تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     21-03-2016

چوتھا این آراو

اگلے روزپارلیمنٹ ہاؤس کمیٹی روم نمبر 1میں ایڈہاک ازم یا ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر زور دار مباحثہ ہوا،جس میں بے بی جمہوریت اور بابا بیوروکریسی میرے پسندیدہ موضوعات تھے۔عدلیہ میں ایڈہاک ازم کے خلاف میرا پیش کیا ہوا آئینی ترمیم کا بل زیرِ تجویز رہا ۔
ایک وفاقی سیکرٹری نے تجویز کردہ قانون پرکہا، اتنی تفصیلی بحث کی کیا ضرورت ہے؟جواب دیا، پنجاب اسمبلی کا تازہ تجربہ، جہاں تحفظِ خواتین بل پاس کرنے کے لیے 500ممبران کا جلسہ منعقدہوا۔
نون لیگ لبرل کہلائی۔صوبائی حکومت نے زور دار مبارکباد سمیٹی،لیکن اس عظیم الشان قانون سازی کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ حکومت سیاسی مولویوں کے دباؤ میں آ کر لمبی پڑ گئی۔
وزیراعظم پاکستان سے خادمِ اعلیٰ پنجاب تک سب نے اعتراف کر لیا کہ بل میں خلافِ شریعت مواد موجود ہے۔یہ مذاق نہیں انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے،کیونکہ حکمرانوں نے آئین ِ پاکستان کے آرٹیکل 227کو سبوتاژ کیا۔یہ آرٹیکل کہتا ہے،ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا خلافِ شریعت قانون سازی کرنے والی پنجاب اسمبلی کے خلاف آرٹیکل 6کا مقدمہ بنے گا؟آئین کے ہر لفظ کی پاسداری کانعرہ مارنے والے اور اس کی خلاف ورزی پر آخری حد تک جانے کے دعویداروزیراعظم آرٹیکل 6کا مقدمہ کھلوائیں گے؟
لاء اینڈ جسٹس پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ جونہی ختم ہوئی ، رپورٹر وںنے گھیر لیا۔روزنامہ دنیا کے نمائندے نے سوال کیا ، کامران خان شو میں 2لوگوں نے بھارت کی سہولت کاری سے پاکستان میں تخریب کاری کی تفصیل بتائی۔فارن فنڈنگ کے ثبوت دیئے۔آپ کے خیال میں ان الزامات کے تحت مقدمہ کب بنے گا؟ جواب دیا، اب پاکستان میں کبھی آرٹیکل 6 کامقدمہ نہیں بنے گا۔رپورٹر نے حیران ہو کر پوچھا، آپ نے '' میر‘‘اور ''مرچنٹ‘‘ دونوں کے بیانات شو میں دیکھے ۔میں نے کہا، جی ہاں۔رپورٹر بولاپھر بھی مقدمہ نہیں بنے گا؟عرض کیا ،جس مقدمے میں تین سال تک زور لگایا گیا اس میں کیا تھا اور نکلا کیا؟
جن دنوں سنگین غداری کے مقدمے پر نون لیگی وزیر اور سرکارکے ڈھنڈورچی بھاگ رہے تھے، میں نے تب بھی مقدمے کو قانونی طور پر ناقص قرار دیا اور آئینی طور پر ناقابلِ سماعت بھی۔بحیثیت جیورسٹ مجھے معلوم تھا موجودہ کمزور حکومت پوری طاقت سے عدالت کے پیچھے چُھپ رہی ہے۔اگر مقدمے کا فیصلہ ہو بھی جائے تو حکومت کہے گی ہم نے نواز شریف کی گرفتاری یا اسمبلیوں کی بر خاستگی کا مقدمہ نہیں چلایا۔ عدلیہ جانے یا فوج کا سابق سربراہ۔حکومت عدل کے ایوانوں میں'' افتحار فیکٹر ‘‘ کی تلاش میں تھی۔اسی لیے سابق آرمی چیف کے خلاف ای سی ایل کے مقدمہ میں اسے منہ کی کھانی پڑی۔بالکل ویسے ہی جس طرح پنجاب حکومت کے سدا بہار خادمِ اعلیٰ جن مخالفوںکو گلے میں رسہ ڈال کر چوک میں لٹکانے کا اعلان کرتے تھے ۔سیاسی حمایت کی بھیک کے لیے انہی مخالفوں کے سامنے گڑ گڑاتے نظر آئے۔
جس دن سپریم کورٹ آف پاکستان سے ای سی ایل والا فیصلہ آیا،اسی دن میں نے کامران خان کے شو میں کہا ''موجودہ نظام مُک مُکا کے سہارے کھڑا ہے۔اگر ایک فریق وعدے سے مُکر گیا تو دوسرا سہارا دینے سے پیچھے ہٹ جائے گا‘‘۔ساتھ یہ بھی بتایا کہ وفاقی کابینہ کا صرف ایک وزیر ای سی ایل سے سابق آرمی چیف کا نام نکالنے کا حامی ہے، جبکہ دوسرا وزیراعظم کا بھائی۔سب نے دیکھا وزیراعظم نے ایسا ہی کیا ،اور مشرف کو اڈیالہ پہنچانے کے کسی دعویدار کوگھاس تک نہیں ڈالی۔صرف وزیرداخلہ چوہدری نثار کو مشاورت کے لیے بلایا۔اندر کی بات جاننے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے پرائم منسٹر ہاؤس کے '' بابا بر گیڈ‘‘ سے پنجابی میںصرف ایک سوال پوچھا ''جے اے مُڑ آیا تے فیر کی ہووئے گا؟‘‘(اگر وہ واپس آ گیا تو پھر کیا ہو گا؟) اس کے ساتھ ہی موثق ذرائع کہتے رہے کہ امریکی ایوانِ بالا کے ایک وفد کے مطالبے پر وزیراعظم کئی ہفتے پہلے ای سی ایل سے سابق آرمی چیف کا نام نکالنے کا وعدہ کر چکے تھے۔اگر آپ پچھلے دوہفتے کے اخبارات کی خبریں غور سے دیکھیں تو اس کہانی کی ایک اور واقعاتی شہادت نظر آئے گی۔ وہ یہ کہ پریس کے ایک مخصوص حصے میں تسلسل کے ساتھ گمنام رپورٹر ز کی داستان نما ایک سٹوری شائع ہو رہی ہے،جس میں دعویٰ کیا گیا کہ نواز شریف اب پاکستان کے طاقتور ترین شخص بن گئے ۔سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر وزیراعظم ہاؤس کی میڈیا ٹیم کی جو دُرگت بن رہی ہے، اس سے توجہ ہٹانے کے لیے پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو کو سرکاری میڈیا ٹیم نے نشانے پر رکھ لیا ہے۔یہی ٹیم ایک عشرے سے میثاقِ جمہوریت کا ڈھول بجاتی رہی۔
شریف سرکار نے طے کر رکھا ہے کہ وہ کسی اہم معاملے پر قوم، پارلیمینٹ حتیٰ کہ کابینہ کو بھی اعتماد میں نہیں لے گی۔جنرل مشرف کے ساتھ جدہ معاہدے سے انکار ہوا ۔دستخط شدہ دستاویز سامنے آئی تب مجبوراََ اقرارکر لیا۔20کروڑ لوگوں کا ملک آج بھی نہیں جانتا کہ 20سال کے لیے قطر ایل این جی کس ریٹ پر خریدی گئی۔قطر میں حکمرانوں کے پاکستانی فرنٹ مین نے ملکی ٹی وی چینلز پر اقرار کیا کہ موجودہ حکمران26سال سے ایل این جی کا معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔سوال یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہی نہیں تھے تب یہ کوشش کس طرح ہوتی رہی؟
حکومت لاکھ چھپائے یہ خفیہ ڈیل جلدسامنے آئے گی۔ جیسے چوتھا این آر او اس ہفتے سامنے آگیا۔این آر او نمبر 4کا حکم نامہ واشنگٹن سے آیا،عربستان یا دونوں جگہ سے یہ حقیقت بھی کھل کر رہے گی۔ویسے ہی جیسے تیسرے این آر او کی حقیقت کھلی تھی۔کہا گیا تھا سابق چیف جسٹس ،سابق آرمی چیف کے فون پر بحال ہوا۔میں اس رات صدر ہاؤس کی مختصر ترین میٹنگ میں شامل رہا۔صدر کو ایسا کوئی بھی فون نہیں آیا۔ بلکہ ایک سُراغ رسا ںنما پیغام رساں وزیر نے میٹنگ کو بتایا کہ آرمی چیف نے ایک وکیل رہنما کوبحالی والا فون کیا ہے۔یہ کہانی تفصیل مانگتی ہے،جو پھر سہی۔
اس سے پہلے معروفِ زمانہ دوسرا این آر اوآیا،جس کے ذریعے شہید بی بی نے جلا وطن لیڈروں کی واپسی کے دروازے کھلوائے۔ اس این آر او پر خوب سیاست ہوئی، مگر این آر او سے فائدہ اٹھانے والے ساڑھے8ہزار ملزموں کی تفصیل کبھی قوم کے سامنے نہ آ سکی۔نواز شریف اُس این آر او کے سب سے بڑے ناقد ہیں۔''طاقت ور ترین‘‘ وزیراعظم ہمت کر کے آج دوسرے این آر او کے ملزموں کے نام قوم کے سامنے رکھ دیں۔مگر وہ ایسا بالکل نہیں کریں گے،بلکہ وہ اپنے وزیر داخلہ کو بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے۔اس کی وجہ پہلا این آر او ہے۔فرسٹ این آر او تحریر کی ''تسلیم شدہ ‘‘کاپی انٹرنیٹ پر موجود ہے،جس پر نواز شریف کے دستخط ہیں۔پاکستان کی تاریخ کے اس اولین این آر او نے ہی اٹک جیل کا دروزاہ کھولا۔این آر او نمبر ایک نے ہی ہماری این آر او زدہ جمہوریت کو اٹک جیل کی کال کوٹھری سے جدہ کے سرور پیلس تک ''بزنس کلاس‘‘ سفر طے کروایا۔چوتھے این آر او کا'' دبئی ٹرپ‘‘ پہلے این آر او کا تسلسل ہے ۔یا شاید اُسی احسان کا بدلہ۔
حذر، حذر کہ ابھی تک مفاد کے بُت ہیں
خُدا فروش فقیہوں کی آستینوں میں
نوید دی ہے عجم کو بلالِ مشرق نے
''اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستیوں میں‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved