تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     21-03-2016

بدلا ہوا پنجاب

پنجاب میں تحفظ ِحقوقِ نسواں قانون کے بعد کم از کم دو عدد طلاقیں اخبار کی زینت بنی ہیں ۔ شوہر حضرات نے ضمانت پہ رہا ہوتے ہی علیحدگی کا حق استعمال کیا۔ اس معاشرے میں ، جہاں بالعموم مرد ہی کفیل ہوتاہے اور عورت جہاں مرد کے رحم و کرم پہ ہوتی ہے، بیک جنبشِ قلم خواتین پہ سارے حقوق نچھاور کرنے کا علم چھوٹے میاں صاحب ہی بلند کر سکتے تھے ۔ اب اگر ایک male dominant societyمیں مرد حضرات اپنی بیوی کی شکایت پر کچھ روز جیل میں گزارنے کے بعد طلاق کے پروانے جاری کریں تو حکمران اس سلسلے میں کیا کر سکتے ہیں ؟راتوں رات پل تعمیر کیے جا سکتے ہیں ، ایسا ادارہ بنانا ممکن نہیں ، جہاں تحفظِ حقوقِ نسواں قانون کے نتیجے میں طلاق یافتوں کی دوبارہ شادیاں کرائی جا سکیں ۔ چودھری پرویز الٰہی نے ایک بار یہ کہا تھا : شریف برادران کی جلد بازیاں ملک کو لے ڈوبیں ۔ قانون گھر کے اندر گھس کر میاں بیوی کے معاملات درست نہیں کر سکتا۔عائلی معاملا ت میں قانون سے رجوع اسی وقت کیا جاتاہے ، جب فریقین ایک دوسرے کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں ۔ مغرب میں ، جہاں خواتین کو بے پناہ حقوق دینے کا تجربہ کیا گیا اور جہاں طلاق کے نتیجے میں آدھی جائیداد عورت کو دینا ہوتی ہے ، وہاں شادی کا ادارہ اور خاندانی نظام تقریباً مکمل تباہی کا شکار ہے ۔ یہ باتیں حکمرانوں کو کون بتائے کہ وہ وقت کی کمی کا شکار ہیں ۔ پلک جھپکنے میں انہیں پنجاب اور ملک کے مسائل حل کرنا ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ حمزہ شہباز شریف کی کاروباری و سیاسی تربیت بھی کرنی ہے ۔ گوکہ ہونہاں بروا کے چکنے چکنے پات دیکھنے کے بعد میرا نہیں خیال کہ انہیں کسی قسم کی تربیت درکار ہے ۔ 
میں راولپنڈی کا ایک خوش قسمت رہائشی ہوں ، جہاں ہوا میں اڑتی میٹرو کے سنگ زندگی کے مسائل بھولنے لگتے ہیں ۔صورتِ حال اس وقت بدل جاتی ہے ، جب اوپر کی بجائے، آپ پل کے نیچے ہوں ۔ جب سے میٹرو نے جنم لیاہے ، راولپنڈی کی ساری مرکزی شاہراہوں پر آٹو رکشے کا راج ہے ۔ بسا اوقات یہ منظر بھی ان گنہگار آنکھو ںکو دیکھنا ہوتاہے کہ تین لینوں میں تین عددآٹو رکشے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی تگ و دو میں ہوتے ہیں اورپیچھے ایمبولینس فریاد کناں چلی آتی ہے ۔ مری روڈ، صدر، کچہری، جی ٹی روڈ ، غرض یہ کہ راولپنڈی کا کوئی گوشہ ان رکشوں سے محفوظ نہیں ۔ ان کی موجودگی میں ٹریفک کی روانی ناممکن ہے ۔ مسافروں کی سہولت کے لیے بیسیوں ارب روپے کی لاگت سے میٹرو تعمیر کی گئی تھی لیکن پلوں کے نیچے رکشے، ہائی ایس ویگنیں ، غرض یہ کہ ہر قسم کی مسافر بردار گاڑیاں رواں دواں ہیں ۔دوسری طرف شہر میں جی ٹی روڈ پر تمام بڑے سکولوں نے اپنی برانچیں کھولی ہیں ۔ صبح سکول کھلنے اور چھٹی کے اوقات میں والدین اپنی گاڑیاں سڑک پہ کھڑی کرتے ہیں ؛لہٰذا ٹریفک رک جاتی ہے ۔یہ ہے پنجاب میں ٹرانسپورٹ کا بدلا ہوا شعبہ ۔
وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف کو جب یہ احساس ہوا کہ صوبے میں تعلیمی صورتِ حال خراب ہے تو فی الفور انہوں نے سات عدد دانش سکول تعمیر کیے ، جہاں اعلیٰ درجے کی معیاری تعلیم انتہائی غریب طلبہ کو میسر آتی ہے ۔ رحیم یار خان کے دانش سکول میں 110طلبہ زیرِ تعلیم ہیں ۔ یوں سات سکولوں میں طلبہ کی تعداد کم وبیش ساڑھے سات سو سے ایک ہزارکے درمیان ہے۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ پنجاب میں سرکاری سکولوں کا رخ کرنے والے طلبہ کی تعداد سات سو یا ایک ہزار ہرگز نہیں بلکہ یہ کروڑوں میں ہے ۔ صوبے میں کم و بیش 53ہزار سرکاری سکول پائے جاتے ہیں ۔شہروں سے باہر نواحی اور دیہاتی علاقوں میں ان سکولوں کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے متلی سی ہونے لگتی ہے ۔ 53ہزار سکولوں کو سدھارنا ، اساتذہ کی تربیت، بنیادی لیبارٹریوں سمیت ساز و سامان کی فراہمی اور نگرانی ایک کارِ دشوار ہے ۔ ایک شخص تنہا یہ سب نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے ایک ٹیم اور ایک نظام بنانا ہوتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکمران ہر کام ہنگامی بنیادوں پر اور ہر صورت میں اپنے دستِ مبارک سے کرنے کے خواہشمند ہیں ۔ کسی بچّی کے ساتھ زیادتی ہو تو وہ خود موقعے پر پہنچ کر دستِ شفقت رکھنے پہ یقین رکھتے ہیں نہ کہ علاقے میں ایک ایسا ایماندار تھانیدار کافی نفری کے ساتھ تعینات کرنے پر‘ جو اوباشوں کی سرکوبی کرے‘ ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکے۔ تھانیدار کی تعیناتی اور علاقے میں اس کا قیام اتنے ہی دنوں پہ محیط ہوتاہے ، جتنے دن مقامی ایم این اے اورممبر صوبائی اسمبلی کو وہ خوش رکھ سکے ۔ راولپنڈی کے حلقہ این اے 53سے چوہدری نثار علی خان کی شکست کے حلقے کے ترقیاتی کاموں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں، یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے ۔ فی الحال صرف اتنا جان لیجیے کہ چوہدری نثار علی خان دس برس مزید سیاست میں رہ گئے تو این اے 53کے باسی غاروں میں قیام پذیر ہوں گے ۔وہ کچا گوشت کھایا اور کیلے کے پتے اوڑھا کریں گے ۔ 
لیگی مخالفین، بالخصوص تحریکِ انصاف کے حمایتی طنزیہ طور پر اسے پٹوار ی لیگ بھی کہتے ہیں ۔ موجودہ حکمران اگر پے درپے کئی بار حکومت بنانے میں کامیاب رہے تو اس کا بنیادی سبب تھانیدار، پٹوار ی اور سرکاری افسروں پہ مشتمل اس سارے نظام کو سمجھ کر اسے استعمال کرنا ہے ۔ کپتان ناکام رہا تو اس لیے کہ اس سارے نظام کو سمجھنے، الیکشن کی سائنس پہ عبور حاصل کرنے اور طاقتوروں کوساتھ ملانے کے گر‘ وہ نہیں جانتا ۔ وزیرِ اعلیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ پٹوار ی کے چنگل سے عوام کو وہ نجات دلائیں گے ۔یہ وعدہ پورا ہوا اور زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے ۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ جس انداز میں یہ ''کمپیوٹرائزیشن‘‘ ہوئی ہے ، اس سے پٹواری کی گرفت مزید مضبو ط ہوئی ہے ۔ عوامی استحصال میں اضافہ ہوا ہے ۔ کیسے؟ انشاء اللہ ایک الگ کالم میں ، میں اس پر روشنی ڈالوں گا۔ 
ساہیوال کی زرخیز زمینوں پر کوئلے کے بجلی گھر کی تعمیر، تین شہروں میں ٹرانسپورٹ سسٹم ، شمسی بجلی گھر ، دانش سکول اور اب تحفظ ِحقوقِ نسواں قانون، جس پر حکمران مولوی حضرات کو صفائیاں دیتے پائے جار ہے ہیں ۔ غرض یہ کہ جہاں جس ادارے اور جس پراجیکٹ کو کھنگالیے ، ہر کہیں ایک افراتفری نظر آتی ہے ۔ ادھر غریب ہے کہ معیاری تعلیم ، صحت اور روزگار سے نسل در نسل محروم ہی چلا آتاہے ۔ ادھر اخبارات میں یہ انکشاف شائع ہوتا رہا ہے کہ دیگر صوبوں کے عوام بھی وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی خدمات سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ پنجاب والوں کو یہ بات مان لینی چاہیے۔کوئی ایسا فارمولا ضرور بننا چاہیے کہ جس سے سندھ، بلوچستان اور پختون خوا وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی خدمات سے مستفید ہو سکیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved