تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-03-2016

مکرر عرض ہے!

انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، حکمت ہی سب سے بڑا اثاثہ، سب سے بڑا ہتھیار، سب سے بڑا دفاع اور سب سے بڑی پناہ ہوتی ہے۔ فرمایا: جسے حکمت عطا کی گئی اسے خیر کثیر بخشا گیا۔
برسلز کے دھماکوں کا سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو ہو گا۔ انتقام اور وحشت سوار ہو تو عقل و دانش کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ نفرت میں قوت بہت ہوتی ہے مگر انجام کار مکمل تباہی۔زندگی کو اس کے خالق نے بُنا ہی اس طرح ہے کہ خیر خواہی کے ساتھ ہی پنپ سکتی ہے۔
مغرب معصوم نہیں۔ بے گناہوں کے قتل کی دادکون دے سکتا ہے‘ مگر اس نفرت کی نمود مغرب کی منافقت کے طفیل ہے۔ شامی مہاجرین کے راستے میں پہاڑ سی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی۔ مسلم ملک کے مکینوں پر مغرب کے راستے اور بھی تنگ ہو جائیں گے‘ مگر مغربی دنیا اپنی منافقت کی سزا بھگت رہی ہے۔
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
خدا کے قوانین کبھی نہیں بدلتے۔ اپنی جہالت کی سزا ہم بھگتیں گے اور اپنی حماقتوں کا بوجھ مغرب اٹھائے گا۔ خیر اسے اپنی تباہی کی نوید دینے کی بجائے، ہمیں اپنی فکر لاحق ہونی چاہیے۔ غور اس پر کرنا چاہیے کہ ہم کیسے دلدل سے باہر نکل سکتے ہیں۔ کشود اور فراغ کے امکانات کیسے پھوٹ سکتے ہیں۔
مکررعرض ہے کہ پاکستان کو شمال سے خطرہ ہے۔ بھارت کی پشت پناہی اور امریکیوں کا اغماض مگر افغانستان بجائے خود بھی ایک مسئلہ ہے۔ دہلی کا ایجنڈا واضح ہے، پاکستان کا خاتمہ اور اکھنڈ بھارت کا حصول۔ امریکہ اور مغرب پاکستان کو محتاج رکھنے کے آرزو مند ہیں۔ چین کے گرد گھیرا ڈالنے کے بھی ۔
پاک فوج کی کوششوں سے .....اور اس پالیسی کے معمار جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے، بھارت کو افغانستان میں اعلانیہ کوئی کردار 
نہیں مل سکا۔ امریکیوں نے جنرل کی مزاحمت کی، کولن پاول سمیت بعض نے برملا مذمت بھی مگر وہ ڈٹا رہا۔ جو تحقیر اس کے حصے میں آئی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے کابل کو لبھانے کی کوشش کی۔ نیت ان کی نیک تھی مگر تجزیہ ناتمام۔ صدر اشرف غنی کا انداز فکر کتنا ہی مثبت ہو، افغان لشکر شاہی، فوج اور اس سے زیادہ خفیہ ایجنسی این ڈی ایس میں بھارتیوں کے اثرات گہرے اور قدیم ہیں۔ اپنی نمو پذیر معیشت کے بل پر بھارت اب زیادہ سرمایہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ حال میں افغانستان کا دورہ کرنے والے ڈائیلاگ 1.5کے وفد سے ایک افغان لیڈر نے کہا: آپ کی امداد ہمیں درکار نہیں۔ بھارت ہمارے لیے کافی ہے۔ آپ صرف تخریب کار بھیجنا بند کر دیں۔ پشاور کے آرمی پبلک سکول میں بچوں کو قتل کرنے اور اس پر فخر کرنے والا ملا فضل اللہ اور دوسرے قاتل کہاں پناہ گزین ہیں۔ افغان اور امریکی افواج نے ان کے خلاف کتنی کارروائیاں کیں۔ کتنے ڈرون حملے ان پر ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان کے لطیف محسود کو امریکیوں نے اس وقت گرفتار کیا، جب این ڈی ایس کے افسروں کی ہمراہی میں وہ کابل تشریف لے جا رہے تھے۔
پاکستانی دانشور اور اخبار نویس اپنی حکومت کو افغانستان پر معقول پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ بالکل ٹھیک، دیرپا منصوبہ بندی کی بنیاد پر‘ تضادات سے پاک۔ یہی اخبار نویس مگر افغان اور بھارتی عزائم کو کیوں بے نقاب نہیں کرتے۔ پاکستانی میڈیا کے افق پر مغرب کی بولی بولنے والی این جی اوز کے ستارے کیوں جگمگاتے ہیں؟۔
افغان عوام سے دشمنی نہیں، ہمارا دوستی کا پیمان ہے۔ ایک ہزار برس سے وہ ہمارے حلیف ہیں۔ ہر ممکن مدد ہمیں ان کی کرنی چاہیے جیسا کہ سوویت یلغار کے ہنگام افغان مہاجرین کی دیکھ بھال، جو اب تک جاری ہے۔ صنعت و زراعت سمیت۔ سینکڑوں افغان بچے ہر صبح پاک افغان سرحد پار کر کے پاکستانی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ اگر ممکن ہو تو افغان سکولوں کے لیے اساتذہ بھجوانے چاہئیں، جن کی تنخواہیں حکومت پاکستان ادا کرے۔ نفرت کی آگ ...نفرت نہیں، محبت سے ٹھنڈی کی جا سکتی ہے۔ مگر ایسے میں جب حامد کرزئی لطیف محسود کو اپنا اثاثہ قرار دے رہے ہوں۔ بلوچستان میں پنجابیوں، سرائیکی اور اردو بولنے والوں کے علاوہ خود اپنے لوگوں کو قتل کرنے والوں کو افغانستان میں پناہ دی جاتی ہو، ان کے کیمپ وہاں قائم ہوں‘ این ڈی ایس براہ راست تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث ہو، دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں میں تعاون کا معاہدہ کیونکر کامیاب ہوتا۔
افغانستان کے باب میں ہم نے پہاڑ ایسی غلطیاں کی ہیں۔ اپنی غلطیوں کی ہمیں اصلاح کرنی چاہیے۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیں کہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا جائے گا، حامد کرزئی کے حوالے سے، جس کا مظاہرہ اول صدر زرداری اور پھر نواز شریف کرتے رہے۔ امریکہ اور بھارت کے پیاروں سے مؤدبانہ رویہ.... خود اپنے ہم وطنوں پر تو ایسے مہربان وہ کبھی نہیں ہوئے، جب ان سے اختلاف ہو۔
پاکستان میں مقیم افغان طالبان پر کابل اور مغرب کو اعتراض ہے۔ کیا ہم نے انہیں اپنے ہاں مدعو کیا تھا؟ کیا ان لاکھوں مہاجرین کو بھی جو پاکستانی معیشت پر ایک بڑا بوجھ ہیں اور اس کی سلامتی کے لیے مسلسل ایک خطرہ۔ ایک طرف تو پاکستان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ دبائو ڈال کر انہیں مذاکرات کی میز پر لائے۔ ددوسری طرف انہیں کچل ڈالنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کس قدر ہولناک تضاد ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت پر افغانستان کے تمام دروازے کھلے ہیں۔ پاکستان سے امید کی جاتی ہے کہ افغانستان کی داخلی خود مختاری کے نام پر اس کو گوارا کیا جائے۔ دوسری طرف افغان شہری پاکستان کو آزادی سے استعمال کرتے رہیں۔ آخر یہ کیا تماشا ہے۔ حال ہی میں دوبار افغانستان کا دورہ کرنے والے ڈائیلاگ 1.5کے وفد سے کہا گیا کہ فلاں افغان چینل کو پاکستان میں نشریات کی اجازت نہیں دی گئی۔ معاملے کی تحقیقات کی گئی تو بعض لطائف سامنے آئے۔ پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کرنے اور نشریات کے لیے، وہ ایک دھیلے کی ادائیگی کرنے پر آمادہ نہ تھے، بین الاقوامی معاہدوں کے تحت جو لازم ہیں۔ دوسری طرف ایک پاکستانی چینل نے کابل میں دفاتر قائم کرنے کی اجازت مانگی تو مطالبہ کیا گیا کہ چند ایک کے سوا تمام عملہ افغانوں پر مشتمل ہو گا۔ ان کے معاوضے بھی طے کر دیئے گئے۔ چپراسی کی ماہوار تنخواہ، 5 ہزار امریکی ڈالر۔ کیا ستم ہے کہ افغان ٹریڈ کے نام پر جو اشیاء درآمد کی جاتی ہیں اس کا ایک حصہ پاکستان سمگل کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانی معیشت کو اس سے سالانہ ایک سو ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے۔ افغانستان سے اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔ طالبان تو اس میں ملوث ہیں ہی، افغان امریکی افواج کے افسربھی ۔
226کلو میٹر کی پاک افغان سرحد سب سے بڑا درد سر ہے۔ آزادانہ اس پر آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ جنرل جنجوعہ کوئٹہ میں تھے تو 450کلو میٹر طویل خندق کھودنے کا آغاز ہوا تھا۔ پوری سرحد بند ہونی چاہیے، جہاں تک ممکن ہو۔ صرف خندق نہیں، اس میں پانی چھوڑا جائے یا بجلی کے تار لگائے جائیں۔ نگرانی اور گشت کا انتظام اس کے سوا ہونا چاہیے۔ افغانستان کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفود کے شرکاء بتاتے ہیں کہ تنہائی کی گفتگوئوں میں پاکستانی مؤقف گاہے مان لیا جاتا ہے۔ حیران کن طور پر باقاعدہ اجلاسوں میں مؤقف بدل جاتے ہیں۔ یہ افغان مزاج ہے، انتہائی پیچیدہ اور سخت سودے باز۔ پاکستانی سڑکوں پر ایسے قالین بیچنے والے دکھائی دیتے ہیں جو دس ہزار طلب کرنے کے بعد، ایک ہزار روپے میں ایرانی قالین فروخت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں کے مکین مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ وسائل سے وہ ہمیشہ محروم رہے۔ دوسروں کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے وہ خوگر ہیں۔ سخت جاں ہیں۔ مذہبی ہیں۔منتقم مزاج ہیں اور غیر ملکیوں پر کبھی بھروسہ نہیں کرتے۔ ہمیں بہرحال توازن، خیر خواہی اور معقولیت سے کام لینا چاہئے مگر قومی سلامتی پر ہم سمجھوتہ کیسے کر سکتے ہیں؟۔
قوموں کے مزاج صدیوں میں بنتے ہیں اور آسانی سے تبدیل نہیں ہوتے۔ یہ ایک نکتہ ہے اور دوسرا وہی، سول فوجی ہم آہنگی بلکہ ایک وسیع تر قومی اتفاق رائے کے بغیر، ایک کامیاب افغان پالیسی کی تشکیل ممکن ہے اور نہ اس کا نفاذ۔
انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، حکمت ہی سب سے بڑا اثاثہ، سب سے بڑا ہتھیار، سب سے بڑا دفاع اور سب سے بڑی پناہ ہوتی ہے۔ فرمایا: جسے حکمت عطا کی گئی اسے خیر کثیر بخشا گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved