تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-03-2016

ریکارڈز ہمارے غلام

کوئی لاکھ کہے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں مگر دنیا تو کئی سو سال پہلے کے زمانے میں جی رہی ہے۔ اکیسویں صدی کا راگ الاپنے کی عادت ہمارے جی کا روگ ہوگئی ہے۔ باقی دنیا گزرے ہوئے زمانوں میں جی کر بہت خوش ہے۔ 
بہت سے لوگوں میں معاملات کو ایک خاص زاویے یا ٹائم فریم سے دیکھنے اور جانچنے کی عادت ہوتی ہے۔ مثلاً گزرے ہوئے عشروں کا رونا یوں رویا جاتا ہے جیسے ان عشروں میں کوئی بہت بڑا تیر مارا ہو۔ کوئی کہتا ہے 1970ء کا زمانہ بہت اچھا تھا، کسی کا خیال ہے انگریزوں کے دور میں زندگی زیادہ آسان اور باعزت تھی، کسی کا خیال ہے سوا سو ڈیڑھ سو سال پہلے جب جمہوریت کا غلغلہ نہیں تھا تب زندگی بہتر تھی یعنی بادشاہت بھلی تھی۔ یہ وضاحت کوئی نہیں کرتا کہ گزرے ہوئے زمانے کیوں اچھے تھے اور اُن زمانوں میں عام آدمی کو ایسا کون سا خزانہ بخش دیا جاتا تھا جس کی بنیاد پر اُس کی زندگی ہر طرح کے سکھ سے مزیّن ہوجایا کرتی تھی۔ 
یہ عادت آج بھی بہت سوں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ ترقی یافتہ ممالک سے اکثر ایسی خبریں آتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں نے بہت کم مدت میں فلاں کام کرکے بہت بڑا تیر مار لیا اور یوں کوئی ریکارڈ اس کے نام لکھ دیا جاتا ہے۔ معاملہ اس حد تک آگیا ہے کہ اب مل کر قومی ترانہ گانے والے، اجتماعی سیٹیاں بجانے یا تالیاں پیٹنے والے بھی ریکارڈ بنانے لگے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ریکارڈ آئے دن ٹوٹتے رہتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، کسی اسٹیڈیم میں 40 ہزار افراد مل کر قومی ترانہ گاتے ہیں تو کچھ دن بعد کہیں 50 ہزار افراد مل کر قومی ترانہ گا بیٹھتے ہیں۔ یہی حال مل کر کیے جانے والے دوسرے بہت سے ایسے کاموں کا ہے جنہیں صرف اوٹ پٹانگ قرار دیا جاسکتا ہے۔ 
یہ ہے گزرے ہوئے زمانوں کی سوچ یعنی دنیا والے اب تک کام کرنے کی عادت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پھر اکیسویں صدی میں کون سی انوکھی بات ہوئی؟ ہمیں دیکھیے کہ ہم نے کچھ نہ کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی مہارت کے ساتھ اکیسویں صدی میں بھی خود کو زندہ رکھا ہے! 
دو سال پہلے کی بات ہے، ایشیکا نے ایک گھنٹے میں 60 ماڈلز کا میک اپ کرکے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں نام درج کرایا۔ ایشیکا نے کم و بیش ڈیڑھ سال پریکٹس کے بعد 16 دسمبر 2014 ء کو پہلی بار اپنی مہارت آزمائی۔ اس نے ایک گھنٹے میں 64 ماڈلز کا میک اپ کیا مگر ججز نے بعض ماڈلز کے میک اپ کو غیر معیاری قرار دیا۔ پھر بھی 60 میک اپ تو پرفیکٹ ثابت ہوئے۔ 
جو کچھ ایشیکا نے کیا وہ اور اس سے ملتے جلتے کئی کام دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں اور پھر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں نام درج کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں خیر سے صرف سلطان راہی تھے جنہوں نے گنیز بک والا کوئی کام کیا۔ انہوں نے کم و بیش 900 فلموں میں اداکاری کی۔ اتنی فلموں میں کوئی کیسے اورکیسی اداکاری کرسکتا ہے، یہ راز خود سلطان راہی بیان کرسکتے تھے! کسی اور میں اتنا کام کرنے کی توکیا، اتنے کام کو بیان کرنے کی ہمت بھی نہیں! 
گنیز بک اب ایسے ہی کاموں کے اندراج کے لیے رہ گئی ہے۔ کوئی ایک گھنٹے میں کئی درجن روٹیاں پکاکر اپنا نام درج کرانا چاہتا ہے۔ کوئی ایک گھنٹے میں زیادہ سے زیادہ کیک تیار کرکے ریکارڈ قائم کرنے کے درپے ہے۔ کوئی بہت بلند آواز سے چیخنے کو بھی ریکارڈ کا درجہ دلانے کے لیے کوشاں دکھائی دیتا ہے۔ طرح طرح کے بے ڈھنگے ریکارڈ قائم کرنے کی ایک دوڑ سی لگی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہتھیاروں کی دوڑ کا غلغلہ ہوا کرتا تھا، اب ریکارڈ قائم کرنے کی دوڑ کسی اور دوڑ کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 
ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ دنیا بھر میں آج تک ریکارڈزکام کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا ہے کہ دنیا والے آج بھی گزرے ہوئے زمانوں میں جی رہے ہیں۔کام تو انسان ہزاروں سال سے کرتا آیا ہے۔ اگر کام کرکے کوئی ریکارڈ قائم کیا تو کون سا تیر مار لیا؟ 
ایشیکا ہی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہماری خواتین جو کچھ کرتی آئی ہیں اس پر یہ محترمہ دریا بھر پانی پھیرنے کے موڈ میں ہیں۔ ہمیں تو حیرت اس بات پر ہے کہ خاتون ہوتے ہوئے بھی ایشیکا نے میک اپ کے معاملے میں تیزی کو اپنا رکھا ہے۔ خواتین اور تیز رفتار میک اپ؟ کیا ایشیکا کو معلوم نہیں کہ میک اپ میں زیادہ سے زیادہ تاخیر خواتین کی انتہائی بنیادی خصوصیت ہے؟ ہمارے ہاں خواتین میک اپ کے نام پر ڈھائی تین گھنٹے سکون سے ایک طرف بیٹھے رہنے کے حوالے سے ریکارڈ قائم کرنے کے موڈ میں ہیں اور ایشیکا ہے کہ ان کی عظیم کوشش کا منہ چڑانے کے درپے ہے! 
ہم بہت سوچنے پر بھی سمجھ نہیں پائے کہ ایشیکا نے ایک گھنٹے میں 60 ماڈلز سے جو سلوک کیا اُسے میک اپ قرار دیا جاسکتا ہے؟ اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ وہ کیسی ماڈلز تھیں جو ایک منٹ میں کیے ہوئے میک اپ سے مطمئن ہوگئیں! ہمارے ہاں لڑکیاں بالیاں معمولی سے فیشل میں ڈیڑھ گھنٹہ ٹھکانے لگادیتی ہیں۔ اور اگر شادی میں شریک ہونے کے لیے تیاری کرنی ہو تو میک اپ اِس اہتمام کے ساتھ کیا جاتا ہے جیسے حسن کو چار چاند لگانے کی نہیں بلکہ تلاش کرنے کی مہم چل رہی ہو! ایمان کی تو یہ ہے کہ شادی اور خوشی کی دیگر تقریبات میں شرکت کے لیے خواتین کی تیاری یعنی میک اپ اب ہمارے ہاں بجائے خود ایک ایونٹ میں تبدیل ہوچکی ہے! اگر میک اپ میں زیادہ سے زیادہ دیر لگانے کا مقابلہ کرایا جائے تو گنیز بک والے توکیا، ان کے اچھے خاں بھی فاتح خاتون کا تعین نہیں کرپائیں گے! اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دولہا شام 6 بجے تک سیلون سے تیار ہوکر آجاتا ہے اور خواتین کے میک اپ کی مہربانی سے بارات رات ساڑھے نو بجے روانہ ہوتی ہے۔ تب تک بے چارے دولہا کے چہرے سے وہ ساری تابانی رخصت ہوچکی ہوتی ہے جسے پیدا کرنے کے لیے خطیر رقم خرچ کی گئی ہوتی ہے! 
یہ تو ہوا میک اپ کا بیان۔ ریکارڈز بنانے والوں کی ہمارے ہاں کسی بھی دور میں کمی نہیں رہی۔ اب یہی دیکھیے کہ قومی سطح پر کئی ٹیمیں ہیں۔ دوسرے کھیلوں کی ٹیمیں بے چاری جیت جیت کر تھک جاتی ہیں مگر کوئی پوچھتا نہیں اور کرکٹ ٹیم مسلسل ہارنے پر بھی اسپاٹ لائٹ میں رہتی ہے! ایک زمانے تک اسکواش کے کھلاڑی ساری دنیا کو پچھاڑتے رہے مگر کوئی منہ لگانے کو تیار نہ ہوا۔ روش خان، رحمت خان، جہانگیر خان اور جان شیر خان جیسے عظیم کھلاڑیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا مگر اُن کی کامیابیوں نے قوم کے نوجوانوں میں ذرا بھی جوش نہ پُھونکا کہ اسکواش کی طرف آئیں۔ یہ بجائے خود ایک ریکارڈ ہے! 
کچھ کیے بغیر نام اور دام کمانے کے معاملے میں ہمارے کرکٹرز منفرد نہیں۔ اُن سے بہت پہلے ہمارے سرکاری دفاتر نے کھیل کے میدان کا درجہ حاصل کرکے ایسے ایسے کھلاڑی پیدا کیے کہ دنیا دیکھے تو حیران رہ جائے۔ ایسے معاشروں کی کمی نہیں جن میں لوگ کام پر دیر سے پہنچتے ہیں اور پھر کام بھی کم کرتے ہیں۔ یہ بھی ''بڑی‘‘ بات ہے مگر اِتنی بڑی نہیں کہ ہمارے سرکاری دفاتر کے اسٹیج پر پائے جانے والے عظیم فنکاروں کا سامنا کرسکے! پاکستان خیر سے وہ معاشرہ ہے جس میں یار لوگ سرکاری دفتر میں حاضری دیئے بغیر محض تنخواہ نہیں بلکہ اوور ٹائم بھی پاتے رہے ہیں! 
گنیز بک والے ریکارڈز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اگر انہیں ریکارڈز کی تلاش ہے تو ایسے ماہرین کے ساتھ یہاں آئے جو کچھ نہ کرنے والوں کی ''صلاحیت‘‘ کو جانچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں! ایشیکا نے ایک گھنٹے میں 60 ماڈلز کا میک اپ کیا اور گنیز بک میں نام لکھوایا۔ اگر ہماری کسی بیوٹی ایکسپرٹ کی کھوپڑی گھوم گئی تو برش اور پاؤڈر کو ہاتھ لگائے بغیر ایک گھنٹے میں 100 ماڈلز کا ''گھوسٹ‘‘ میک اپ کر گزرے گی اور گنیز بک والوں کے پاس اُسے سرٹیفکیٹ دینے کے سِوا چارہ نہ ہوگا یعنی زیادہ آنی کانی کی تو گنیز بک کی ٹیم کا سراغ نہ ملے گا اور یہ بھی بجائے خود ایک ریکارڈ ہوگا!

٭٭٭

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved