تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-03-2016

غیرت مند برگیڈ اور ایک غیر متعلق قصہ

میں یہ کالم شاید کچھ تاخیرسے لکھ رہا ہوں لیکن اس کی اس کے سوا اور کوئی وجہ نہیں کہ میں نے جان بوجھ کر لکھنے میں دو چار دن تاخیر کی ہے۔ دراصل میں ایک تیر سے دو شکار کرنے کے موڈ میں تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں ایک ہی کالم میں دو کالموں کو نپٹا لوں گا تا ہم ایسا نہ ہو سکا۔ میرا مطلب ہے میں جن دو کالموں کو ایک کالم میں نپٹانا چاہتا تھا وہ تو نہ ہو سکا لیکن بہر حال میں اب دوسرے طریقے سے دو کالموں کو ایک کالم میں لپیٹ رہا ہوں۔
بالآخر جنرل(ر) پرویز مشرف کا پنچھی پھُر کر کے اڑ گیا۔ ہسپتال میں داخل خاصی خراب حالت میں علاج معالجہ کی غرض سے بیرون ملک جانے والے بہادر سابق صدر نے دوبئی اترتے ہی جان بچانے والی ادویات کا استعمال شروع کر دیا اور پہلی خوراک کے طور پر سگار کے لمبے لمبے کش لگائے۔ گمان غالب ہے کہ اب تک وہ دیگر صحت افزا سرگرمیوں کا آغاز بھی فرما چکے ہوں گے جن سے وہ بوجوہ پاکستان میں محروم نہ سہی نیم محروم ضرور تھے۔ بیرون ملک علاج معالجے میں علاج بالمثل کی جو سہولیات میسر ہیں وہ پاکستان میں کہاں؟۔
پرویز مشرف کی پاکستان سے روانگی نے دونوں قسم کے بہادروں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ ایک وہ بہادر جو مکے لہراتا تھا اور کہتا تھا کہ میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں۔ اور دوسرے وہ جو آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ چلا کر آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کو قرار واقعی سزا دینے کے دعویدار تھے۔ جب جنرل (ر) پرویز مشرف پاکستان آئے تو میں نے تبھی یہ لکھا تھا کہ وہ دراصل غلطی سے آگئے ہیں کہ انہیں یہ خوش فہمی 
تھی کہ قوم ان کے استقبال کیلئے ائیرپورٹ پر امڈ پڑے گی۔ ایک ہجوم بیکراں ہو گا جو کراچی ائیرپورٹ پر انہیں خوش آمدید کہنے کیلئے موجود ہو گا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا استقبال شاید بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد کا ری میک ثابت ہو گا لیکن سب کچھ خام خیالی ثابت ہوا۔ ان کے کارندے ان کے کروڑوں روپے ہضم کرنے کے باوجود چند درجن بندے بھی اکٹھے نہ کر سکے۔ معتبر راوی کا کہنا ہے کہ ان کے استقبال میں جو پیسے گول کیے گئے وہ تقریباً بائیس کروڑ روپے تھے۔ ان بائیس کروڑروپوںسے یاد آیا گزشتہ دنوں میں اپنے ایک ایسے دوست کے ساتھ اسی قسم کی گفتگو کر رہا تھا کہ دوست کہنے لگا کہ جنرل صاحب (پرویز مشرف) کم از کم فنانشل کرپٹ نہیں تھے۔ میں ہنس پڑا۔ میں نے کہا بھائی صاحب! آپ بھی اس زمانے میں مزے کر رہے تھے‘ اقتدار میں تھے۔ جنرل صاحب کے قریبی لوگوں کے قریب تھے۔ آپ کو یہ کہنا زیب بھی دیتا ہے اور آپ کا فرض بھی ہے کہ آپ ان کے طفیل مستفید ہونے والوں میں سے تھے لیکن مجھے بتائیں‘ اگر جنرل صاحب فنانشل کرپٹ یعنی مالی معاملات میں بد عنوان نہیں تھے تو ان کی پراپرٹی اور بینک بیلنس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟۔اگر وہ اپنی سیکنڈ لیفٹینی سے لے کر جرنیلی تک کی ساری سروس کی ساری تنخواہ بچا لیتے۔ ایک ٹیڈی پیسہ اپنی ذات پر خرچ نہ کرتے۔ خود مانگے تانگے سے گزارا کر لیتے اور ساری تنخواہ ساری سروس کے دوران ڈائریکٹ بینک میں بھجوا دیتے تب بھی وہ اس ساری تنخواہ بمعہ سود ملا کر ایجوٹر روڈ والا فلیٹ نہ خرید سکتے۔ لندن میں جس جگہ ان کا فلیٹ ہے وہاں صرف ارب پتی عرب شیوخ کے یا دنیا بھر میں لوٹ مار کر کے پیسے اکٹھے کرنے والے لوگوں کے فلیٹ ہیں جیسے اپنے رحمن ملک ہو گئے۔
میرا دوست کہنے لگا جنرل صاحب نے یہ ساری جائیداد اس آمدنی سے بنائی ہے جو انہوں نے لیکچرز کے ذریعے کمائی تھی میں زور سے ہنسا اور اپنے دوست سے پوچھا کیا جنرل پرویز مشرف ہنری کسنجر سے بھی زیادہ معتبر پروفیسر تھے۔ اتنی آمدنی تو ہنری کسنجر نے اپنے لیکچرز سے نہیں کمائی ہو گی جتنی پرویز مشرف کی بتا رہے ہیں۔ انہوں نے دوبئی میں بنگلہ خرید لیا، ایجوئر روڈ لندن میں بیش قیمت فلیٹ بنا لیا‘شنید ہے کہ ان کے پاس ترکی میں ''شہزادوں کے جزیرے‘‘ میں ایک عدد نہایت مہنگا ولا بھی ہے۔ اللہ جانے ان کے کتنے بینک ابھی پردہ غائب میں ہیں لیکن جو معلوم ہیں ان میں جمع شدہ رقوم ہی بڑی ہوش ربا ہیں۔ اب اکاؤنٹ نمبر اور رقوم مجھے زبانی یاد نہیں مگر بلا مبالغہ یہ رقم بھی پاکستانی روپوں میں ایک ارب سے زائد ہے (یہ بات زبانی کلامی ہو رہی تھی) یہ ساری رقم ، یہ ساری جائداد کہاں سے آئی؟۔ ویسے بھی جنرل صاحب نے دوبئی کا بنگلہ اور ایجوئر روڈ والا فلیٹ پاکستان سے نکلتے ہی لے لیا تھا۔ لیکچرز دینے کا سلسلہ بعد میں شروع کیا۔ یہ ممکن ہے کہ ایسے تمام لوگوں نے جنہوں نے مستقبل میں ان سے لیکچرز کروانے تھے ایڈوانس میں ہی سارے پیسے دے دیئے ہوں۔ میرا دوست خاموش ہو گیا۔
ویسے اب ان اکاؤنٹس کی تھوڑی سی تفصیل دے دوں تو کوئی حرج نہیں۔ ایک خلیجی ملک کے ایک بینک کے ڈالر اکاؤنٹ میں (پاکستانی روپوں میں)، 391 ملین روپے ‘ اسی بینک میں جنرل صاحب اور ان کی بیگم کے نام پر ایک مشترکہ اکائونٹ میں 48 ملین روپے‘ اسی بینک کے درہم اکائونٹ میں 174 ملین روپے‘ چوتھے بینک اکاؤنٹ میں 148 ملین روپے، اسی بینک میں پانچواں اکاؤنٹ ماشاء اللہ ‘ 728 ملین روپے کا ہے ۔ چھٹے اکاؤنٹ میں 184 ملین روپے ہیں۔ ایک اور اکاؤنٹ میں 118 ملین روپے ہیں‘ ٹوٹل 1791 ملین روپے یعنی تقریباً ایک ارب اسی کروڑ روپے‘ ابھی جنرل صاحب فنانشنل کرپٹ نہیں تھے۔ خیر بات کچھ اور ہو رہی تھی اور کہیں اور چلی گئی۔ جنرل صاحب اپنی حماقت سے پاکستان آ تو گئے تھے مگر جانے میں مشکلات پیدا ہو گئیں۔ اسی دوران مسلم لیگ ن کے غیرت مند برگیڈ نے اپنی بہادری کی ڈینگیں مارنی شروع کر دیں۔ ''کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے‘‘ فیم خواجہ آصف نے بھی بڑھکیں مارنی شروع کر دیں اور احسن اقبال نے بھی پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کی صورت میں استعفیٰ دینے کا نعرہ مستانہ بلند کر دیا۔ خواجہ سعد رفیق ایسے موقع پر کیسے پیچھے رہ سکتا تھا اس نے بھی بلند و بانگ دعوے کرنے شروع کر دیے۔ اب جنرل صاحب باہر چلے گئے ہیں۔ غیرت مند برگیڈ کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
میرے دوست پرویز رشید پر ہر چوتھے دن مشکل وقت آن پڑتا ہے اور ان کو اپنی سرکار کی بہت سے باتوں کی صفائی دینی پڑ جاتی ہے تا ہم ان کی صفائی کا بھی تقریباً وہی معیار اور حال ہے جو ایم کیو ایم والوں کا الطاف حسین کی ہر تقریر کے بعد دیتے ہوئے ہوتا ہے ۔اب پرویز رشید فرما رہے ہیں کہ عدالت نے پرویز مشرف کو باہر بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ واقعہ نہ تو پرانا ہے اور نہ ہی پوشیدہ۔ عدالت نے کھلے لفظوں میں قرار دیا کہ پرویز مشرف کے باہر جانے یا نہ جانے کی اجازت وغیرہ کا ملبہ ان پر نہ ڈالا جائے بلکہ سرکار فیصلہ کرے کہ سابق صدر کو باہر جانے کی اجازت دینا ہے یا نہیں۔ چوہدری نثار نے اپنے بیان میں کہا کہ مشرف علاج کے بعد چھ ہفتے تک واپس آکر مقدمات کا سامنا کریں گے جس پر حکومت نے باہر جانے کی اجازت دی۔ ہر وزن عدالت پر ڈالنے کے عادی حکمرانوں نے بڑی کوشش کی کہ عدالت فیصلہ کرے مگر عدالت نے آخری فیصلے کا اختیار حکومت کے کندھے پر ڈال دیا۔ سرکار سے پریشر برداشت نہ ہو سکا اور انہوں نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے جنرل (ر) پرویز مشرف کو پاکستان سے جانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ (بقیہ صفحہ 5 نمبر1)
اب رولا پڑا ہوا ہے کہ کس نے اجازت دی تھی کیوں دی تھی؟۔ صورتحال یہ ہے کہ اپنے زمانے میں پرویز مشرف کے معاملے میں مکمل چپ سادھنے والی پیپلز پارٹی کو بھی اب آرٹیکل چھ کی یاد ستانا شروع ہو گئی ہے اور وہ ان کے باہر جانے پر احتجاج کر رہی ہے۔ اپنی پانچ سالہ حکومت کے دوران نہ ان کو آرٹیکل چھ یاد آیا اور نہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے پر کوئی کاروائی کا خیال آیا۔ یہی حال مسلم لیگ ن والوں کا ہے کہ خود باہر بھجوا کر اب پیپلز پارٹی کو طعنے مارنے میں مصروف ہیں۔ مشرف دبئی میں مزے کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اب عورتوں کی طرح طعنے مارنے سے فرصت نہیں۔ چوہدری نثار علی خان موجودہ صورتحال پر بات کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کے دور پر اعتراض لگا رہے ہیں۔ بہادری کے دعویدار جنرل صاحب اب ازخود تو واپس نہیں آئیں گے کہ وہ دوسری بار حماقت کے متحمل نہیں ہیں۔ عوام کو ایک نئی بحث میں لگا دیا گیا ہے۔ ملک میں حقیقی مسائل پر کوئی بات ہی نہیں کر رہا۔ عوام کو درپیش مشکلات روز بروز بڑھ رہی ہیں اور اسمبلی میں بیٹھے ہوئے طبقہ اشرافیہ کو عوام کی رتی برابر فکر نہیں۔عجب نمائندے ہیں کہ ملک و قوم کے لیے آنے والے دنوں میں کچھ کرنے کے بجائے ماضی کی الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ غیرت مند برگیڈ استعفے دینے کے بجائے بغلیں جھانک رہا ہے۔
قارئین کالم ختم ہوا لیکن بد قسمتی سے مواد ختم ہو جانے کے باعث ذرا مختصر رہ گیا ہے۔ اس لیے اس جگہ کی خانہ پری کرنے کے لیے ایک واقعہ لکھ رہا ہوں۔ اس واقعے کا درج بالا کالم سے کوئی تعلق نہیں بس کاغذ کالا کرنے کی غرض سے چار سطریں گھسیٹ رہا ہوں۔
افریقہ کے جنگل میں ایک چوہا سیر کرتا ہوا تھوڑی دور گیا تو کیا دیکھتا ہے ایک ہاتھی زمین پر لیٹا پڑا ہے۔ چوہے میں تجسس کی حس کچھ زیادہ تھی وہ تھوڑا نزدیک آکر دیکھنے لگا۔ اتنا عظیم الجثہ جانور اس نے اتنے قریب سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پہاڑ جیسا جانور دیکھ کر وہ مزید قریب چلا آیا۔ ہاتھی بے حس و حرکت پڑا تھا۔ چوہا قریب آتے آتے اتنا قریب آ گیا کہ ہاتھی کو چھو سکتا تھا۔ ہاتھی اب بھی بے حس و حرکت تھا۔ چوہے نے ہاتھی کو ہلانے جلانے کی کوشش کی تا ہم اپنی حماقت پر خود ہی ہنس پڑا۔ اسے اب احساس ہوا کہ ہاتھی تو مردہ پڑا ہے۔ اس میں تجسس کا مادہ تو پہلے ہی موجود تھا اب ایسا سنہرا موقعہ پایا تو رہ نہ سکا اور سونڈ پر چڑھ کر دوڑ لگاتا ہوا اوپر آیا اور کود کر منہ میں چلا گیا۔ اندر ایک عجیب دنیا تھی۔ دل، کلیجی، گردے، اوجھڑی، پتہ، انتڑیاں اور ڈھیروں الابلا۔ چوہے نے اندر گھومنا شروع کر دیا۔ پھرنے کے لیے جگہ بھی وسیع تھی اور چیزیں بھی عجیب و غریب گھنٹوں لگ گئے جب واپسی کا ارادہ کیا تو کیا دیکھا کہ ہاتھی کا ''منہ‘‘ بند ہو چکا ہے۔ اندر گھومتے پھرتے اس کو احساس ہی نہ ہوا کہ رات ہو گئی ہے۔ دن کی گرمی سے جو ''منہ‘‘ کھلا تھا وہ رات کو سردی پڑنے سے سکڑ کر بند ہو چکا تھا۔ چوہا سائنس کے اس کلیے سے نا آگاہ تھا کہ چیزیں گرمی سے پھیلتی اور سردی سے سکڑتی ہیں۔
چوہے نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ گھنٹوں رونے کے بعد اسے خیال آیا کہ دعا کی جائے۔ اس نے گڑ گڑا کر دعا مانگنی شروع کی اور دو چار گھنٹے اس کام میں لگا رہا۔ اسی اثنا میں دن چڑھا، سورج نکلا، گرمی پڑی اور ''منہ‘‘ دوبارہ کھل گیا۔ روشنی دیکھ کر وہ باہر کی طرف بھاگا۔ منہ سے باہر نکل کر چھلانگ لگائی اور بگٹٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ قریب ہی موجود اس کے ایک واقف چوہے نے اس سے اندر کا حال پوچھا۔ چوہے نے بھاگتے بھاگتے کہا۔ کہ اندر کیا تھا؟ اس پر لعنت بھیجو۔ بس اتنا یاد رکھو کہ اپنے سے بڑے کے ''منہ‘‘ میں نہیں گھسنا چاہیے چاہے وہ مرا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔ واقعہ ختم ہوا۔ اس کو درج بالا کالم سے جوڑ کر نہ پڑھا جائے۔ مہربانی ہو گی۔!
اب رولا پڑا ہوا ہے کہ کس نے اجازت دی تھی کیوں دی تھی؟۔ صورتحال یہ ہے کہ اپنے زمانے میں پرویز مشرف کے معاملے میں مکمل چپ سادھنے والی پیپلز پارٹی کو بھی اب آرٹیکل چھ کی یاد ستانا شروع ہو گئی ہے اور وہ ان کے باہر جانے پر احتجاج کر رہی ہے۔ اپنی پانچ سالہ حکومت کے دوران نہ ان کو آرٹیکل چھ یاد آیا اور نہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے پر کوئی کاروائی کا خیال آیا۔ یہی حال مسلم لیگ ن والوں کا ہے کہ خود باہر بھجوا کر اب پیپلز پارٹی کو طعنے مارنے میں مصروف ہیں۔ مشرف دبئی میں مزے کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اب عورتوں کی طرح طعنے مارنے سے فرصت نہیں۔ چوہدری نثار علی خان موجودہ صورتحال پر بات کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کے دور پر اعتراض لگا رہے ہیں۔ بہادری کے دعویدار جنرل صاحب اب ازخود تو واپس نہیں آئیں گے کہ وہ دوسری بار حماقت کے متحمل نہیں ہیں۔ عوام کو ایک نئی بحث میں لگا دیا گیا ہے۔ ملک میں حقیقی مسائل پر کوئی بات ہی نہیں کر رہا۔ عوام کو درپیش مشکلات روز بروز بڑھ رہی ہیں اور اسمبلی میں بیٹھے ہوئے طبقہ اشرافیہ کو عوام کی رتی برابر فکر نہیں۔عجب نمائندے ہیں کہ ملک و قوم کے لیے آنے والے دنوں میں کچھ کرنے کے بجائے ماضی کی الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ غیرت مند برگیڈ استعفے دینے کے بجائے بغلیں جھانک رہا ہے۔
قارئین کالم ختم ہوا لیکن بد قسمتی سے مواد ختم ہو جانے کے باعث ذرا مختصر رہ گیا ہے۔ اس لیے اس جگہ کی خانہ پری کرنے کے لیے ایک واقعہ لکھ رہا ہوں۔ اس واقعے کا درج بالا کالم سے کوئی تعلق نہیں بس کاغذ کالا کرنے کی غرض سے چار سطریں گھسیٹ رہا ہوں۔
افریقہ کے جنگل میں ایک چوہا سیر کرتا ہوا تھوڑی دور گیا تو کیا دیکھتا ہے ایک ہاتھی زمین پر لیٹا پڑا ہے۔ چوہے میں تجسس کی حس کچھ زیادہ تھی وہ تھوڑا نزدیک آکر دیکھنے لگا۔ اتنا عظیم الجثہ جانور اس نے اتنے قریب سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پہاڑ جیسا جانور دیکھ کر وہ مزید قریب چلا آیا۔ ہاتھی بے حس و حرکت پڑا تھا۔ چوہا قریب آتے آتے اتنا قریب آ گیا کہ ہاتھی کو چھو سکتا تھا۔ ہاتھی اب بھی بے حس و حرکت تھا۔ چوہے نے ہاتھی کو ہلانے جلانے کی کوشش کی تا ہم اپنی حماقت پر خود ہی ہنس پڑا۔ اسے اب احساس ہوا کہ ہاتھی تو مردہ پڑا ہے۔ اس میں تجسس کا مادہ تو پہلے ہی موجود تھا اب ایسا سنہرا موقعہ پایا تو رہ نہ سکا اور سونڈ پر چڑھ کر دوڑ لگاتا ہوا اوپر آیا اور کود کر منہ میں چلا گیا۔ اندر ایک عجیب دنیا تھی۔ دل، کلیجی، گردے، اوجھڑی، پتہ، انتڑیاں اور ڈھیروں الابلا۔ چوہے نے اندر گھومنا شروع کر دیا۔ پھرنے کے لیے جگہ بھی وسیع تھی اور چیزیں بھی عجیب و غریب گھنٹوں لگ گئے جب واپسی کا ارادہ کیا تو کیا دیکھا کہ ہاتھی کا ''منہ‘‘ بند ہو چکا ہے۔ اندر گھومتے پھرتے اس کو احساس ہی نہ ہوا کہ رات ہو گئی ہے۔ دن کی گرمی سے جو ''منہ‘‘ کھلا تھا وہ رات کو سردی پڑنے سے سکڑ کر بند ہو چکا تھا۔ چوہا سائنس کے اس کلیے سے نا آگاہ تھا کہ چیزیں گرمی سے پھیلتی اور سردی سے سکڑتی ہیں۔
چوہے نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ گھنٹوں رونے کے بعد اسے خیال آیا کہ دعا کی جائے۔ اس نے گڑ گڑا کر دعا مانگنی شروع کی اور دو چار گھنٹے اس کام میں لگا رہا۔ اسی اثنا میں دن چڑھا، سورج نکلا، گرمی پڑی اور ''منہ‘‘ دوبارہ کھل گیا۔ روشنی دیکھ کر وہ باہر کی طرف بھاگا۔ منہ سے باہر نکل کر چھلانگ لگائی اور بگٹٹ بھاگ کھڑا ہوا۔ قریب ہی موجود اس کے ایک واقف چوہے نے اس سے اندر کا حال پوچھا۔ چوہے نے بھاگتے بھاگتے کہا۔ کہ اندر کیا تھا؟ اس پر لعنت بھیجو۔ بس اتنا یاد رکھو کہ اپنے سے بڑے کے ''منہ‘‘ میں نہیں گھسنا چاہیے چاہے وہ مرا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔ واقعہ ختم ہوا۔ اس کو درج بالا کالم سے جوڑ کر نہ پڑھا جائے۔ مہربانی ہو گی۔!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved