تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     24-03-2016

احتساب… صرف کرکٹ ٹیم کا؟

نیوزی لینڈ کی ٹیم کے مقابلے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے دھواں دھار بیٹنگ کا آغاز کیا تو پوری قوم جھوم اُٹھی‘ مگر پھر احمد شہزاد‘ عمر اکمل اور شعیب ملک نے پوری قوم کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کپتان کے طور پر تنقید کا ہدف شاہد آفریدی ہے اور ٹیم میں اندرونی سیاست کا خمیازہ اُسے بھگتنا پڑے گا۔ مگر کیا صرف شاہد آفریدی کو دوش دیا جا سکتا ہے؟ 
کرکٹ ٹیم‘ میچ نیوزی لینڈ سے ہارے یا بھارت سے‘ چنداں باعث حیرت نہیں کہ ہار جیت معمول کی بات ہے‘ مگر ہم عجیب و غریب لوگ ہیں‘ کھیل میں ہم جنگی جنون کا شکار ہوتے ہیں اور جہاں جنگی جنون درکار ہے وہاں ہم سے زیادہ غیر جذباتی کوئی نہیں۔ بھارت کے بارے میں ہمارے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ فوجی جرنیلوں اور دانشوروں کا طرز عمل بسا اوقات بے حمیتی کی حدود کو چُھونے لگتا ہے۔ مگر شاہد آفریدی کی زیر قیادت کرکٹ ٹیم سے ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ بھارتی ٹیم کا کچومر نکال دے۔ شاید سیاسی اور سفارتی محاذ پر اپنی ناکامی اور کم ہمتی کا بدلہ ہم کھیل کے میدان میں چکانا چاہتے ہیں۔
شرجیل خان کے آئوٹ ہونے تک میچ پاکستانی ٹیم کی گرفت میں تھا اور کامیابی کے امکانات روشن‘ خالد لطیف کی انٹری کے بعد پہلا اوور ختم ہوا تو میرے بیٹے شاہ حسن نے‘ جو کلب کرکٹ کھیل چکا ہے‘ سست رفتاری دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر خدانخواستہ ہم میچ ہارے تو ذمہ دار احمد شہزاد ہو گا‘ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ کہا: ''180 کے ہدف کا تعاقب تیز رفتاری کا تقاضا کرتا ہے مگر احمد شہزاد نے کھیل کی رفتار سست کر دی ہے‘ وہ یوں کھیل رہا ہے جیسے ٹیسٹ میچ کھیلنے آیا ہو‘‘۔ عمر اکمل کی آمد اور سست رفتار بلے بازی کے بعد اُس نے پیش گوئی کی کہ اب صرف شاہد آفریدی میچ بچا سکتا ہے‘ ورنہ ہم میچ ہار چکے ہیں۔ بات یوں درست تھی کہ احمد شہزاد سے عمر میں کم و بیش دس بارہ سال بڑے شاہد آفریدی نے تو چھکا لگایا اور دوسرا چھکا لگاتے ہوئے وہ آئوٹ ہوا‘ مگر اوپنر احمد شہزاد نے چوکا‘ چھکا لگانے کی زحمت کی‘ نہ اس کا موڈ نظر آتا تھا یہی حال عمر اکمل اور شعیب ملک کا تھا۔ احمد شہزاد اور عمر اکمل کی سست رفتاری گروپ بندی کا شاخسانہ تھی یا قمار بازی اور ہوس زر کا نتیجہ۔ تفتیشی کمیٹی کو سراغ لگانا چاہیے۔
مطالبہ اب یہ ہو رہا ہے کہ شاہد آفریدی ٹیم کی جان چھوڑے‘ بجا! شاہد آفریدی نے اُنیس سال کرکٹ کھیل لی۔ بہت ہو گئی مگر شاہد آفریدی کا نعم البدل؟ کیا یہ بھی شاہد آفریدی کا قصور ہے کہ 19 سال میں اس جیسا کوئی کھلاڑی ہم پیدا نہیں کر سکے۔ شاہد آفریدی محض بیٹسمین نہیں‘ آل رائونڈر کھلاڑی ہے۔ بیٹنگ میں نہ چل سکے تو بائولنگ اچھی کر لیتا ہے۔ گزشتہ روز اُس نے دو وکٹیں لیں جبکہ ہم سب کے ہیرو اور فاسٹ بائولر محمد عامر ایک وکٹ بھی نہ لے سکے۔ فیلڈر بھی وہ کمال کا ہے‘ کیچ لے کر وہ باقی دونوں شعبوں میں اپنی ناکامی کا ازالہ کر لیتا ہے‘ کسی اور کھلاڑی کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟ مگر اس سے بھی اہم اس کی گلیمرس شخصیت ہے۔ ٹیم میں وہ واحد کھلاڑی ہے جس کا کھیل دیکھنے کے لیے لوگ سٹیڈیم کا رُخ کرتے‘ ٹی وی سکرین کے سامنے جم کر بیٹھتے اور آئوٹ ہونے پر سٹیڈیم اور ٹی وی لائونج سے باہر نکل جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کو اشتہار آفریدی کے نام پر ملتے ہیں اور ٹکٹیں بھی اسی کے طفیل بکتی ہیں ورنہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں رکھا کیا ہے؟ چند سازشی‘ جوئے باز اور سفارشی کھلاڑی اور اُن کی مایوس کن کارگزاری اللہ اللہ خیر سلاّ۔
پاکستان دنیا کا غالباً واحد ملک ہے جہاں الاماشاء اللہ حکومت پر لٹیروں‘ سیاست پر نوسربازوں‘ صنعت و تجارت پر ٹیکس چوروں اور محراب و منبر پر تفرقہ بازوں کا غلبہ ہے مگر قوم کی ساری اُمیدیںکھلاڑیوں سے وابستہ ہیں کہ وہ ایماندار‘ اہل‘ باصلاحیت‘ کامیابی و کامرانی کے ضامن اور عوامی اُمنگوں کے ترجمان ہوں۔ کوئی بھی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ جہاں ہر شعبے میں پستی‘ کرپشن‘ بددیانتی‘ سفارش‘ اقرباء پروری‘ جوڑ توڑ‘ سازش اور گروہ بندی کا راج ہے۔ وہاں ہماری کرکٹ یا ہاکی ٹیم اس سے مبراّ کیسے ہو سکتی ہے اور جس ملک میں پی سی بی پر نجم سیٹھیوں اور شہریاروں کا قبضہ ہو وہاں ورلڈ کلاس کرکٹ کیسے پروان چڑھ سکتی ہے۔
قائد اعظمؒ نے یہ بات کہی تو صحافت کے بارے میں تھی The Press and The Nation rise and Fall Together مگر یہ صادق ہر شعبے پر آتی ہے‘ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ زندگی کے باقی تمام شعبے پستی اور ابتری کا شکار مگر کرکٹر فتح و کامرانی کے پھریرے لہرا رہے ہوں۔
جس دور میں ہم زندگی کے دوسرے شعبوں‘ حکمرانی‘ سیاست‘ صنعت و تجارت وغیرہ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ کھیلوں کے میدان میں بھی ہم سربلند و سرخرو تھے۔ سکواش کے میدان میں ہاشم خان‘ جہانگیر خان‘ جان شیر خان اور قمر الزمان کا طوطی بولتا تھا۔ ہاکی میں سمیع اللہ خان‘ کلیم اللہ خان‘ منظور جونیئر‘ شہناز شیخ‘ شہباز احمد‘ اصلاح الدین اور حسن سردار کا نام پوری دنیا میں گونج رہا تھا۔ گوگل پر 25, Best Cricketers of all time سرچ کریں تو سر بریڈمین‘ سچن ٹنڈولکر‘ ویون رچرڈز‘ کپل دیو‘ ایان بوتھم‘ ڈینس للیّ‘ جے سوریا‘ رکی پونٹنگ‘ میگراتھ اور برائن لارا کے ساتھ عمران خان‘ وسیم اکرم‘ جاوید میانداد‘ انضمام الحق کے نام ملتے ہیں مگر اب؟
کرکٹ کی ابتری کی بنیاد میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ میں سفارشی بھرتیوں کے ذریعے ڈال دی گئی تھی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے چہیتے نسیم اشرف کے دور میں آئے روز کی تبدیلیوں اور من پسند کھلاڑیوں کو آگے لانے کی پالیسی نے ٹیم میں جوڑ توڑ‘ سازشوں اور گروہ بندی کی راہ ہموار کی۔ اس دور میں جواری کھلاڑیوں کے بارے میں جسٹس قیوم رپورٹ سامنے آئی مگر سزا یافتہ کھلاڑیوں میں سے بعض کو دوبارہ کھیلنے کا موقع دیا گیا اور بعض نااہل قرار پائے۔ دوسرے کھلاڑیوں کو پیغام یہ ملا کہ جوئے بازی جرم نہیں‘ بشرطیکہ آپ کی لابی مضبوط ہو اور وسیم اکرم کی طرح آپ ٹیم کے لیے ناگزیر تصور کئے جاتے ہوں۔ لیکن پاکستانی کرکٹ کا بیڑا غرق محض اس بناء پر نہیں ہوا۔ جب پورے ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم‘ دھن دولت کی پوجا کا رواج‘ دونوں ہاتھوں سے پیسے سمیٹنے والوں کو معاشرے میں باعزت تصّور کیا جاتا ہو۔ بڑے سے بڑے جُرم کی بازپُرس کرنے والا کوئی نہ ہو‘ جائز‘ ناجائز‘ حلال و حرام کی تمیز مٹ چکی اور چلے ہوئے کارتوس ہی قیادت کے منصب پر فائز ہوں تو کسی کھلاڑی کو بائولے کتے نے کاٹا ہے کہ وہ محض پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے کھیلے؟ وہ کیوں دولت کے انبار لگائے نہ دنیا کی مہنگی گاڑیاں‘ گھڑیاں خریدے نہ محلات اور پلازے کھڑے کرے اور نہ بیرون ملک عالی شان فلیٹس کا مالک بنے۔
روم میں تو وہی چلتا ہے جو روم کا رواج ہے۔ کل ایک صاحب فرما رہے تھے کہ ٹیم میں چلے ہوئے کارتوسوں کو اب چلتا کیا جائے مگر کیا صرف کرکٹ ٹیم میں؟ سیاست اور حکمرانی پر کیا چرب دماغ نابغوں‘ تر و تازہ چہروں اور حسن کارکردگی کے قطب میناروں کا راج ہے؟ شاہد آفریدی کی کارکردگی کیا واقعی پرویز مشرف‘ آصف علی زرداری‘ اسفند یار ولی‘ الطاف حسین‘ نواز شریف‘ قائم علی شاہ اور اسحاق ڈار سے زیادہ بُری ہے۔ بلاشبہ کرکٹ ٹیم نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے مقابلے میں اچھی کارکردگی نہیں دکھائی مگر کیا پاکستان کی سفارتی اور سیاسی ٹیم نے نریندر مودی الیون کو ہر شعبے میں چت کر دیا ہے اور بھارت دنیا میں مُنہ چھپاتا پھرتا ہے۔ جیسے ہمارے حکمران ویسے عوام اور اسی طرز کی کرکٹ ٹیم۔ تھکے ہارے سیاستدان برسوں نہیں عشروں سے جماعتی اور حکومتی عہدوں سے چمٹے ہیں اور کوئی انہیں کہنے والا نہیں کہ حضور! اب کسی اور کو بھی موقع دیجئے‘ مگر کھلاڑیوں سے مطالبہ ہے کہ وہ دوسروں کے لیے جگہ خالی کر دیں۔ کرپشن کے کوہ ہمالیہ ہمارے حکمران اور سیاستدان کسی کھلاڑی سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ جوئے سے پیسہ نہ کمائے‘ قومی جذبے سے کھیلے۔ ناممکن!
ٹیم کا احتساب ضروری ہے کہ یہ قوم کے اتحاد کی علامت ہے۔ ان کے ہاتھ شل اور بلے بانجھ کیوں ہوئے؟ مگر صرف ٹیم کا کیوں؟ پی سی بی کا کیوں نہیں؟ اور اس پر من پسند افراد مسلط کرنے والے حکمرانوں‘ ملک و قوم کو برے حال تک پہنچانے والے سیاست دانوں‘ جرنیلوں‘ ججوں اور بیوروکریٹس کا کیوں نہیں؟ ہر سطح پر احتساب کے بغیر کچھ سدھرنے والا نہیں‘ تبراّ بازی‘ سے نہ احتساب کے جعلی نعروں سے۔ ؎
بدلنا ہے تو مے بدلو‘ نظام مے کشی بدلو
فقط جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہو گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved