سورۃ الانبیا آیت 30 میں ارشاد ربانی ہے: ''یہ زمین اور آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی‘‘۔ ہمارے اردو کے درسی نصاب میں ایک پیاسے کوّے کے بارے میں پڑھایا جاتا تھا کہ پانی کی تلاش میں نڈھال وہ ادھر ادھر مارا مارا پھر رہا تھا، لیکن پانی کا ایک قطرہ بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اچانک کوّے کی نظر ایک گھڑے پر پڑی۔ وہ جلدی سے وہاں پہنچا لیکن یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ گھڑے میں موجود پانی کی سطح بہت ہی نیچے تھی۔ کوّے نے مایوس ہونے یا ہمت ہار کر پیاس سے مرنے کی بجائے اپنی پیاس بجھانے کے لئے قریب ہی پڑی ہوئی کنکریوں کے ڈھیر سے ایک ایک کرکے کنکریاں گھڑے میں ڈالنا شروع کر دیں۔ اگرچہ وہ پیاس اور تھکن سے نڈھال تھا‘ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اورکنکریاں گھڑے میں ڈالتا گیا اور پھر وہ وقت آیا کہ پانی کی سطح بلند ہو گئی اور اس نے جی بھر کے پانی پیا۔
ہر سال دنیا بھر میں میں 22 مارچ ''ورلڈ واٹر ڈے‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پانی کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے دنیا بھر میں سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں، ماہرین اس مخصوص دن ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ کرہ ارض پر انسانی ضروریات کے لئے درکار پانی کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے‘ اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور پانی کے وسائل اور ذرائع کو بڑھانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام نہ کیا گیا تو ایک وقت آئے گا کہ بنی نوع انسان کو اس سے نا قابل برداشت مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر پاکستان کی صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو ہماری مثال تو اس کوّے سے بھی بدتر ہے جس نے اپنی پیاس بجھانے کے لئے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔
اگر وطن عزیزکے چاروں جانب نظر دوڑائیں تو جی چاہتا ہے کہ ہر وقت اﷲ کے حضور اپنا سر جھکائے رکھیں کہ اس پاک ذات، سب سے بڑی اور لازوال ہستی نے ہمارے ملک کے محدود جغرافیے میں فطرت کے ہر رنگ اور موسم کی رنگینیوں کا ایک جہان آباد کر رکھا ہے۔ روہی سے لے کر پنجاب کے زرخیز میدانوں تک، کشمیر کی سر سبز وادیوں سے دشت خاران تک، پوٹھوہار کے پتھریلے جمال سے کیچ کے بیابانوں تک، مہران کے جنگل بیلوں سے تھر کے خانہ بدوش ٹیلوں تک، بدین کی مسحور کن ڈھانڈوں سے سوات اور کالام کی مچلتی بل کھاتی وادیوں اور آبشاروں تک، قراقرم کی سنگلاخ برف پوش چوٹیوں سے مکران کے نیلگوں ساحلوں تک تحفے دینے میں قدرت نے بس نہیں کی بلکہ وہ چار خوبصورت موسم دیے جو بہت کم لوگوں کی قسمت میں آتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اتنے موسم دنیا میں کہیں اور اکٹھے مل سکتے ہیں؟
ساون بھادوں کی برسات، جس کے حسن و جمال اور دلفریبی پر شاعروں نے گیتوں کی بھرمار کر دی، گرمی میں آم جو مٹھاس، ذائقے اور خوشبو میں بے نظیر ہے، سردیوں کا موسم جس پر بہار کا گمان گزرتا ہے‘ اور وہ بہار جس کی ہریالی، پھولوں کی مہک اور ارد گرد پھیلی ہوئی شادابی جو انسان کو مسحور کر کے رکھ دے۔ خدا کے عطا کردہ اس خطے کے جری، جفاکش اور بہادر لوگ، اس میں بہتی جنت نظیر نہریں، شوریدہ سر جھرنے، لہلہاتے کھیت، پھلوں اور پھولوں سے لدے باغات۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہے لیکن آج وہ بہتے ہوئے دریا نظر نہیں آتے، نہ جانے کہاں گئے؟ اپنوں کی کوتاہیوں اور ناعاقبت اندیشی کے ساتھ ساتھ اغیار کی سازشوں سے آج بیاس، ستلج اور راوی صحرا بن چکے ہیں۔ آج خشک اور بے آب نظر آنے والے دریا قدرت نے نہیں بلکہ ہم نے خشک کر کے رکھ دیے ہیں۔
پاکستان کا قریباًََ آدھا پانی ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پگھلتے برفزاروں سے جبکہ آدھا بارشوں سے حاصل ہوتا ہے، جن کا جوبن برسات میں ہوتا ہے۔ اس طرح سال کا تین چوتھائی پانی جولائی سے ستمبر کے درمیان ہمارے دریائوں سے گزرتا ہے۔ شدید بارشوں میں سیلاب کی صورت حال سے 36 ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی تباہی مچاتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ سمندر میں گرنے والے پانی کی اوسط
قیمت 70 کھرب روپے سالانہ بنتی ہے جو ملک کے 68 سالوں کے مجموعی قرضوں سے بھی زیادہ ہے۔ سیلاب سے ملک کے قیمتی جان و مال کے نقصانات الگ ہیں۔ ہم ہر سال 22 مارچ کو ''واٹر ڈے‘‘ کے طور پر مناتے ہیں لیکن کبھی نہیں سوچا کہ ہم اپنے دریائوں کی طغیانی پر ہی قابو پا لیں‘ جس سے ایک طرف عوام کے جان و مال کو محفوط بنایا جا سکتا ہے اور دوسری جانب یہ اضافی پانی ذخیرہ کر کے ملک بجلی کی پیداوار اور زراعت میں خود کفیل ہو کر دگنا اناج پیدا کر سکتا ہے۔ اگر ہم پانی محفوظ کر لیں تو ہر دو تین سال بعد سیلاب کی بھینٹ چڑھنے والوں کے لئے فوٹو سیشن کرنے اور اغیار سے بھیک مانگنے کی ذلت سے نجات مل جائے گی اور ہر آنے والا سیلاب قوم کے لئے مصیبت اور زحمت بننے کی بجائے رحمت کی نوید بن جائے گا۔
اگر ہم اپنی قوم کی موجودہ اور آنے والی نسلوں سے مخلص ہیں، اگر ہم پاکستان سے مخلص ہیں تو بلوچستان میں ناڑی بولان، کے پی کے میں وارسک سے اوپر، سندھ میں بھٹ شال گیس فیلڈ کے قریب، دریائے ناڑا پر ساون کے مقام پر اور پنجاب کے روہتاس میں پانی اور بجلی کے منصوبے تیار کئے جا سکتے ہیں‘ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا اس کے لئے ہمیں اپنی دھرتی سے مخلص ہونا پڑے گا۔ کالا باغ ڈیم کے بارے میں حکمرانو ں کو ڈر ہوتا ہے کہ اس کی تعمیر سے کچھ لوگ بے گھر ہو جائیں گے۔ جناب! جب آپ نے لاہور، راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بسوں اور اورنج ٹرین کے منصوبے شروع کئے تو آپ نے کتنے گھر پلک جھپکتے ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ میں کبھی کبھی
پاکستان کے جانی دشمن کی ایجنسیوں کو داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہوں جنہوں نے ہماری آدھی درجن سے زائد علاقائی جماعتوں کے ذریعے چالیس سال قبل تیار کئے گئے کالا باغ ڈیم کو کاغذوں کے ڈھیر میں بدل کر رکھ دیا‘ اور ہم اس دشمن کے سامنے بے بس ہیں۔ 22 مارچ کے دن پانی کی اہمیت کو اجا گر کرنے کی رسم نبھاتے ہوئے ہم بحیثیت فرد اور قوم بھول رہے ہیں کہ پاکستان کی صورت میں جو جنت ارضی قدرت نے ہمیں عطا کی ہے اس کا مدار حیات آفرین پانی کے اعتدال پر ہے۔ پانی کم پڑ جائے تو قحط اور حد سے بڑھ جائے تو سیلِ عذاب۔ آبادی میں دن بدن بڑھتے ہوئے پھیلائو اور سندھ طاس جیسے نامعقول قسم کے معاہدوں کے باعث ماضی سے لڑنا ممکن نہیں، لیکن یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ پانی کے نئے ذخیرے اس طرح بنائے جائیں کہ برسات کا ذخیرہ شدہ پانی مارچ میں ہی ختم ہو جانے کی بجائے جون تک محفوظ کر لیا جائے؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ پنج ند سے نیچے جولائی تک جہلم اور چناب کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پہنچ پاتا جس سے بدگمانیاں بڑھتی اور نفرتوں کا کاروبار فروغ پاتا ہے؟ نئے منصوبوں کی کمی اور پرانے منصوبوں میں ریت بھرنے سے، آنے والے برسوں میں صورت حال کی سنگینی بڑھتی جائے گی۔
یاد رکھیے کہ جو قومیں انصاف سے جینے کا ہنر نہیں سیکھ پاتیں، زمانے کا جبر انہیں برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ مجھے تو پیاسے کوّے کی مثال پانی پانی کر گئی ہے، آپ کی کیفیت کیا ہے، اس کے بارے میں آپ خود جانتے ہیں۔