منگل کی صبح برسلز ایئرپورٹ اور وسطی شہر کے میٹرو سٹیشن پر دہشت گردی کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب تک کی اطلاعات کے مطابق 37 ہو چکی ہے۔ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے حملوں کی طرح یورپ میں بھی ایسے اندوہناک واقعات حالیہ برسوں میں درجنوں بے گناہ انسانی جانیں نگل چکے ہیں۔ اس کے شدید سیاسی، سماجی اور ثقافتی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
پبلک مقامات پر ایسی دہشت گردی زیادہ تر محنت کش طبقے اور عوام کو ہی نشانہ بناتی ہے۔ عام انسانوں کے تحفظ کے اقدامات حکمرانوں کی بھاری سکیورٹی کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ دہشت گرد سامراج، ظالم اور حکمران طبقات کے اقدامات کا بدلہ عام اور محکوم انسانوں سے لے کر اپنی بزدلی اور درندگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ دہشت گردی ایک ایسا سماجی زہر ہے جو نظام زر کے بیمار سماج کی پیدا کردہ نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ مجروح اور بیگانہ نفسیات بعض مخصوص حالات اور اپنی انتہائی شکل میں انسان کو درندہ بنا ڈالتی ہے۔ اس درندگی کی شکلیں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن بنیاد پرستی، مذہبی جنون اور دہشت گردی اسی مظہر کے نتائج ہیں۔
برسلز کو اس حملے میں اس لئے ٹارگٹ کیا گیا کہ یہ یورپی سامراج کا گڑھ ہے اور سامراجی جارحیت کے فوجی اتحاد 'نیٹو‘ کا ہیڈ کوارٹر بھی یہیں ہے۔ اس حوالے سے دہشت گردی کی منصوبہ سازوں نے شعوری طور پر اس شہر کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ پیرس میں دہشت گردی کی منصوبہ سازی کرنے والے صالح عبدالسلام کی برسلز سے گرفتاری کے چار روز بعد کیا گیا ہے۔ اس کی پلاننگ درحقیقت بہت عرصہ پہلے کی جا چکی ہو گی کیونکہ چار روز میں اتنی سخت سکیورٹی والے ایئرپورٹ اور شہر میں بیک وقت حملوں کی تیاری نہیں ہو سکتی۔
پیرس کے حملوں کے بعد فرانس، بیلجیم اور دوسری یورپی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کے پاس یہ اطلاعات موجود تھیں کہ اس کے تانے بانے برسلز کے علاقے مولن بیک میں چھپے دہشت گرد گروہ سے ملتے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران برسلز میں کئی ہائی الرٹ ہوئے، پبلک ٹرانسپورٹ بند کی گئی، فون نیٹ ورکس کو معطل کیا گیا اور سخت تلاشی کا عمل جاری رہا۔ کئی مشکوک افراد کو گرفتار بھی کیا گیا اور صالح عبدالسلام بھی اسی دوران پکڑا گیا۔ لیکن شاید دہشت گردوں کا نیٹ ورک ان ریاستی اداروں سے زیادہ مضبوط تھا، اسے ختم نہیں کیا جا سکا۔
گارڈین اور کئی دوسرے خبر رساں اداروں کے مطابق داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اس وحشی گروہ کی ماضی کی کارروائیوں کی طرح اس بار بھی مقصد خوف پھیلانا، دھاک بٹھانا اور دہشت کی تشہیر کرنا ہے۔ اس طرح کے خونی اقدامات مسلمان تارکین وطن کی نئی نسل کو مذہبی جنون کی طرف راغب کرنے کے لئے بھی کئے جاتے ہیں تاکہ ان کی سماجی بیگانگی اور سامراج کے خلاف غم و غصے کو مزید بربادی اور رجعت کا راستہ دکھایا جاسکے۔ لیکن دہشت گردی کا سب سے زیادہ فائدہ بھی سامراجی قوتوں کو ہی ہوتا ہے جنہیں مزید بیرونی جارحیت اور داخلی جبر کا جواز ملتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یورپ میں مقیم لاکھوں مسلمانوں میں چند ایک ہی ایسے ہوتے ہیں جو وحشت اور درندگی کا یہ راستہ اختیار کرتے ہیں۔
مذہبی جنونیوں کی جانب سے ''کفر و اسلام کی جنگ‘‘ کا نعرہ بھی آج بالکل بے نقاب ہو چکا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جدید دور میں اسلامی بنیادی پرستی اور ''جہاد‘‘ کو سب سے پہلے امریکی سامراج نے ہی بائیں بازو کی عوامی تحریکوں اور سوویت یونین کے خلاف افغانستان اور دوسرے خطوں میں پروان چڑھایا تھا۔ بعد ازاں سامراجی نظریہ دان سیمل پی ہنٹنگٹن نے اسی پالیسی کو ''تہذیبوں کے تصادم‘‘ کے نام سے متعارف کروایا۔ دلچسپ بات ہے کہ مذہبی بنیاد پرست اس سامراجی نظریے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں اور اپنے نقطہ نظر سے اس کا دفاع ہمیشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یوں سامراجیت اور بنیاد پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
مذہب یا نسل کے ذریعے انسانوں کو منقسم کر کے حکمران طبقات درحقیقت طبقاتی تضادات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سامراجی طاقتوں کو سب سے زیادہ خطرہ اپنے ممالک کے
محنت کش عوام سے ہوتا ہے، لہٰذا کبھی ''تہذیب‘‘ تو کبھی ''دہشت گردی‘‘ کے نام پر ''بیرونی دشمن‘‘ تراشے جاتے ہیں اور ان سے''حفاظت‘‘ کا نعرہ لگا کر بیرونی جنگیں شروع کی جاتی ہیں۔ ایسی ہر جارحیت کی حقیقی بنیاد آخری تجزیے میں سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالی مفادات ہوتے ہیں۔ یوں مذہب قوم یا فرقے کے تصادم ابھارکر محنت کشوں اور غریبوں کو آپس میں دست وگریباں کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کی ایسی کارروائیاں ان سامراجی قوتوں کو کمزور نہیں کرتیں بلکہ اس سے بالکل الٹ اثرات مرتب کرتی ہیں۔ سامراج کو ''دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر نہ صرف اپنے عوام پر مزید جبر کرنے اور ان کے حقوق صلب کرنے کا موقع ملتا ہے بلکہ وہ زیادہ وحشی ہو کر بیرونی جارحیت کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں غریب عوام کے استحصال اور مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
ایسے واقعات کے بعد یورپ میں گورے نسل پرست اور فسطائی رجحانات زیادہ کھل کر تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے خلاف کارروائیاں کریں گے۔ کئی نسلوں سے یورپ میں آباد محنت کشوں پر پہلے ہی معاشی اور سماجی حملے جاری تھے، کارپوریٹ میڈیا ان کی بے دخلی کے لئے ''رائے عامہ‘‘ کو مزید ہموار کرے گا۔ اس پس منظر میں وقتی طور پر ہی سہی لیکن دائیں بازو کی نسل پرست سیاست کو فرو غ ملے گا۔ یورپی حکمران پہلے ہی ''آسٹیریٹی‘‘ کے ذریعے وہ حاصلات محنت کشوں اور نوجوانوں سے واپس چھین رہے ہیں جو انہوں نے کئی دہائیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کی تھیں۔ ان کی یہ واردات بھی آسان ہو جائے گی۔ پولیس اور ریاستی اداروں کو مزید مضبوط کرنے پر عوام کا پیسہ اڑایا جائے گا اور یہ ادارے ''حفاظتی اقدامات‘‘ کے ذریعے عام لوگوں کا جینا ہی دوبھر کر دیں گے۔ شام، عراق اور سامراج کے ہاتھوں تاراج ہونے والے دوسرے ممالک کے مہاجرین کے لئے یورپ میں پائی جانے والی ہمدردی کم ہو گی اور ان کا داخلہ بند کرنے کا جواز یورپی حکمرانوں کو مل جائے گا۔ یوں دہشت گردی کی یہ وارداتیں جو مٹھی بھر مذہبی جنونیوں کی طرف سے ''مسلمانوں کی طاقت‘‘ دکھانے کے لئے کی جاتی ہیں درحقیقت ان کی ذلت اور رسوائی کا باعث ہی بنتی ہیں۔ ایسی ہر کارروائی کا فائدہ آخر کار سامراج، ریاست اور ان کی جارحیت کو ہی ہوتا ہے۔ درحقیقت حکمران مخصوص حالات میں اقتدار حاصل کرنے یا اسے طوالت دینے کے لئے دہشت گردی خود بھی کرواتے ہیں۔ پاکستان میں ضیاء الحق اور سپین میں فرانکو کی آمریت کے دوران یہ طریقہ کار استعمال کیا گیا تھا۔
یورپ کا محنت کش طبقہ بالخصوص اس کی زیادہ با شعور پرتیں بخوبی واقف ہیں کہ یہ خونریزی انہی پالیسیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے جو ان کے حکمران دوسرے ممالک میں دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آنے والے وقت میں عوام کی وسیع تر پرتیں اس حقیقت سے آشنا ہوںگی۔ یورپ اور امریکہ میں اس وقت آسٹیریٹی اور سرمایہ داری کے خلاف کئی تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں نہ صرف جاری رہے گا بلکہ شدت پکڑ سکتا ہے۔ یہ تحریکیں اگر انقلابی قیادت اور مارکسزم کے نظریات کے تحت آگے بڑھتی ہیں تو اس نظام کے خلاف حتمی بغاوت میںبدل سکتی ہیں جو پوری دنیا پر جنگ، دہشت گردی اور معاشی بربریت مسلط کئے ہوئے ہے۔