چوہدری نثار علی خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پہلے دن بات تو سچ ہی کہی کہ جب جنرل مشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں ای سی ایل سے نام نکالنے کا مقدمہ چل رہا تھا تو پیپلز پارٹی اور سب سے بڑھ کر چوٹی کے قانون دان پارٹی (فریق) کیوں نہیں بن گئے تھے؟ ان کا اشارہ اعتزاز احسن کی طرف تھا جو ہال میں موجود تھے۔ اس کا جواب اعتزاز احسن کے پاس نہ تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ کسی دور میں جنرل مشرف نے انہیں بھی وزیراعظم بنانے کا اشارہ کرایا تھا، لہٰذا مروتاً انہوں نے پارٹی بننا پسند نہ کیا ہو، البتہ اب وہ پوائنٹ سکورنگ کر رہے تھے۔
میرے شرارتی ذہن میں یہ بات ضرور آئی کہ اگر ڈالر گرل ایان علی کے لیے پاکستان کے قائم مقام صدر فاروق نائیک اور سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ کو پنڈی کی عام عدالت میں وکیل بنا کر بھیجا جاسکتا ہے تو اعتزاز احسن کو سپریم کورٹ کیوں نہ بھیجا گیا جبکہ وہاں سندھ حکومت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہوئی تھی اور سب کو اس کا علم تھا؟ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے حامد علی خان نے بھی سپریم کورٹ میں پٹیشن دائرکی ہوئی تھی جس میں انہوں نے سندھ عدالت کے فیصلے کے خلاف پارٹی بننے کی استدعا کی تھی؛ تاہم فیصلے والے دن تین دفعہ حامد علی خان کا نام پکارا گیا لیکن وہ پراسرار طور پر عدالت سے غائب پائے گئے۔ ایک اور تماشا ملاحظہ فرمائیں، عمران خان اب وضاحتیں حکومت سے مانگ رہے ہیں کہ جنرل مشرف کوکیوں جانے دیا؟ بہتر ہوگا عمران خان پہلے اپنے پارٹی لیڈر سے پوچھیںکہ وہ آخری لمحے پرکہاں غائب ہوگئے تھے؟ ماشاء اللہ اب عمران خان بھی سیاسی ڈرامے میں اسی طرح شریک ہیں جیسے باقی۔
ویسے پوچھنے کی جرأت کی جاسکتی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی جو ایان علی کے لیے لطیف کھوسہ اور فاروق نائیک کو نچلی عدالت میں بھیجتی رہی اور ان بڑے وکیلوںکو سبکی بھی محسوس نہ ہوئی، اگر پارٹی کے پیٹ میں جنرل مشرف کے خلاف اتنا درد تھا تو اعتزاز احسن کوکیوں نہ بھیجا گیا کہ وہ پارٹی بنیں اور سپریم کورٹ کو بتائیں کہ جنرل مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ ان کے خلاف نہ صرف آرٹیکل چھ کے تحت ٹرائل ہو رہا ہے بلکہ ان پر بینظیر بھٹوکے قتل کا مقدمہ بھی درج ہے؟
کیا ڈالرگرل پیپلز پارٹی اور اس کے لیڈروں کے نزدیک بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے سے زیادہ اہم ہے جس کے لیے آصف زرداری اپنے ٹاپ کے وکیل نچلی عدالتوں میں بھیجتے رہے لیکن بینظیر بھٹو کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث جنرل مشرف کے ای سی ایل کیس کا انہیں پتا ہی نہ چلا؟ جب پتا چلا تو بلاول بھٹو نے رولا ڈال دیا، مظاہروں کا اعلان کر دیا۔ خورشید شاہ پارلیمنٹ میں رولا ڈال دیتے ہیںکہ جناب دیکھیں ظلم ہوگیا، برباد ہوگئے، لٹ گئے، حکومت نے جنرل مشرف کو جانے دیا۔
جنرل مشرف کے بیرون ملک جانے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ مان لیتے ہیں، چوہدری نثار درست فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے نزدیک جنرل مشرف قانون شکن تھے، لہٰذا انہیں نہیں جانے دینے جانا چاہیے تھا، تو پھر بینظیر بھٹو اسی قانون شکن سے کیوں دبئی میں خفیہ ملاقاتیں کرتی رہیں اوراسی سے این ار آو لے کر پاکستان لوٹیں؟ سوال تو بنتا ہے۔ جنرل مشرف نے قانون شکنی 12 اکتوبر1999ء کو کی تھی، پیپلز پارٹی نے اس قانون شکن سے کیوں ڈیل کی، جس کے جانے پر اب وہ اتنی برہم ہے؟ اگرچہ اس کا بھی اچھا سا جواب نواز لیگ کو دیا جاسکتا ہے کہ جناب مان لیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی جان بوجھ کر ان حقائق سے نظریں چرا کر قانون شکن جنرل مشرف سے ڈیل کر رہی تھی لیکن آپ کی تو حکومت کو توڑنے والے اوروزیراعظم نواز شریف کو جیل بھیجنے والے ہی جنرل مشرف تھے۔ وزیراعظم کو اچھی طرح علم تھا کہ قانون شکن کون ہے، اس لیے آرٹیکل چھ بھی اس پر لگایا اور ٹرائل بھی ہو رہا تھا۔حکمران بتائیں ان حقائق کے باوجود ان کے دس وزراء نے کیونکر ایوان صدر جا کر جنرل مشرف کو قانونی صدر مانتے ہوئے اپریل 2008 ء میں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں حلف اٹھایا تھا؟ جنرل مشرف نے جب خواجہ آصف، چوہدری نثارعلی خان، سعد رفیق،احسن اقبال،اسحاق ڈار وغیرہ سے حلف لیا تو اس وقت تک وہ ایک بار نہیں بلکہ دو بار قانون شکنی کر چکے تھے۔ مان لیتے ہیں کہ بارہ اکتوبرکی پہلی قانون شکنی کو عدالت اور اسمبلی نے قانونی شکل دے دی تھی، لیکن 3 نومبر2007 ء کی آئین شکنی تو ابھی تازہ تھی، اس کو گزرے پانچ ماہ بھی نہیں ہوئے تھے۔ تو پھر نواز لیگ کے سینئر وزراء نے کیوں اسی جنرل مشرف کو حلف دیا کہ وہ ملک کے وفادار رہیںگے اورکوئی غلط کام نہیں کریںگے؟
نواز لیگ یہ جواز پیش نہیںکر سکتی کہ کیاکرتے، جمہوریت کو چلانے کے لیے ضروری تھا کیونکہ انہی کے ہی ایک ساتھی جاوید ہاشمی نے جنرل مشرف کے سامنے حلف اٹھانے سے انکارکر دیا تھا۔ چوہدری نثار، خواجہ آصف اور اسحاق ڈار بھی انکار کر سکتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بتایا جا سکتا تھاکہ ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن اپنے وزراء کو جنرل مشرف کے سامنے حلف نہیں اٹھانے دیںگے کیونکہ ہم مشرف کو آئین شکن سمجھتے ہیں۔مان لیں کہ پاکستان کی اشرافیہ ایک دوسرے سے ناراض ہوجائے، ایک دوسرے کو جیل میں ڈال دے لیکن ایک دوسرے کے کام ضرور آتی ہے، چوری چھپے ایک دوسرے کی مدد کرتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ آج کے ملزم ہی کل ملک کے وزیراعظم اور وزیر بنیں گے، انہیں بھی ان سے مدد کی ضرورت پڑسکتی ہے، لہٰذا جیل سے لے کر ہسپتال، بیرون ملک جانے اور ضمانت کرانے تک یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
مثلًا بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ 1999ء میں بینظیر بھٹوکو نواز شریف حکومت نے ہی خفیہ پیغام بھیجا تھا کہ آپ ملک سے باہر چلی جائیںکیونکہ آپ کوگرفتار کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ بینظیر بھٹو خاموشی سے پاکستان سے چلی گئیں۔ یہ کام میاں نواز شریف کی مرضی اور ایما پر ہوا تھا۔ اسی طرح جب جنرل مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کو قید کیا تو سب نے دیکھا کہ اسی جنرل مشرف نے بیرونی دوستوںکے کہنے پر انہیں اٹک قلعہ سے نکال کر باعزت طور پر سعودی عرب بھیج دیا۔ جب سعودی عرب میں شہباز شریف بیمار ہوئے اور انہیں نیویارک جانے کی ضرورت پیش آئی تو اسی جنرل مشرف نے مدد کی اور انہیں پاکستانی پاسپورٹ واپس کیا گیا، انہوں نے نیویارک میں طویل قیام کیا، وہاں سے لندن گئے اور دوبارہ سعودی عرب نہ گئے۔ وزیراعظم کے صاحبزادے کو سعودی عرب میں علاج کی ضرورت پیش آئی تو جنرل مشرف نے پھر مدد کی اور صاحبزادے کو بھی لندن جانے کی اجازت دے دی۔ اسی طرح آ صف زرداری کو بھی 2004ء میں جیل سے نکال کر نیویارک علاج کے لیے بھیجا۔ پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی این آئی سی ایل کے سکینڈل میں پھنس گئے تو سب نے مل کر اس نوجوان کی مدد کی۔ پیپلز پارٹی نے فوری طور پر اس نوجوان کو لاہور میں نادرا کے ریسٹ ہائوس میں رکھا اور جب تک رحمن ملک نے اسے دھونس دھاندلی، گواہوں اور دیگر اداروں کو ڈرا کر بری نہیںکرا لیا آرام سے نہیں بیٹھے۔ اسی پیپلز پارٹی نے پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بنایا جس کی پارٹی کو قاتل لیگ کا نام سابق صدر زرداری نے خود بینظیر بھٹو کے قتل کے تیسرے دن دیا تھا۔ میں اس طرح کی درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں جہاں پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ ایک دوسرے کی علاج کے نام پر مدد کرتی رہی۔ اگر آج جنرل مشرف کو وزیراعظم نے بیرون ملک جانے کی اجازت دی ہے تو یہ اسی طرح کی انڈرسٹینڈنگ کا حصہ ہے جو پاکستانی اشرافیہ نے غیر اعلانیہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کر رکھی ہے کہ پکڑے جائیں تو فوراً بیماری کا بہانہ کر کے ہسپتال داخل ہوںگے اور اگر ہسپتال میں پڑے پڑے تھک جائیں تو بیرون ملک جانے کے انتظامات ہو جائیںگے۔ اس دوران بیگانے کی شادی میں عبداللہ کو نچانے کے لیے قوم اور میڈیا کو بیوقوف بنانے کا کام بھی جاری رکھیںگے جیسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پہلے دن ہم نے دیکھا کہ کیسے چوہدری نثار علی خان، خورشید شاہ اور اعتزاز احسن مل کر اسی طرح کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور یقین کریں کہ وہ سب کامیاب رہے۔ اگر پاکستانی سیاست میں اداکاری کا آسکر ایوارڈ ہوتا تو یقین کریں میں ان تینوں میں مشترکہ بانٹ دیتا۔ ان کے سوا کوئی کوالیفائی نہ کرتا کیونکہ ان کے جواز سن کر میرے اپنے آنسو بہنے لگے کہ اس قدر معصوم اور اچھے لوگوں پر ہم کیسے شک کرتے رہتے ہیں۔
پہلا کمال نواز لیگ کا ملاحظہ فرمائیں۔ عدالت کا فیصلہ یہ ہے کہ حکومت کی مرضی، وہ مشرف کو جانے دے یا نہ جانے دے ۔ چوہدری نثار نے اپنی مرضی کی تشریح کر کے قوم کو بتایا کہ عدالت کا حکم تھا۔ اب عدالت پریشان ہوگی کہ ہم نے کب حکم دیا تھا؟ دوسرا کمال: عمران خان کا اہم لیڈر حامد خان پارٹی بنتا ہے اور آخری دن عدالت سے غائب ہو جاتا ہے۔ عمران خان الٹا ملبہ وزیراعظم پر ڈال کر ان سے وضاحتیں مانگ رہے ہیں۔ تیسرا کمال: ایان علی کے لیے پیپلز پارٹی اپنے ٹاپ وکیل لطیف کھوسہ اور فاروق نائیک کو عدالت میں کھڑا کر کے اسے چھڑا کر لے جاتی ہے، لیکن بینظیر بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر میں نامزد ملزم جنرل مشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں ای اسی ایل سے نام نکالنے کی ساری ذمہ داری وہ نواز شریف اور چوہدری نثار پر ڈال دیتی ہے۔ اور داد‘ دیں میرے دوست چوہدری نثار علی خان اور وزیراعظم کوکہ انہوں نے کیسے وہ بھاری ذمہ دار نبھائی کہ وہ سب کچھ عدالت پر ڈال کر پتلی گلی سے نکل گئے!
کمال لوگ۔۔۔۔باکمال واردات۔۔۔۔!