تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     21-03-2016

داعش کمزور ہو چکی!

تین ہفتے پہلے ہونے والی جنگ بندی اور شام سے روسی فورسز کی حیران کن واپسی بتاتی ہے کہ اب عالمی قوتوں کی داعش پر سے توجہ کم ہو چکی۔ گزشتہ دوبرسوںسے قاتلوں اور قیدی لڑکیوں کی آبروریزی کرنے والوںکا یہ گروہ عالمی توجہ کا مرکز تھا۔ تاہم اب اس پر توجہ کی کمی سے یہ مراد لینا درست نہیں ہوگا کہ اس کا خطرہ کم ہوچکا ، یا یہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہاہے، تاہم اب یہ پہلے کی طرح برق رفتاری سے توسیع کرنے سے قاصر ہے۔
داعش کے قبضے سے بائیس فیصد علاقہ چھڑوا لیا گیا ہے۔ شامی فورسز تدمر ، جو کہ رومی تہذیب کے آثار رکھنے والا قدیم شہر ہے ، سے صرف پانچ کلومیٹر دور رہ گئی ہیں۔ اس شہر پر داعش کے جہادیوں نے قبضہ کرکے یہاں کے تاریخی مجسموں اور نوادرات کو تباہ کردیا تھا۔ جب روسی اور امریکی جنگی طیاروں نے اس کے تیل کی غیر قانونی فروخت کے نظام کو تباہ کر دیا تو اس کے محصولات میں کمی واقع ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں سپاہیوں کی تنخواہوں میں نصف کٹوتی کی گئی، اور وسائل کی کمی پوری کرنے کے لیے مقبوضہ علاقوںمیں بھاری ٹیکس لگائے گئے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے جب گوریلا تحریک کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد اسے ایک ریاست کی طرح چلانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے وسائل کی کمی کا مسئلہ پریشان کرنے لگتا ہے۔ یہ پبلک سروسز، کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے،بجلی اور پانی فراہم کرنے اور سکول اور ہسپتال چلانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نوجوانوں کو فوجی تربیت دے کر اپنی عسکری قوت میں اضافہ کے منصوبے پرکاربند رہتی ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کے لیے رقم درکار ہوتی ہے۔ امید ہے کہ داعش کو اب اس بات کی سمجھ آرہی ہوگی کہ سر قلم کرنا اور معیشت چلانا دو مختلف باتیں ہیں۔ 
جب یہ تحریک پھیل رہی تھی تو اس کے لیے وسائل کی فراہمی کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ یہ مزید قصبے ا ورشہر فتح کرکے اُن پر ٹیکسز لگا رہی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے تیل کے کنوئوں پر بھی طاقت کے زور پر قبضہ کیا تھا۔ اب جبکہ اس کے سامنے وسیع علاقے کا کنٹرول چلانے کا مسئلہ درپیش ہے تو اسے بھاری وسائل چاہئیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ داعش نے تیل کی فروخت اور غیر ملکی افراد کو اغوا کرکے تاوان وصول کرتے ہوئے بھاری رقوم حاصل کی تھیں لیکن اب اس کے سکڑتے ہوئے وسائل اس کے اخراجات پورے کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ جب تک ایک دہشت گرد گروہ چھاپہ مار کارروائیاں کرتا ہے ، روایتی ملٹری آپرٹیس کے لیے اس پر وار کرنا مشکل ہوتا ہے ، لیکن جب وہ شہروں پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرلیتا ہے تو پھر وہ روایتی فوج کا آسان ہدف بن جاتا ہے۔ چنانچہ امریکی اور روسی جیٹ طیاروں کے بیک اپ کے ساتھ کرد فورسز شام کے شمال مغربی علاقوں میں داعش کو روکنے میں کامیاب رہیں۔اس کو حالیہ دنوں مقبوضہ علاقوںسے پیچھے بھی ہٹنا پڑا اور اس کی بہت سی جنگی مہمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ اس کی وجہ سے یہاں آنے والے غیر ملکی جنگجوں کے تسلسل میں کمی واقع ہوچکی ہے۔ جب تک یہ کامیابی سے علاقے فتح کررہی تھی، دنیا بھر کے انتہاپسند اسے اپنے عقیدے کی فتح سمجھ رہے تھے ، لیکن روسی اور امریکی طیاروں نے اس کے کس بل نکال دیے ہیں۔ 
ایک حوالے سے یہ پیش رفت طالبان کے دور کی یاد دلاتی ہے جب وہ اقتدار میں تھے ۔ اُنہیں امریکی فورسز کے تعاون سے شمالی اتحادوالوں نے آسانی سے کابل سے مار بھگایا۔ اگرچہ داعش کے مد ِمقابل کوئی زمینی فوج نہیں ہے لیکن یہ خفیہ طور پر سپیشل فورسز کے آپریشن کی تمازت محسوس کررہی ہے۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز بھی ایک گوریلا تحریک تھی جس نے ایک علاقے پر قبضہ کرکے وہاں حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔ برس ہا برس تک جاری رہنے والی ہولناک خانہ جنگی کے دوران تامل ٹائیگرز نے ملک کے شمال اور شمال مشرقی حصے، جو ملک کا ایک چوتھائی علاقہ تھا، پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ ان کا دارالحکومت Killinochi تھا اور اس کے جنگجو اپنے مقبوضہ علاقے سے ٹیکسز وصول کرتے ۔ ٹیکسز کی وصولی عام طور پر گن پوائنٹ پر کی جاتی۔ گوریلا لیڈر ،پراباکران ، جو ایک طرح کا نفسانی مریض تھا، اُس علاقے کو کنٹرول کرتاتھا۔ وہاں رہنے والے سری لنکن شہریوں کے لیے وہ انتہائی اذیت ناک دن تھے۔ تامل ٹائیگروں کو تامل آبادی کی حمایت حاصل تھے۔ تاہم اُن سے بھی جبری فنڈز وصول کیے جاتے۔ اسی طرح داعش کو بھی مبینہ طور پر کویت اور خلیجی ریاستوں سے امداد ملتی رہی ہے۔ 
جب سری لنکن حکومت نے صدر راجہ پاکسے کے دور میں ٹائیگرز کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا عزم کرکے بے رحمی سے آپریشن کیا تو اپنے علاقوں میں گھری ہوئی علیحدگی پسند تحریک بہتر مسلح اور تربیت یافتہ پیشہ ور سری لنکن فوج کا مقابلہ نہ کرسکی۔ کئی ماہ تک جاری رہنے والے شدید جنگ کے بعد ٹائیگرز ایک تنگ سی جگہ پر گھیرے میں آگئے جب کہ ان کی پشت پر سمند رتھا۔ یہاں اُنھوں نے ہزاروں شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ۔بیرونی دنیا کے احتجاج کے باوجود سرکاری فوج نے پیش قدمی جاری رکھی۔ اگرچہ بہت بڑی تعدادمیں شہری ہلاکتیں ہوئیں لیکن کئی عشروںسے جاری خانہ جنگی ختم ہوگئی۔ 
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میں بھی مذہبی جہادی گروہ ایک طرح کی اپنی ریاست قائم کرچکے تھے۔ وہاں رہنے والے ہزاروں افرا دکی جانوں پر اُن کا بے رحم تسلط قائم ہوچکا تھا ۔ اُس وقت وہاں پاکستان کی ریاستی عملداری نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان انتہا پسندوں کو سوائے امریکی ڈرونز کے کسی کا ڈر نہ تھا، اور پاکستان کی بہت سی سیاسی اور مذہبی جماعتیں ڈرونز کی شدید مخالف تھیں۔ امید ہے کہ اب تک انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہوگا۔حکومت نے مذاکرات کی حماقت کرنے اور اس کا خونی نتیجہ دیکھنے کے بعد ان انتہا پسندوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن شروع کیا۔ اگرچہ یہ ایک وسیع اور دشوار گزار علاقہ ہے اور پاکستانی طالبان بھی انتہائی جنگجو ہیں، لیکن میدان جنگ نے ثابت کردیا کہ ان کا پاکستان کی بہتر، زیادہ منظم اور پیشہ ور فوج کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ دہشت گرد صرف شہریوں کو ہی ہلاک کرنے کے ہی ماہر تھے، لیکن آج اُنہیں بھاگنے کی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔انتہا پسندوں کے پاس پاک فضائیہ کی موثر کارروائیوں کا کوئی جواب نہیں۔ 
ان تمام کیسز میں یہ بات واضح ہے کہ اگرچہ انتہا پسند گروہ اور گوریلا فورسز نرم اہداف کو نشانہ بناکر شہریوں کا خون بہاتے ہیں لیکن پیشہ ور جدید افواج کا مقابلہ کرنا اُن کے بس سے باہر ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی اور قوت اُن کی پشت پر ہو۔ ویت کانگ کو جنوبی ویت نام اور امریکی فورسز کے خلاف لڑتے ہوئے یہ سہولت حاصل تھی۔ اسی طرح افغانستان میںسوویت فورسز کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے پیچھے بھی کچھ عالمی قوتیں موجود تھیں۔ تاہم طالبان اور تامل ٹائیگرز کو اپنے اقتدار کے آخری لمحات میں کسی طاقت کی حمایت حاصل نہ تھی۔ ٹائیگرز کے لیے تو بچ نکلنے کے لیے راستہ بھی نہ تھا کیونکہ ان کے سامنے سری لنکا کی فوج اور پیچھے سمند رتھا۔ تاہم داعش فی الحال اس طرح مکمل طور پر بے دست وپانہیںہوئی۔ اسے کچھ خلیجی ریاستوں کی غیر اعلانیہ حمایت حاصل ہے۔ تاہم اب اسے تیل فروخت کرکے بھاری رقوم کمانے اور غیر ملکی جنگجوئوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی سہولت میسر نہیں۔ تاہم اس سے یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ داعش ختم ہوگئی۔ لیکن یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اب اس کے ''جہاد‘‘ کا دور لد چکا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved