تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     24-03-2016

دوسرا یومِ پاکستان

کیا قوم کو شکر ادا نہیں کرنا چاہیے‘ یہ مسلسل دوسرا یوم پاکستان تھا جو دہشت گردی کو پیروں تلے روند کر اس شان سے منایا گیا کہ ساری دُنیا دنگ رہ گئی۔ جو سمجھتے تھے کہ پشاور سکول میں دہشت گردی کے بعد پاکستانی عوام ڈر جائیں گے ' گھروں میں بند ہو جائیں گے‘ وہ کل کا دن ملاحظہ فرما لیں جب اسلام آباد اور لاہور میں لوگ اس طرح نکلے جیسے انہیں کسی دہشت گرد کا کوئی خوف ہی نہ رہا ہو۔ نہ ان کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں تھیں نہ بلٹ پروف جیکٹس۔ ان میں بچے بھی تھے‘ خواتین بھی اور بوڑھے بھی۔ اسلام آباد پریڈ اور لاہور میں گلبرگ مین بلیوارڈ پر عزمِ پاکستان ریلی میں شریک افراد کو جان کا خطرہ ہو سکتا تھا لیکن انہو ں نے شریک ہو کر دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا جو سمجھتے تھے کہ انہوں نے ہمارے ہر میدان کو ویران کر دیا ہے ۔ 
کیا یہ محض اتفاق ہے یا پھر فوج اور سول حکمرانوں کی کامیابی کہ بلجیم جیسے یورپی ممالک جو سکیورٹی کے بڑے بلند بانگ دعوے کرتے تھے‘ آج دھماکوں سے لرز رہے اور پاکستان جیسا ملک جہاں سابق دور میں غیرملکی شہریوں نے آنا چھوڑ دیا تھا ‘ آزادی کا قومی دن پورے جوش و جذبے اور بلاخوف و خطر منا رہا ہے۔ آپ سابق صدر زرداری کا دور دیکھ لیں‘ پورے پانچ سال تو انہوں نے جیسے تیسے گزار لیے لیکن کسی ایک یوم پاکستان کے موقع پر پریڈ منعقد ہوئی نہ ہی عوام اس دن کی اہمیت سے آشنا ہو سکے۔ ہر سال چوبیس مارچ کے اخبارات میں زیادہ سے زیادہ دو کالمی خبر یہ لگتی کہ ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں نمایاں کارکردگی دکھانے والی شخصیات کو اعزازات سے نوازا گیا اوربس؟ خود زرداری صاحب اور ان کے لیڈر ایوان صدر کی پناہ میں 
چھپے ریموٹ کنٹرول طریقے سے حکومت چلاتے رہے اور عوام کو دہشت گردوں کے لئے لقمہ اجل بننے پر مجبور کر دیا گیا۔ موصوف گزشتہ روز فرماتے ہیں‘ توجہ قانون کی حکمرانی پر مرکوز ہونی چاہیے۔ سبحان اللہ! دیکھیں کہ کون‘ کیا کہہ رہا ہے۔ موصوف اپنے دور میں ہر ادارے کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے اور اب بھی یہی خواہش لے کر بیرون ملک تشریف فرما ہیں اور وہاں سے ہمیں یہ بھاشن دے رہے ہیں کہ ہم توجہ قانون کی حکمرانی پر دیں۔ اگر ان کے کرتوت اتنے ہی اچھے اور یہ اتنے ہی پارسا تھے تو پھر ملک چھوڑ کر کیوں گئے۔ مشرف کو علاج کے بہانے جانے کی اجازت دینے پر سیخ پا ہیں لیکن خود اسی آڑ میں نیویارک تشریف فرما ہیں۔ شاید ان کے نزدیک قانون کی حکمرانی یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو چھوڑ دو اور پیپلزپارٹی کو سات خون معاف کر دو تاکہ یہ بھٹو کے نام پر باریاں لیتی اور ملک کا بیڑہ غرق کرتی رہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ گزشتہ روزجس ولولہ انگیز انداز میں پریڈ کی تقریب منعقد ہوئی‘ وہ صرف فوج کا ہی کریڈٹ نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو سابق ادوار میں بھی ایسی قومی اور عوامی تقریبات منعقد ہوتیں۔ کیا تب یہاں فوج موجود نہ تھی‘ کیا یہ اس وقت یوم پاکستان نہیں منانا چاہتی تھی‘ نہیں ہرگز ایسا نہیں تھا۔ دراصل اس قسم کے ماحول میں ایسی تقریبات کے لئے زبردست سول ملٹری تعاون اور ہم آہنگی درکار ہوتی ہے‘ ایک دوسرے پر اعتماد کی جو فضا بنانی پڑتی ہے‘ اس کا فقدان گزشتہ 
دور میں کھل کر نظر آیا اور اب تو پیپلزپارٹی بھول جائے کہ وہ کبھی اسٹیبلشمنٹ سے بنا پائے گی ‘اس لئے کہ پشاور سکول سانحے کے بعد ہر قسم کی مصلحتیں دریابرد کی جا چکیں‘ نہ جنرل راحیل شریف وطن اور قوم کے جان ومال پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں نہ سول حکمران۔ دونوں کی یہ ہم آہنگی دراصل مخالف جماعتوں کی شکست ہے۔ دہشت گرد تنظیمیںتو اپنے زخم چاٹ ہی رہی ہیں‘ وہ سیاسی جماعتیں بھی اپنے بال نوچ رہی ہیں جو سول ملٹری اختلافات میں اپنا دال دلیا کرنا چاہتی تھیں۔شکر پڑیاں کی فضائوں میں اڑنے والے طیاروں کی گھن گرج پورا سال قوم کے دلوں کو گرماتی اور دہشت گردوں کو ڈراتی رہے گی ۔ 
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہیں اللہ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ پاکستان کا دنیا میں کوئلے کے ذخائر کے 
حوالے سے دوسرا‘ گیس کے حوالے سے تیسرا‘ تانبے اور سونے کے حوالے سے پانچواں اور نمک کے ذخائر کے حوالے سے ساتواں نمبر ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہے اوردنیا کی ساتویں بڑی فوج پاکستان کے پاس ہے۔ کپاس کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان کا دنیا میں چوتھا نمبر ہے۔ دودھ کی پیداوار کے حوالے سے پانچواں‘ گندم کی پیداوار کے حوالے سے گیارہواں اور چاول کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں پاکستان بارھویں نمبر پر ہے۔اگر پاکستان کے پاس کچھ نہیں ہے تو سیاسی شعور اور بصیرت رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی کمی ہے۔ فوج اور حکمرانوں کا تعاون اور اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ دہشت گردی میں واضح کمی اور قومی تقریبات کی بحالی کوئی معمولی بات نہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں آپس میں بھی اسی اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرتیں تو اس میں فائدہ صرف اور صرف ملک کا ہوتا۔ لیکن افسوس کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت بیشتر جماعتیں خود کو تبدیل کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ گزشتہ روز این اے 101میں ہونے والا ضمنی الیکشن اس کی تازہ مثال تھی۔ حلقے کے پولنگ سٹیشنوں میں فوج اور رینجرز کے 2138جوان تعینات تھے اور سکیورٹی اور دھاندلی کو روکنے کے لئے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے لیکن تحریک انصاف اپنی روش پر قائم رہی اور پولنگ ختم ہوتے ہی احتجاج اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مجھ سمیت لاکھوں لوگ اب اس طرز ِسیاست سے چڑنے لگے ہیں جس کی بنیاد تحریک انصاف نے رکھی ہے کہ مخالف جماعت کے امیدوار کی جیت اسے قبول ہی نہیں ۔ اگر احمد چٹھہ یا ان کے کارکنوں کو کوئی تحفظات تھے تو انہیں کسی فورم پر چیلنج کیا جا سکتا تھا۔ اس قسم کے احتجاج ہر مرتبہ وہی جماعت کرتی ہے جو خود کو تبدیلی کا نشان کہلواتی ہے۔ستم بالائے ستم‘پارٹی سربراہ سے لے کر نیچے تک کوئی خود کو بدلنے کو تیار نہیں۔ لاکھوں لوگ تحریک انصاف سے صرف اسی احتجاجی رویے کی وجہ سے مایوس ہو چکے۔ تحریک انصاف کی صورت میں انہیں جو چارم نظر آیا‘ وہ شاہ محمود قریشی جیسے جاگیرداروں اور جہانگیر ترین جیسے سرمایہ داروں نے ہائی جیک کر لیا۔ ان کے ہوتے ہوئے چودھری سرور جیسا مخلص شخص بھی کچھ نہ کر سکا اور یہی افسوسناک ترین پہلو ہے۔ 
گزشتہ روز یوم پاکستان تھا‘ اس روز صرف وفاقی دارالحکومت اور لاہور میں ہی بڑی تقریبات اور ریلیاں منعقد ہوئیں۔ سوال یہ ہے کیا پیپلزپارٹی سندھ میں اور تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی حاکم نہیں؟ کہاں تھیں اے این پی‘ جے یو آئی اور جماعت اسلامی۔ ان جماعتوں کا اپنا یوم ِ تاسیس ہو تو یہ اپنی جماعت کا جھنڈا اٹھا کر پورے میڈیا کو یرغمال بنا لیتی ہیں اور جب بات وطن عزیز کی آتی ہے‘ یوم پاکستان کی آتی ہے تو یہ لوگ کہیں بھی نظر نہیں آتے اور رسمی بیانات سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا یہ ہے وطن سے وہ محبت جس کا نام لے کر یہ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھنا چاہتے ہیں؟کیا انہیں اپنے اپنے صوبوں میں حکمرانی اور دنیا بھر میں عزت اس وطن اور اس سبز پرچم کے طفیل نہیں ملی؟ تو پھر دیگر جماعتوں نے وطن سے محبت کا اظہار کیوں نہ کیا‘ کیوں اپنے اپنے صوبے میں جماعتی سطح پر خصوصی تقریبات منعقد نہ کیں؟ کیا یہ کام اور یہ وطن صرف فوج اور حکمران جماعت کا ہی ہے اور باقی جماعتیں احتجاج‘ دھاندلی اور دھرنے کی ریوڑیاں بانٹنے کو رہ گئی ہیں؟ذرا سوچئے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved