سابق حکمرانوں نے ترقی کے
نام پر لوٹ مار کی: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سابق حکمرانوں نے ترقی کے نام پر لوٹ مار کی‘‘اور ‘ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا جس سے بڑی زیادتی اور ظلم اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ یہ تو ہماری ہمت ہے کہ اپنے طور پر کچھ دال دلیا کر رہے ہیں اور بڑے منصوبے سے ترقی کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور ان سے فارغ ہوتے ہی چھوٹے منصوبوں یعنی صحت‘ تعلیم اور دیگر معاملات پر بھی توجہ دیں گے بشرطیکہ ایسا ہی کوئی اور منصوبہ شروع نہ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ''اقتصادی راہداری پر سرمایہ کاری پاک چین دوستی کے نئے دور کا آغاز ہے‘‘ جس میں ماشاء اللہ اورنج ٹرین منصوبہ بھی شامل کرا لیا گیا ہے جس کی عام لوگوں کو کچھ زیادہ خبر نہیں ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر منصوبوں کو درمیان ہی میں چھوڑ کر ان کے حصے کا سرمایہ بھی اورنج ٹرین پر ہی لگایا جا رہا ہے کیونکہ اس کے مکمل ہونے سے'اور‘ لوگوں کے اس پر سوار ہوتے ہی انہیں اپنے سارے مسائل بھول جائیں گے اور وہ صرف ہمیں یاد رکھیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں زرعی کانفرنس اور پاک چائنا بزنس فورم سے خطاب کر رہے تھے۔
مقدمات سے خوفزدہ نہیں‘ صحت یاب
ہوتے ہی واپس آئونگا: مشرف
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ''مقدمات سے خوفزدہ نہیں ہوں‘ صحت یاب ہوتے ہی واپس آئوں گا‘‘ بلکہ صحت تو یہاں آتے ہی بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے اور علاج ترک کر کے سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں جبکہ واپس آنے میں اس لیے بھی کوئی قباحت یا رکاوٹ نہیں کہ ماشاء اللہ سب کچھ طے ہونے کے بعد ہی وہاں سے روانہ ہوا تھا اور اگر مقدمات چلتے رہے تو بھی خیر ہے کیونکہ پیروی تو حکومت ہی نے کرنی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ پیروی بھی ویسی ہی ہو گی جیسی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنی اپیل میں کی تھی۔ انہوں نے کہا ''اُمید ہے کہ باقی مقدمات میں بھی انصاف ہو گا‘‘ کیونکہ حکومت نے اسی طرح ہی اپنا کردار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم اگلے الیکشن میں تیسری قوت بن کر ابھریں گے‘‘ کیونکہ جو ادارے اور حضرات موجودہ حکومت کو یہاں تک لا چکے ہیں روز بروز زیرو سے ہیرو بنا چکے ہیں وہ ہمارے لیے بھی دُعا دارو کر سکتے ہیں جبکہ ملک عزیز میں دُعائوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز دبئی میں ڈاکٹر امجد اور دیگران سے گفتگو کر رہے تھے۔
مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے مقدمہ
میں بھر پور قانونی جنگ لڑی۔ پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نظریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے مقدمے میں بھر پور قانونی جنگ لڑی‘‘ لیکن ہمارے وکیلوں نے پورا زور نہیں لگایا حالانکہ وہ فیسیں بھی پوری وصول کر چکے تھے اور ہم نے بھی انہیں کچھ نہ کہا کہ ہم نے اُن کا معاملہ اللہ میاں پر چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف کو عدالت کے حکم پر بیرون ملک بھیجا گیا‘‘ اگرچہ حکم میں واضح طور پر لکھ دیا گیا تھا کہ یہ حکومت کی صوابدید پر ہے کہ وہ انہیں جانے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں اور جب ہم نے اس پر غور کیا تو اسی نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم نے چار دن اور حکومت کرنی ہے تو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے اور ‘ حکومت کا جو حال ہو چکا ہے‘ اس کے پیش نظر اس کے اندر دم مارنے کی مجال ہی کہاں باقی رہ گئی ہے جبکہ وزیر اعظم کا تو ماٹو ہے کہ سارے کام مل جل کر کرنے چاہئیں اور جتنے اختیارات باقی رہ گئے ہیں‘ اُنہی پر قناعت کرنا ہی عقلمندی ہے اور ہمارے عقل و ہوش ابھی تک مکمل طور پر رُخصت نہیں ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں برطانوی میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ڈرپ میں کاکروچ
ایک اخباری اطلاع کے مطابق نشتر ہسپتال میں ایک سال کی بچی کو لگائی گئی ڈرپ میں سے لال بیگ نکل آیا‘ اگرچہ اس کا پتا چلنے کے بعد یہ ناقص ڈرپ تو اتار لی گئی لیکن بچی کی حالت خراب ہے جبکہ ہسپتال انتظامیہ اس واقعہ کو دبانے کی کوشش اور بچی کے ورثا ہسپتال والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں حالانکہ بچی کے والدین کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ لال بیگ اور اسی قسم کے حشرات الارض ہسپتال والوں سے خوفزدہ ہو کر ڈرپس وغیرہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں جس کا سارا کریڈٹ حکومت کو بھی پہنچتا ہے کہ وہ اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بس وغیرہ کے ساتھ ساتھ کیڑوں مکوڑوں کو خوفزدہ کرنے میں بھی پوری طرح کامیاب ہے اور لوگ خواہ مخواہ ان مفید منصوبوں کی مخالفت کر تے اور ان کے اضافی فوائد پر نظر نہیں ڈالتے‘ہیں جی؟ ... کا کروچ کی یہ اپنی بھی ہمت ہے کہ پہلے تو پوری محنت سے ڈرپ میں داخل ہوا اور تندرست و توانا بھی رہا‘ یعنی ہمت ہو تو کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
آہ ‘ڈاکٹر انور سدید
حق تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی رحلت کے ساتھ ہی اُردو ادب کا ایک باب بند ہو گیا‘ آپ ایک کثیر المطالعہ ادیب تھے جنہوں نے شاعری‘ انشائیہ اور تنقید نگاری میں نام پیدا کیا۔ افسوس کہ تھوڑے ہی عرصے میں بہت سے ممتاز ادیبوں کا انتقال ہو گیا جن میں جمیل الدین عالی‘ انتظار حسین‘ فاطمہ ثریا بجیا‘ نسرین انجم بھٹی اور بھارتی شاعر ندا فاضلی شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر وزیر آغا کے قریبی مصاحبوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی عمر بھر کی رفاقت کا خوب خوب حق بھی ادا کیا۔ ایک زمانے تک ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور نوک جھونک کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن یہ تو ظاہر ہے کہ سب زندگی ہی کے چونچلے ہیں۔ مرحوم اپنی سنجیدہ ادبی کاوشوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے‘ اگرچہ حکومتی سطح پر ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا جس کی تلافی اب بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ہم سب کی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف فرمائے‘ آمین!!
آج کا مطلع
شعر کہنے کا بہانہ ہوا تُو
میری جانب جو روانہ ہوا تُو