تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-03-2016

’’ترکال کی بیلا‘‘ ستیہ پال آنند کی نظمیں

ستیہ پال آنند اردو کے سینئر اور معروف شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ آج کل امریکہ میں مقیم ہیں۔ حال ہی میں ان کی نظموں کا تازہ مجموعہ شائع ہوا ہے جسے ڈاکٹر امجد حسین نے مرتب کیا ہے۔ اسے بزم تخلیق ادب پاکستان نے چھاپا اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ ''ترکال‘‘ ٹھیٹھ پنجابی کا لفظ ہے اور اُن الفاظ میں شامل ہے جو اردو اور ہندی یا سنسکرت میں مشترک ہیں۔ مرتب نے ان نظموں کو ماقبل اور مابعد مرگ کی نظموں کا انتخاب قرار دیا ہے جو اس کتاب کا ٹائٹل بھی ہے۔ انتساب کچھ اس طرح سے ہے :
''پچیس صدیاں پیشتر مہاتما بُدھ کے پہلے
آنند
کے بعد سے آج تک اپنے سب ان گنت
پُرکھوں کے نام
جن کا پاکیزہ خون میری رگوں میں رواں ہے‘‘
اور اس طرح انہوں نے اپنا رشتہ اُن کے چیلے کی نسبت سے مہاتما بُدھ کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں میرا بائی کے گُرو بھگت رومی داس کا یہ شعر درج ہے:
کھچری بال بھیو رومی داسا
پڑ گیئو اب ترکال کی بیلا
جبکہ اس کے بعد یہ شعر درج ہے:
زندگی تُو مجھے گزار کہ میں
اس سے پہلے تمیں گزار چکا
(شعر کے پہلے مصرع میں تُو اور دوسرے میں تمیں کا استعمال خوب ہے!)
ظاہر ہے کہ یہ غزل کا شعر ہے حالانکہ آپ غزل کے سخت مخالف ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں اپنی گفتگو کا آغاز اس جملے سے کرتے ہیں کہ میں غزل کا مخالف ہوں۔ اسی شعر پر بس نہیں بلکہ حال ہی میں موصوف کی کچھ تازہ غزلیں بھی ادھر ادھر رسائل میں شائع ہو کر نظر سے گزری ہیں جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے غزل کو بالآخر اپنے اعصاب سے اتار پھینکا ہے۔ اس خاکسار نے انہی کے حوالے سے پہلے بھی لکھا تھا کہ غزل اگر اتنی ہی نحیف و نزار اور ناپسندیدہ صنف سخن ہے تو یہ زود یا بدیر اپنی موت آپ ہی مر جائے گی‘ اس کے بارے اتنا پریشان ہونے اور دوسروں کو پریشان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تاہم انہیں غزل کو مسترد کرنے اور اس میں کیڑے نکالنے کا پورا پورا حق حاصل ہے‘ بیشک وہ خود بھی اس میں طبع آزمائی‘ غلطی ہی سے سہی‘ کرتے 
رہتے ہوں‘ نہ ہی ہمیں غزل کا ٹھیکیدار بننے کا کوئی شوق ہے۔
کتاب کا دیباچہ مرتب نے تحریر کیا ہے اور ان نظموں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے یعنی ماقبل کی نظمیں اور مابعد کی نظمیں‘ اس طرح کل ملا کر 44 نظمیں ہیں جنہیں اس کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔ زیادہ تر نظمیں موت کے بارے میں ہیں جو زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ شاید اس لیے کتاب میں شامل متعدد نظمیں انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات پر یا انتقال سے قبل ان کی علالت پر تخلیق کی ہیں۔ آنند کافی پڑھے لکھے آدمی ہیں اور اس کتاب میں شامل کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں جو انہوں نے پہلے انگریزی زبان میں لکھیں۔ 
میں کٹڑ غزل گو ہونے کے باوجود نہ صرف نظم کے ماننے والوں میں سے ہوں بلکہ نثری نظم کا بھی معترف ہوں۔ میں نے کسی زمانے میں خود بھی نظمیں لکھی تھیں جو ادھر ادھر شائع بھی ہوتی رہیں لیکن وہ پورا مسودہ ہی کہیں گم ہو گیا لیکن اب انہیں اکٹھا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ نیز یہ کہ میں نے غزل میں کون سا ایسا تیر مار لیا ہے جو ایک نظم گو کی حیثیت سے بھی سامنے آئوں‘ یعنی ؎
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ باآسماں نیز پر داختی
میں نے یہ نظمیں زیادہ تر پڑھی ہیں لیکن میری بدقسمتی کہ مجھے ان میں لطف سخن نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ یہ درست ہے کہ نظم کو غزل کی طرح نہیں پڑھا جا سکتا اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے جیسا کہ ہم سب کی مجبوری بھی ہے لیکن سپاٹ‘ بے رس اور بے جان نظم کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔ لوگوں کے پاس شعر و ادب کے لیے ویسے بھی کچھ زیادہ وقت نہیں ہوتا جو کہ الگ سے ایک تشویشناک بات ہے۔ خاص طور پر شاعری تو ذہنی آسودگی کی خاطر ہی پڑھی جاتی ہے‘ کوئی عرفان یا گیان حاصل کرنے کے لیے نہیں‘ نہ ہی قاری کو شاعر کی ذہنی کیفیتوں اور پیچیدگیوں سے کچھ ایسا سروکار ہوتا ہے‘ سو‘ اگر وہ شاعری سے لطف حاصل نہیں کر سکتا تو وہ اسے پڑھے گا ہی کیوں۔ شاعری محض بیانیہ نہیں ہوتی جس کے لیے نثر بہتر ذریعہ اظہار ہے۔ نظم کا پیچیدہ ہونا کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ ایک طرح سے اس کی خوبیوں ہی میں شامل ہے لیکن اس سے کم از کم محظوظ تو ہوا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظم کے بے لطف ہونے کا چلن ویسے بھی عام ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی مقبولیت کا سلسلہ بہت مدھم اور آہستہ رو ہے۔ چنانچہ ستیہ پال آنند اگر ان نظموں میں محظوظ ہونے کی بھی کوئی گنجائش رکھ لیتے تو ہم یقیناً ان کے شکر گزار ہوتے۔ تاہم‘ اب بھی ان کی یہ کاوش قابل قدر ہے کیونکہ اس کی بجائے یہ کوئی اور کام بھی کر سکتے تھے۔
کتاب میں کچھ انگریزی مثلاً ٹی ایس ایلیٹ کی نظموں کا ترجمہ بھی شامل ہے لیکن وہ بھی کم و بیش دوسری نظموں جیسا ہی خشک اور بے مزہ ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو جیسا میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ غزل نے ہمارا ذائقہ ہی اس حد تک بگاڑ رکھا ہے کہ ہمیں خوش مزہ شاعری ہی پسند آ سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں نظم کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ وہ غزل نہیں ہوتی اور اسے غزل ہونا بھی نہیں چاہیے! اسے غزل ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے!!
آج کا مقطع
مشترکہ ہے میراثِ محبت ظفرؔ اب کے
اُس حسن کی ایک ایک ادا سب کے لیے ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved