تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     21-03-2016

سلطانی گواہ

جب کسی نظام حکومت، گینگ مافیا یا تنظیم کے اندر کا آدمی جو اس کے کرتوتوں میں شامل رہا ہے،کسی وجہ سے نکال باہر کیا جاتا ہے یا کسی مرحلے پر خود نکل آتا ہے،تو وہ پھر احوال دروں بیان کرتا ہے ،پردوں میں مستور حقائق کو آشکار کرتا ہے،حالانکہ جبر یا لالچ یا مفادات کے تحت وہ اسی سارے نظم کا حصہ رہا ہوتا ہے ،وہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں(Benificiaries)میں شامل رہاہوتا ہے کہ اچانک اس کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور ایک ایک کر کے وہ سب پرت کھولتا ہے،اسے ہمارے ہاں قانون کی زبان میں Approverیا سلطانی گواہ کہتے ہیں۔ جو تاحال نظم کے اندر بیٹھا ہے اور برکات سے مستفید ہورہا ہے ،وہ پاکیزگیٔ کردار کی قسمیں کھاتا ہے ،سب کچھ جانتے ہوئے کمالِ فن کاری، چربِ زبانی اور طلاقتِ لسانی سے باطل کادفاع کررہا ہوتا ہے ۔
لوگوں کا خیال ہے کہ ضمیر تویقینا بے چین ہوتا ہوگا ،اندر سے گھٹن، کَسک اور چبھن بھی محسوس ہوتی ہوگی، اندر سے ٹیسیں بھی اٹھتی ہوں گی،لیکن دل پر پتھر رکھ کر یہ باکمال لوگ ظلمت کو ضیاثابت کر رہے ہوتے ہیں ،بلاشبہ یہ مشکل کام ہے اور یہ کسی ایک جماعت تک محدود نہیں ہے ،حسبِ توفیق تمام سیاسی جماعتوں کے کارندے روزانہ سرِ شام میڈیا پر یہی کارِ خیر انجام دے رہے ہوتے ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ کسی کی ظلمت غالب ہوتی ہے اور کسی کی نسبتاًکم ۔اِسی باطنی کیفیت کو علم النفس کی اصطلاح میں ضمیر کا احساسِ جرم یاGuilty conscienceسے تعبیر کیا جاتا ہے۔لیکن یہ باطنی کشمکش اس صورت میں ہوتی ہے جب ضمیر زندہ ہو،نفس لوّامہ کی روحانی حِس میں حیات کی کوئی رمق باقی ہو،ورنہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(۱)''ان کے دلوں میں (نفاق)بیماری ہے، سو اللہ تعالیٰ نے( سزا کے طور پر) ان کے مرض میں اضافہ کردیا ہے،(البقرہ:10)‘‘(۲)''ہرگز نہیں،بلکہ ان کے کرتوتوں کے سبب ان کے دل زنگ آلود ہوچکے ہیں، (المطففین:14)‘‘(۳)''بے شک ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جنّوں اور انسانوں کو پیدا کیا ہے،ان کے دل (ودماغ) ہیں،جن سے وہ (حق کو)سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ(آیاتِ عبرت)کو دیکھتے نہیں،ان کے کان ہیں جن سے وہ(حق کو)سنتے نہیں، وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ، (الاعراف:179)‘‘۔الغرض یہ خدادا دصلاحیتیں بندوں کی اپنی بدعملی کے سبب مائوف اورمعطّل ہوجاتی ہیں ۔
یہ مَشاہد اور مَناظر آخرت کا ایک عکس یعنی Action Replayہیں۔بالکل ایسے ہی مناظرقیامت میں بھی بپا ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پائوں اُن کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے تھے ،(یٰس:65)‘‘۔اس آیت میں صرف ہاتھوں اور پیروں کے کلام کرنے کا ذکر ہے ،لیکن مفسرین نے لکھا ہے کہ مجرموں کے تمام اعضاء کلام کریں گے اور بیان کریں گے کہ اُن کو کون کون سے جرائم کے ارتکاب میں استعمال کیا گیا ۔اسی طرح نیک لوگوں کے اعضاء اُن کی حسنات کی گواہی دیں گے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)''جس دن اُن کے کرتوتوں کے بارے میں اُن کے خلاف اُن کی زبانیں اور اُن کے ہاتھ اور اُن کے پائوں گواہی دیں گے ،(النور:24)‘‘۔(۲)''اور جس دن اللہ کے دشمنوں کوآگ کی طرف لے جایا جائے گا ،پھراُن کو جمع کیا جائے گا،یہاں تک کہ جب وہ دوزخ کی آگ تک پہنچ جائیں گے ،تو (دنیا میں کیے گئے)اُن کے کرتوتوں کے بارے میں اُن کے خلاف اُنکے کان ، اُن کی آنکھیں اور اُن کی کھالیں گواہی دیں گی،اور وہ (حیرت سے)اپنی کھالوں سے کہیں گے:تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟،وہ جواب دیں گی:ہمیں اُسی اللہ نے گویائی بخشی جس نے ہر چیز کو گویا کردیا اور اُسی نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور تم سب اُسی کی طرف لوٹائے جائو گے،( حٰم السجدہ:19-21)‘‘۔
ایک طویل حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''پھر اس سے کہا جائے گا:ہم ابھی تیرے خلاف اپنے گواہ بھیجتے ہیں!وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے خلاف کون گواہی دے گا!،پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں سے کہا جائے گا: تم بتائو! پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور اُس کی ہڈیاں اس کے اعمال کو بیان کریں گے اور یہ معاملہ اس وجہ سے کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات سے اس کے خلاف حجت قائم ہو، اور جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے ،یہ وہ منافق ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا، (صحیح مسلم:2968)‘‘۔اِس ساری بحث کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ جس طرح انسان کے اعضاء وجوارح گناہ کے کاموں سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں ،لیکن آخرت میں یہی اللہ کی عدالت میں گناہگار کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں گے، بالکل اسی طرح کسی بھی صاحبِ اختیار کے ماتحت لوگ جو ناجائز کاموں میں اُس کے معاون ہوتے ہیں ،اُن کی مثال بھی اعضاء وجوارح (Organs)کی ہے اور مشکل وقت آنے پر یہی معاونین اور مستفیدین صاحبِ اختیار کے خلاف سلطانی گواہ بن جاتے ہیںاورانسان اس طرح کے مناظر وقتاً فوقتاً مشاہدہ کرتا رہتا ہے،لیکن اس سے سبق حاصل نہیں کرتا،کیا یہ سامانِ عبرت نہیں ہے ؟۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ظاہر وباطن سب کا جاننے والا ہے ،وہ قادرِ مطلق بھی ہے ،''وہ اپنے کسی فعل پرکسی کو جواب دہ نہیں ہے ، سب اُسی کو جواب دِہ ہیں ،(الانبیاء:23)‘‘،توپھر وہ اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کیوں نہیں فرمائے گا؟۔مفسرین کرام نے اس کا جواب دیا ہے کہ آخرت کی عدالت اس لیے لگے گی تاکہ عدل کے تقاضے بھی پورے ہوں ،کوئی شیطانی وسوسہ ذہن کو پراگندہ نہ کرے ،جیساکہ غالب نے کہا:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پہ ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
وہاں بھی شیطانی چیلے اپنے گُرو سے برأ ت کا اعلان کریں گے لیکن :''اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''بے شک اللہ نے کافروں پر لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ،(وہاں )وہ نہ کوئی حمایت کرنے والا پائیں گے اور نہ کوئی مددگار ،جس دن اُن کے چہرے آگ میں پلٹ دیے جائیں گے ،وہ کہیں گے :''کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی ‘‘اور وہ کہیں گے:''اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا کہا مانا ،سو انہوں نے ہمیں (راہِ راست سے)گمراہ کردیا ،اے ہمارے رب :ان کو (ہم سے)دگنا عذاب دے اور اُن پر بڑی لعنت فرما،(الاحزاب:63-68)‘‘۔
پس اہلِ خِرد کے لیے سامانِ عبرت ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کردیا ہے ،سو!ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟،(القمر:17)‘‘۔کاش کہ آخرت کے اِن مثالی مَناظر کو دیکھ کر ہم عبرت پکڑیں اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی کوئی تدبیر کریں ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''سواے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو،(الحشر:2)‘‘۔ لیکن اس کے لیے سر کی آنکھ کا نہیں بلکہ دل کی آنکھ یعنی چشمِ بصیرت کا وا ہونا ضروری ہے ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ،بلکہ سینوں میں( دھڑکنے والے )دل اندھے ہوجاتے ہیں ،(الحج:46)‘‘۔
انسان ہمیشہ یا تو خود غرضی کا شکار رہا یاخوش فہمی میں مبتلا رہا ،اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی کامیابی اور ناکامی کے زائچے خود بناتے ہیں ،خود ہی اپنی کامیابیوں کے دعوے کرتے ہیں اور ہمیشہ اِسی فریب میں مبتلارہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کی اِس نفسیاتی کمزوری کو بیان فرمایا :''بے شک منافق (اپنے زعم میں)اللہ کو دھوکا دے رہے ہیں ،حالانکہ اللہ ہی اُن کو اُن کے دھوکے کی سزا دینے والا ہے ، (النساء:142)‘‘۔اور فرمایا:''وہ اپنے گمان میں اللہ کو اور اہلِ ایمان کو دھوکا دیتے ہیں اور (حقیقت میں )وہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور وہ اس کا شعور نہیں رکھتے،(بقرہ:9)‘‘۔
انسان کی خوش فہمی کی کیفیت کو قرآنِ کریم نے ان کلمات میں بیان فرمایا ہے:''انسان (اپنے لیے)خیر کی دعا کرنے سے کبھی نہیں تھکتا اور اگر اُسے کوئی شر پہنچ جائے تو وہ مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے ۔اور اگر ہم اُس کو تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا ذائقہ چکھائیں تو وہ ضرور یہ کہے گاکہ میں ہر صورت اس کا حق دار تھا اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر (بفرضِ محال) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو بے شک اُس کے پاس میرے لیے خیر ہی خیر ہوگی،( حٰم السجدہ:50)‘‘۔اسی طرح اپنی دولت پر ناز کرنے والے پچھلی امتوں کے ایک شخص کے بارے میں ،جو باغات کی دولت سے مالا مال تھا،قرآن نے فرمایا: ''اُس نے اپنے ساتھی سے بحث کرتے ہوئے کہا:''میں تم سے زیادہ مال دار ہوں اور میرے پاس افرادی قوت بھی زیادہ ہے‘‘ اور وہ جنت(باغ) میں داخل ہوا درآں حالیکہ وہ اپنی جان پر ظلم کر رہا تھا ،وہ کہنے لگا:مجھے گمان نہیں کہ یہ باغ کبھی برباد ہوگا اور نہ مجھے قیامت کے قائم ہونے پر یقین ہے اور اگر (بالفرض)میں اپنے رب کی طرف لوٹایا(بھی)گیاتومیںوہاںاس سے بہتر ٹھکانا پائوں گا‘‘۔سوبرخودراستی(Self Righteousness) کا زعم اِس عہد کاہی نفسانی مرض نہیں ہے ،بلکہ انسان ہر دور میں اس کا شکار رہا ہے۔کاش کہ انسان اصابتِ نفس اورعُجبِ نفس کے مرض سے نجات پائے اور اپنے احتساب کے لیے آمادہ ہوجائے تو شاید دنیا اور عاقبت کی بربادی سے بچ جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved