تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     25-03-2016

اقبال ؒ کی چُھٹی

تھرپارکر کے ستم رسیدہ عوام کو مقامی ہندو برادری کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کے مذہبی تہوار ہولی میں شرکت کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے عمر کوٹ میں قدم رنجہ فرمایا ورنہ جب پیاس و افلاس کے اس صحرا میں سینکڑوں معصوم بچوں کی جان پر بنی تھی اور روزانہ درجنوں جنازے اُٹھ رہے تھے زرداری خاندان کے کسی فرد اور پیروکار کو آنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ قائم علی شاہ بھی اس وقت آئے جب مظلوموں کی آنکھوں میں آنسو بچے تھے نہ زبانوں کو بولنے کا یارا۔
پاکستان کی اقلیتیں خوش قسمت ہیں کہ انہیں فنڈ خور این جی اوز اور مرعوب میڈیا کے بعد اب پاکستان پیپلز پارٹی‘ اور مسلم لیگ(ن) جیسی قومی سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہو گئی ہے۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کو اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کی محافظ اور لبرل و سیکولر ثابت کرنے کے لیے بے تاب ہیں اور یوں نظر آتا ہے کہ اکثریتی آبادی اور مردوں کو جملہ حقوق مل چکے‘ اب صرف اقلیتوں اور خواتین کی حق رسی باقی ہے۔ جس پر یہ جماعتیں کمربستہ ہیں۔ آصف علی زرداری‘ برخوردار بلاول زرداری اور میاں نواز شریف یہ ثابت کرنے پر تلے نظر آتے ہیںکہ پاکستان بنا بھلے اسلام کے نام اور اقبالؒ و قائد اعظمؒ کے افکار و تصوّرات کے علاوہ فکری و عملی جدوجہد کی بنا پر مگر چل صرف امریکی و یورپی اور بھارتی سانچے میں ڈھل کر ہی سکتا ہے اقبالؒ اور فکر اقبالؒ کو دونوں قومی جماعتوں نے متروک سمجھ کر یوم اقبالؒ کی سالانہ چھٹی منسوخ کی اور سندھ میں ہولی کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان ہوا۔ ہندو برادری قیام پاکستان سے لے کر گزشتہ سال تک اس موقع پر چھٹی کرتی رہی ہے‘ کسی نے روکا نہ کبھی اعتراض کیا۔
اقبالؒ پر نواز حکومت کے حسن سلوک کا مظہر 23 مارچ کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں آویزاں کیے جانے والے بینرز اور بل بورڈز ہیں جن پر قائد اعظم ؒ کی تصویر تو نظر آئی مگر اقبالؒ غائب پائے گئے۔ فوجی پریڈ کا علاقہ البتہ کسی اور کے تصرّف میں تھا وہاں اقبالؒ قائد اعظمؒ کے شانہ بشانہ نظر آئے۔ اقبالؒ اسلام‘ جہاد‘ عشق مصطفیﷺ کا علمبردار‘ دانش فرنگ کا مُنکر و نقاد اور راسخ العقیدہ مسلمان ہے‘ لہٰذا نواز سرکار نے اس کی تصویر سے پرہیز برتا۔ سوچا ہو گا این جی او مافیا نے اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے شکایت لگا دی تو وزیر اعظم کے دورہ واشنگٹن کا سارا مزہ کرکرا ہو جائے گا اور لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملے گا کہ لبرل ازم کے دعوے اور اقبالؒ جیسے بنیاد پرست کی تشہیر؟
اقلیتیں اور خواتین تو معلوم نہیں ہمارے سیاستدانوں کے جھانسے میں آتی ہیں یا نہیں کیونکہ جس قسم کے دعوے اور وعدے ہمارے مرکزی و صوبائی حکمران ان دونوں کمزور طبقات کے ساتھ کر رہے ہیں پاکستان کی اکثریت پچھلے اڑسٹھ سال سے ان کا مزہ چکھ رہی ہے۔ ملک کی اکثریت سے کیے گئے وعدے ایفا اور دعوے پورے نہیں ہوئے تو کوئی بے وقوف ہی توقع کر سکتا ہے کہ بلاول زرداری عمر کوٹ اور تھرپارکر کی ہندو اقلیت سے آج جو کہہ رہے ہیں اُسے پورا کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں تھرپارکر آج صبح سندھ کا حصہ بنا ہے نہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت پہلی بار قائم ہوئی۔1971ء سے اب تک چھ بار عوامی خدمت گاروں کو موقع ملا مگر سندھ کی قسمت بدلی نہ تھر کے عوام کو تعلیم اور روزگار تو درکنار کھانے پینے کو کچھ ملا۔ فاقہ کشی‘ مہلک امراض اور محرومی و مایوسی یہاں کے باسیوں کا مقدّر ہے اور اس کا علم عمر کوٹ کے تمام مسلمان و ہندو باسیوں کو بخوبی ہے جنہیں بہلانے کے لیے بلاول کبھی حقوق کی بات کرتے ہیں کبھی مساوات کا سبق پڑھاتے اور کبھی بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کا موازنہ فرماتے ہیں‘ وہی پرویز مشرف جس کے این آر او سے محترمہ اور ان کے شوہر نامدار کی وطن واپسی ہوئی۔ ہولی‘ دیوالی اور ایسٹرکی چھٹی بھی اقلیتوں کا دل پشوری کرنے کی ایسی ہی ترکیب ہے جس کا اقلیتوں کو تو کوئی فائدہ نہیں کہ انہیں ہر سال چھٹی ہوتی ہے؛ البتہ مسلم آبادی ایک دن مزید کام سے گئی۔ لبرل ازم کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے۔
پیپلز پارٹی تو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اپنی نظریاتی منزل کھو چکی ہے محترمہ نے اپنے والد کی نیشنلائزیشن پالیسی کو ہولناک غلطی قرار دیا‘ آصف علی زرداری نے قاتل لیگ کو گلے لگایا اور پارٹی سے وہ سلوک کیا جو ضیاء الحق کرنے کے آرزومند تھے۔ بلاول کو کسی نے پٹی پڑھا دی ہے کہ مولا جٹ کی طرح بڑھکوں سے پارٹی کا احیا ممکن ہے؛ چنانچہ ایک پڑھا لکھا نوجوان اپنے فطری انداز کو ترک کرکے دوسروں کا آموختہ دہرا رہا ہے مگر میاں نواز شریف کو آخر کیا ہوا کہ وہ بھی اس راستے پر چل پڑے جس کے مسافر کو ہمیشہ اجتماعی دانش اور ضمیر نے دھتکارا۔ کیا اُنہیں کوئی بتانے والا نہیں کہ ایوب خان‘ بھٹو‘ پرویز مشرف تینوں کو ٹھوکریں کھانے کے بعد بالآخر مسلم اکثریت کے جذبات و احساسات اور اقبالؒ و قائدؒ کے تصورات کے مطابق جدید اسلامی و جمہوری و فلاحی پاکستان کا راگ الاپنا پڑا کہ ع
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
یہ قائد اعظمؒ تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اُصولوں کو آزما سکیں‘‘۔ اور یکم جولائی 1942ء کو ایسوسی ایٹڈ پریس امریکہ کو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فرمایا کہ ''ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب و تمدّن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں زبان و ادب‘ تاریخ و روایات اور رجحان و مقاصد ہر لحاظ سے ہمارا پنا انفرادی زاویہ نگاہ اور فلسفہ حیات ہے‘‘۔ مگر قائد اعظم کی جدوجہد سے حاصل کردہ ریاست کے وزیر اعظم اور مسلم لیگ کے لیڈر میاں نواز شریف بھارتیوں کو باور کراتے ہیں کہ واہگہ کی لکیر کے سوا ہمارے درمیان کوئی فرق ہی نہیں ایک جیسا کھاتے پیتے‘ ایک جیسا پہنتے اور ایک ہی انداز میں رہتے بستے ہیں۔ پیار کی پینگیں اس بھارت سے بڑھائی جا رہی ہیں جس کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کا حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو گزشتہ روز بلوچستان سے گرفتار ہوا‘ موصوف کراچی اور بلوچستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور علیحدگی کی سازش میں ملوث ہے۔ ہمارے دوستانہ جذبات کا یہ گھٹیا جواب ملنے پر بھی ہم بدمزہ شاید نہ ہوں کہ باہمی تجارت ایک ہو جانے کی خواہش غالب ہے۔
ہماری قومی سیاسی جماعتیں بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور ان کی روشن خیال قیادت کو یہ بات پلّے باندھ لینی چاہیے کہ پاکستان کا وجود دو قومی نظریہ اور اسلامی فلسفہ حیات کا مرہون منت ہے۔ قائد اعظمؒ کے الفاظ میں ''اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے‘‘ اقبالؒ کی فکر اور قائد اعظمؒ کے تصورات سے نجات حاصل کرکے ہم اپنا قومی وجود برقرار رکھ سکتے ہیں نہ اپنے دیرینہ دشمن بھارت کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل۔ رہا امریکہ اور یورپ تو وہ بھارت کا سرپرست اور سٹریٹیجک پارٹنر ہے اور اسے اقبالؒ کو فراموش کر کے خوش کیا جا سکتا ہے نہ نصاب تعلیم میں قائد اعظمؒ کی11 اگست والی تقریر شامل اور نہ آئین کی دوسری متفقہ ترمیم منسوخ کر کے۔ ہولی‘ دیوالی اور ایسٹر کی چھٹی پر کسی راسخ العقیدہ مسلمان کو اعتراض نہیں مگر یوم اقبالؒ کی قومی تعطیل منسوخ کرنے والوں کو معقول جواز پیش کرنا پڑے گا کہ ہولی پر تعطیل اور اقبال ؒ کی چھٹی‘ آخر اس دوعملی کا سبب کیا ہے؟
مذہبی اقلیتیں اس ریاست اور معاشرے کا قابل احترام حصہ ہیں انہیں وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو پاکستان کا آئین انہیں فراہم کرتا ہے یہ ہماری قومی‘ آئینی اور اسلامی ذمہ داری ہے مگر جو حقوق میاں نواز شریف اور بلاول زرداری اقلیتوں کو دینے کا وعدہ کر رہے ہیں وہ سارے نہیں تو کم از کم نصف اکثریتی آبادی کو بھی عطا کریں کہ آخر اس مجبور‘ بے بس‘ محروم اور مایوس اکثریت نے الگ ریاست اپنے ساتھ ناانصافی‘ ظلم و زیادتی اور عدم مساوات کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے حاصل نہیں کی تھی۔
بلاول زرداری اور میاں نواز شریف اگر ہندو برادری کے ساتھ مل کر ہولی کھیلتے تو یہ بھائی چارے کا اظہار ہوتا اور الیکٹرانک میڈیا کی سکرین پر بھی خوب رونق لگتی مگر دونوں کو شاید اپنے قیمتی برینڈڈ سوٹ عزیز ہیں۔ لبرل ازم کا اظہار خوب ہوا مگر ایک آنچ کی کسر پھر بھی رہ گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved