی کیا اس پورے خطۂ ارض کو ، جو وسطی ایشیا اور چین تک کو محیط ہے‘افغانستان سے اندیشہ لاحق رہے گا۔ ہمیشہ کی طرح اقبالؔ یاد آتے ہیں
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملت افغاں در ایں پیکر دل است
از فساد او فساد آسیا
از کشادِ او کشاد آسیا
ایشیا آب و گل کا ایک ایسا پیکر ہے، ملت افغاں جس کا قلب ہے۔ اس کا فساد پورے ایشیا کا فساد ہے اور اس کے استحکام پر پورے ایشیا کے استحکام کا انحصار ہے۔
کبھی دوسروں کو بھی ادراک ہوا تھا،ماسکووی ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ وسطی ایشیا کے فاتحین نے اسے محدود کیے رکھا لیکن پھر وہ درماندہ ہو گئے۔ لذت کوش ہو گئے اور اپنی تہذیب سے بیگانہ۔ اپنے عقائد انہوں نے کھو دیئے اور ترجیحات گم کر دیں۔
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول، طائوس در باب آخر
ساڑھے تین سو سال سے جنوب کی طرف بڑھے چلے آتے روسی، دریائے آمو کے کناروں پر پہنچے تو دو واقعات رونما ہو چکے تھے۔ روس اب سوویت یونین میں ڈھل رہا تھا اور برصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی۔ ہڑ بڑا کر وہ اٹھے کہ روس گرم پانیوں کو جا لینے کا آرزو مند تھا۔ یہ بیسویں صدی کا آغاز تھا۔
سری نگر کے ڈوگرہ حکمرانوں سے انگریز نے گلگت بلتستان کا علاقہ واپس لیا۔ راولپنڈی میں جنوبی کمان قائم کی اور کوہ مری کے ویران سبزہ زار میں وہ فوجی مرکز استوار کیا، جسے ممکنہ یلغار کا سامنا کرنا تھا۔
آگے بڑھ کر انگریز نے افغانستان کو جالینے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہاتھا۔ خوں ریز جنگوں کے بعد بالآخر امان اللہ خان کے ساتھ معاہدۂ راولپنڈی طے پایا۔ راولپنڈی اب ایک عظیم عسکری مرکز تھا اور روحانی بھی۔ایک دن امان اللہ نے خواجہ مہر علی شاہ کے دروازے پر دستک دی تھی۔ ان کا جواب اگرچہ یہ تھا کہ امیر عبدالرحمن کو وہ دعا دے چکے (اِس کے حریف کو کیسے دے سکتے ہیں) ۔رفتہ رفتہ مگر اس نے قرار پکڑا۔ ترکی کے مصطفیٰ کمال اتاترک اور ایران کے رضا شاہ کبیر سے متاثر ہو کر افغانستان کو جدید مغربی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کے خلاف عوامی بغاوت کامیاب رہی۔ پنج شیر کا بچہ سقّہ عوامی ہیرو بن کر اٹھا اور پشتونوں کے خان کو اس نے چلتا کیا۔ اقلیت کی حکومت کون گوارا کرتا۔ امان اللہ کا سپہ سالار نادر شاہ برصغیر کے راستے افغانستان میں داخل ہوا۔ لاہور میں علاّمہ اقبال نے اس کا خیر مقدم کیا۔ بادشاہی مسجد میں ''جواب شکوہ‘‘ سننے کے لیے خلق کا ہجوم امڈا تو اس سے چندے کی اپیل کی۔ ایک مصرعہ پڑھ کر اقبالؔ رک جاتے اور جب تک مزید عطیات کا اعلان نہ ہوتا، خود کو تھامے رکھتے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے راستے وہ وزیرستان میں داخل ہوا۔ جہاں اس نے مفتی محمود مرحوم کے والد گرامی کے گائوں میں قیام کیا۔ خروٹی پاوندوں میں سے خانہ بدوشی ترک کرنے والا یہ ایک خاندان تھا۔
جوق در جوق پشتون ان کے لشکر میں شامل ہوتے گئے۔ 25 برس ہوتے ہیں، افغانستان میں اوّل روسی کارندوں اور پھر خود روسیوں کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکانے والے گلبدین حکمت یار نے، جب ہم پارہ چنار کی جنوبی رفعت پر تھے، افغانستان کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہا: میرے دادا وزیرستان میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔
افغانستان پر پشتون اقتدار بحال ہوا تو پے در پے جنگوں سے درماندہ قبائل نے تاجکوں، وسطی ایشیا کے ہزارہ قبائل، ترکمانوں اور ازبکوں سے مصالحت کر لی، ثانیاً دو بڑی طاقتوں کے درمیان ایک بفر ریاست کا کردار قبول کر لیا۔ شمال پر غلبے کی آرزو مگر مکمل طور پر ختم نہ ہو سکی۔ برصغیر سے انگریزی استعمار کے خاتمے اور پاکستان کی تعمیر کے بعد انگڑائی لے کر جاگ اٹھی۔
1974ء میں عبدالولی خان بظاہر بھٹو حکومت کے خلاف سرگرم تھے، مگر پشتونوں کے اس ولولے کو ملحوظ رکھتے ہوئے، سردار دائود کو انہوں نے وسیع تر پختونستان کے لیے مدد فراہم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اپنے سینکڑوں کارکنوں کو انہوں نے افغانستان میں فوجی تربیت کے لیے بھیجا۔ ولی خان اس زمانے میں کہا کرتے کہ سرحدی زنجیر ڈیورنڈ لائن سے اٹھا کر وہ اٹک(خیر آباد) کے پل پہ رکھ دیں گے۔ ''اورمزے سے ہم افغانستان کے گرمے کھایا کریں گے‘‘۔ جمعہ خان صوفی کی کتاب ''فریب ناتمام‘‘ اس سازش کی پوری کہانی بیان کرتی ہے، بھارت کی ''را‘‘ جس میں شامل تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلا وجہ غدّار نہیں ٹھہرایا تھا۔ یہ الگ بات کہ بھٹو دشمنی میں اپوزیشن عبدالولی خان کی پردہ پوشی کرتی رہی۔ وزیر اعلیٰ حیات محمد خاں شیر پائوکی شہادت پرسردار دائود چونک اُٹھے۔ رفتہ رفتہ انہیں ادراک ہوا کہ افاغنہ خان عبدالغفار خان بھارت کی امداد سے اپنے فرزند عبدالولی خان کو نئی ممکنہ ریاست کا بادشاہ بنانے کے آرزو مند ہیں۔ بھٹو ہی نہیں، شہنشاہِ ایران رضا شاہ پہلوی اور مغربی طاقتیں بھی چوکنا ہوئیں تو دائود نے قدم پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ شیر پائو کے قتل پر وہ ناراض تھا۔ اس نے کہا: طے یہ ہوا تھا کہ کوئی بڑا اقدام کابل کی اجازت کے بغیر نہ اٹھایا جائے گا۔ ولی خان کی تحریک رفتہ رفتہ دم توڑ گئی۔ اور ان کے ساتھی جیل میں ڈال دیئے گئے۔ ملک میں مارشل لا نافذ ہو گیا اور ایک کے بعد دوسرے افغان حکمران کی طرف پاکستان نے دوستی کا ہاتھ دراز کیے رکھا؛ اگرچہ جوابی طور پر افغانستان میں باغیوں کی تربیت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا: شبنم کی طرح سورج کی پہلی کرن جسے تحلیل کر دیتی ہے، پاکستان ختم ہو جائے گا۔ 1971ء کا سانحہ گزر جانے کے بعد عسکری اعتبار سے پاکستان اگرچہ مضبوط ہوتا گیا اور اب اس قدر ہے کہ بھارت اس پر حملہ کرنے کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے، متوازی بھارتی منصوبہ جاری رہا۔
مشرقی پاکستان کے علاوہ، سندھ، بلوچستان اور سرحد میں علیحدگی کی تحریکوں کو کمک پہنچانے کے علاوہ افغانستان اس تحریک کا اہم ترین مورچہ تھا۔ 1947ء میں افغانستان وہ واحد ملک تھا، جس نے
پاکستان کو اقوام متحدہ کا ممبر بنانے کی مخالفت کی۔ پاکستان کے اندر مرکز مخالف تحریکوں کی حمایت میں سوویت یونین، امریکی اتحادی پاکستان کے خلاف بھارت کا پرجوش حامی تھا۔ بھارتی کمیونسٹ اگرچہ دھڑوں میں بٹے، مگر قومی سلامتی کے مخالف وہ کبھی نہ تھے۔ اس کے برعکس سوویت یونین کی نظریاتی اور مالی تائید سے سرگرم پاکستانی کمیونسٹ اپنے وطن کے خلاف غیروں کے آلہ کار تھے۔ اب بھی ہیں؛ اگرچہ ان کی اکثریت اب انکل سام کی باجگزار ہے جسے وہ کبھی امریکی استعمار کہا کرتے، دنیا کی سب سے بڑی برائی۔
افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری ہمیشہ برقرار رہی۔ افغان اسٹیبلشمنٹ کا ایک قابل ذکر حصہ، پاکستان دشمن ہے۔ خاص طور پر اس کی خفیہ ایجنسی جو تخریب کاری میں عملی طور پر ''را‘‘ کی مدد گار ہے۔ افغان سرزمین پر بھارت کے نو عدد قونصل خانے اور رابطے کے نو عدد دفاتر ہیں۔ پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ ان کا جال بچھا ہے۔
پاک سرزمین کو دشمن افغان حکومتوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔اب مگر ریاست اس میں ملوث نہیں۔ اس کے برعکس افغانستان کے ریاستی ادارے براہِ راست بھی پاکستان میں قتل و غارت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پاکستانی طالبان کو جو کراچی سے گلگت تک تخریب کاری کے مرتکب ہیں‘انہوں نے پناہ دے رکھّی ہے۔
تفصیل کل عرض کروں گا کہ افغان ادارے، کس طرح ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پر تلے ہیں۔بھارت ان کا سرپرست ہے اور اس کے تزویراتی حلیف انکل سام نے جان بوجھ کر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
خطرہ شمال سے ہے۔ سول اور فوجی دونوں سطح پر اس نکتے کا جب تک ادراک نہ ہو گا۔ جب تک وہ یکسو ‘ہم آہنگ اور پر عزم نہ ہوںگے، مساجد، مارکیٹوں، مزارات اور امام بارگاہوں میں بم دھماکوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔