غور و فکر اور مکالمہ تاکہ ایک کم از کم قومی اتفاق رائے وجود پائے۔ تشدد نہیں رواداری‘ انارکی نہیں، حریت فکر۔ اعتدال ہی بقاء کا ضامن ہے۔ آپؐ کا فرمان یہ ہے: اعتدال پر رہو‘ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اعتدال کے قریب تر!
ژولیدہ فکری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سفر کے لیے ایک سمت درکار ہوتی ہے۔ منزل پر وہ کیونکر پہنچے گا جو اس کا تعین ہی نہ کر سکے۔ وہ مسافت ہی میں رہے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جوابی بیانیہ تشکیل دینے کے لئے وائس چانسلروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔ ریاضت اور عرق ریزی کے ساتھ ایک مؤقف انہوں نے مرتب کر ڈالا۔ حتمی منظوری کے لیے اب ایک اجلاس منعقد ہوا‘ پنجاب حکومت کے سب کرتا دھرتا جس میں موجود تھے۔ پاکستان کے آئین کا حوالہ‘ قائد اعظم کی تقاریر کا۔ پیشکش (Presentation) شروع ہوئی‘ تو آئین کے حوالے پر اعتراض ہوا۔ یہ ''حذف کر دیا جائے‘‘ ایک سرکاری افسر نے تحکمانہ انداز میںکہا۔ پھر قائد اعظم کی تقریر پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوا۔ آخر کو مطالبہ کیا گیا کہ بابائے قوم کے اس خطاب کا اضافہ کیا جائے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کو مذہب سے کوئی غرض نہیں۔ ہندو اب ہندو رہیں گے اور نہ مسلمان، مسلمان؛ مذہبی اعتبار سے نہیں کہ وہ اپنی مسجدوں اور مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں‘ ریاست مگر اس میں شریک نہیں۔ دھیمے مزاج کے متعلقہ آدمی نے اس پر یہ کہا: آئین کا حوالہ آپ کے لیے قابل قبول نہیں، قائد اعظم کی دوسری تقاریر کا بھی۔ صرف ایک خطاب آپ کو گوارا ہے، ایک خاص طبقہ جس کی اپنی تشریح کرتا ہے۔ معلوم نہیں یہ بیانیہ اب خادم پنجاب کی دراز میں رکھا ہے‘ یا ان کے پرنسپل سیکرٹری کی فائلوں میں دفن ہُوا۔ کہاں ہیں میاں محمد شہباز شریف صاحب؟
جیسا کہ بار بار عرض کیا‘ عمر بھر قائد اعظم نے سیکولرازم کی اصطلاح برتنے سے گریز کیا۔ اس کے برعکس بارہا انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہو گا۔ بار بار اعلان کیا کہ قرآن پاکستان کا دستور ہو گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب میں ارشاد کیا کہ کمیونزم اور سرمایہ داری نظام ناکام ہو چکے۔ ان کے درمیان ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنا ہو گی۔
''پاپائیت نہیں‘‘ یومِ پاکستان پر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے ناچیز نے کہا: یہ سوال کرنے والے ہندو اخبار نویس پر بانیٔ پاکستان برہم ہوئے تھے، جس نے کہا تھا کہ کیا مسلمانوں کے نئے وطن میں مذہبی طبقے کو اقتدار حاصل ہو گا؟ الفاظ تو اب یاد نہیں‘ خلاصہ یہ تھا کہ ذہنی طور پر بیمار لوگ ہی یہ تصور کر سکتے ہیں۔ ''ماڈرن مسلم سٹیٹ‘‘، قائد اعظم کہا کرتے، ایک جدید اسلامی ریاست۔ یہ بھی گزارش کی کہ ملا کے حوالے سے اگر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو کنفیوژن اور انتشار پیدا ہو گا، ژولیدہ فکری۔ قرآن مجید، احادیث رسولؐ اور مسلم تاریخ کا براہ راست مطالعہ کرنا ہو گا۔ سرکارؐ سے منسوب ہے: دانا وہ ہے جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔ دانائے راز کون تھا؟ دمِ واپسیں جس نے یہ کہا تھا:
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
نسیمیِ از حجاز آید کہ ناید؟
سرآمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید؟
گزرے ہوئے زمانے لوٹ کر آئیں گے یا نہیں آئیں گے۔ نسیم حجاز اب دیار کا رخ کرے گی یا نہیں کرے گی۔ اس فقیر کی مہلت تمام ہوئی۔ دوسرا دانائے راز آئے گا یا نہیں آئے گا۔ اقبال! 1930ء کے خطبہ الٰہ باد میں، جب برصغیر میں دو مسلم ریاستوں کے قیام کی شاعر نے پیش گوئی کی، تو عرب ملوکیت کے اثرات سے پناہ بھی مانگی۔ ''میں تمہارا لیڈر نہیں ہوں لیکن اگر تم میری بات سنو گے تو میں تمہارے راستے منور کر دوں گا‘‘۔ خطبات مدراس میں، خوش بختی سے جس کا متن محفوظ ہے، انہوں نے کہا تھا کہ اجتہادکا حق پارلیمنٹ کو حاصل ہو گا۔
حالات کی ستم ظریفی کہ نواز شریف ملک کے حکمران ہیں، بھارتیوں سے مرعوب، مغرب سے مرعوب اور عربوں کے نقّال۔ ان کے گھر کا فرنیچر بھی عربوں کے محلات ملحوظ رکھ کر ڈیزائن کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی ہیں، جن کے فکری اجداد نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ مبینہ طور
پر خود کو وہ جمعیت علمائِ ہند کا ممبر کہتے ہیں۔ مسلم لیگ کی راہ روکنے اور مسلم برصغیر میں انتشار پیدا کرنے کے لیے، ابوالکلام نے جس کا تصور پیش کیا تھا۔ کانگرس کی حلیف ایک جماعت‘ جو اپنی متوازی پارٹی احرار کو بھی لے ڈوبی۔ اس کے بانی چوہدری افضل حق نے وصیت کی تھی پاکستان کی مخالفت نہ کی جائے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری فقیر منش تھے مگر مولانا حسین احمد مدنی اور ابوالکلام آزاد کو اوتار سمجھتے تھے۔ بے پناہ خطیب‘ استعمار کے باغی مگر ایک سادہ لوح انسان۔ ''میں سؤروں کا ایک ریوڑ چرانے کے لیے تیار ہوں جو فرنگی کی فصل برباد کر دے‘‘۔ مذہبی مکتب فکر کی دلدل میں آدمی پھنس جائے تو رہائی کہاں نصیب۔ سفاک طالبان کے لیے محمد خان شیرانی نرم گوشہ رکھتے ہیں! ڈی این اے کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ تحفظِ حقوق نسواں بل پر ان کا اعتراض یہ نہیں کہ ہمارے مزاج کے مطابق نہیں۔ یہ نہیں کہ خواتین کے حقوق کی ضمانت نہیں دیتا‘ جن کی ایک قابل ذکر تعداد محتاج‘ لاچار اور مظلوم ہے۔ وہ اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہیں اور یا للعجب! دلیل پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس میں اصلاح تجویز نہیں کرتے بلکہ دوسرے مولوی صاحبان کی مدد سے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ سبحان اللہ‘ یہ ہے ماڈرن مسلم سٹیٹ۔
پاکستان ایک دن میں نہیں‘ ایک تحریک کے نتیجے میں نہیں‘ فقط 1946ء کے 76.5 فیصد ووٹوں سے نہیں بلکہ تیرہ سو سالہ تدریجی ارتقاء سے حاصل ہوا۔ محمد بن قاسم اور اس کے بعد دو اڑھائی سو سال تک سندھ میں مسلمانوں کی بنتی بگڑتی حکومتیں۔ اپنے عہد کا عظیم سالار محمود غزنوی‘ ہندوستان پر اس کے سترہ حملے‘ حتیٰ کہ لاہور‘ غزنی کی سلطنت کا حصہ ہو گیا۔ پاکستان اس خطہ ارض کی تقدیر تھا اور وہ ایک شاندار مستقبل رکھتا ہے۔ ملا اور ملحد کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑے لیڈر تھے‘ فکری اعتبار سے مگر کنفیوژن کا شکار۔ اسلام بھی‘ جمہوریت بھی‘ سوشلزم بھی! کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ پڑھنے لکھنے سے میاں محمد نواز شریف کو گریز ہے۔ اہل علم بلکہ علم ہی سے بے نیاز۔ ذہنی طور پر بھٹو سے وہ مختلف بلکہ متصادم تھے، اب مگر وہ بھٹو کی جگہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ وکیل قائد عوام بھی افتادگانِ خاک کے تھے۔۔۔۔ ''میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں جس کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے‘‘۔ ہاں‘ مگر وہ نر گسیت کا شکار تھے۔ پڑھے لکھے تھے۔ میاں صاحب خواندہ ہیں مگر نرگسیت وہی اور اتنی ہی۔ مالی معاملات میں عمران خاں پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی اس کی گواہ ہیں مگر نرگسیت ان میں بھی پورے جلال سے جلوہ گر ہے۔ Narcissism۔۔۔۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کا مفہوم دیکھیے اور ہو سکے تو سینہ کوبی کیجیے۔ اقبال کی طرح مجدد وہ ہوتا ہے جو ماضی کو سمجھتا ہو‘ حال میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب دے اور مستقبل کے لیے اشارات چھوڑ جائے۔ رہنما وہ ہے جو اپنے معاشرے کی ساخت اور مزاج سے آشنا ہو۔ سیاسی اور سماجی ادارے‘ روایات اور تاریخ میں سے پھوٹتے ہیں‘ جس طرح شجر زمین سے۔
غور و فکر اور مکالمہ تاکہ ایک کم از کم قومی اتفاق رائے وجود پائے۔ تشدد نہیں رواداری‘ انارکی نہیں، حریت فکر۔ اعتدال ہی بقاء کا ضامن ہے۔ آپ کا فرمان یہ ہے: اعتدال پر رہو‘ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اعتدال کے قریب تر!