تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     25-03-2016

ڈالر اور مہاجر

بہارِ عرب کے پیٹ سے بڑی خزاں نے جنم لیا۔ لاکھوں عرب خواتین، مرد، بچے، بزرگ غریب الوطن ہو گئے۔ ہزار سالہ تمدن اور کئی ہزار سالہ معلوم تاریخ رکھنے والے عراق، یمن اور شام راکھ ہو گئے۔ صرف شام کی بربادی کی داستان دیکھیں‘ جہاں کی 60 فیصد آبادی ہنستے بستے گھر، زمینیں، اجداد کے قبرستان چھوڑ کر‘ اور یادوں کی گٹھڑی سر پر اٹھائے ہجرت پر مجبور ہو گئی۔
عجیب بات ہے، ان لاکھوں مسلمان مہاجرین کو کوئی خادمِ اسلام ملک قبول کرنے کو تیار نہیں۔ چاڈ کے نخلستان سے بعلبک کے قلعے تک ان مہاجروں کے لیے نہ کوئی ٹھکانہ ہے‘ اور نہ ہی حبشہ کے بادشاہ جیسا فراخ دل تاجدار‘ جو ہجرت کے دکھ کو سمجھ سکے، اور غریب الدیار ہونے کا کرب محسوس کر سکے۔ اسی لیے آگ اور خون کی بارش میں ہجرت پر مجبور ہونے والے لاکھوں بے آسرا مسلمان مغرب کی زمینوں پر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ مغرب کی ان زمینوں پر کبھی مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ آج انہی زمینوں پر مسلم حکمرانوں کی اولادوں کے اجڑے ہوئے خیمے ہیں۔
دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ کی اس لڑائی کے سرپرست خلیج فارس میں ہوں یا عرب میں‘ نہ وہ مہاجر کے لیے اپنے گھر کا دروازہ کھولتے ہیں اور نہ ہی اسے پناہ دینے پر تیار ہیں: البتہ اگر کوئی اپنا گھر برباد کرنے کے لیے لڑنا چاہے تو اسے مالی امداد بھی ملتی ہے اور ساتھ ساتھ بستیاں ویران کرنے کے لیے فوجی مدد بھی بھجوائی جاتی ہے۔
ترکی ایک ایسا ملک تھا جس نے کھلے تنازعات میں نہ صرف دخل اندازی کی دعوت ٹھکرائی‘ بلکہ ترک پارلیمنٹ نے عراق پر حملے سے بھی انکار کیا تھا۔ اس انکار کا سب سے زیادہ فائدہ ترک عوام کو ہوا۔ مسلم برادری میں عزت، اقوام عالم میں رعب اور دبدبہ جبکہ ترکی کے گھر آنگن میں امن کے چراغ جلتے رہے۔ لیکن اب ترکی کو بھی نظرِ بد لگ گئی ہے۔ ترک اقتدار کے مردِ آہن نے ضیاء الحق والی پالیسیاں اپنا لیں‘ جس کے نتیجے میں ترکی کے سب سے بڑے شہر کے در و دیوار خون آلود بارود سے لرزنا شروع ہوئے۔ اس وقت بادشاہت اور مذہبی پاپائیت کے بعد ترکی وہ پہلا جمہوری معاشرہ ہے جہاں پریس پر سخت پابندیاں ہیں۔ کوئی اختلافی آواز نہ سنی جاتی ہے‘ نہ حکمران اشرافیہ اسے برداشت کرتی ہے۔ ارکانِ پارلیمنٹ پر بھی آزادیء اظہارِ کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ ایک سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ دشمنی اور بغاوت کے الزامات بُھگت رہے ہیں۔ ملک کے سب بڑے اخبار کو خرید کر اس سے صحافت کے بہترین دماغ نکال باہر کیے گئے۔ حکمران اشرافیہ اور ان کی اولادیں پاکستان کے حکمرانوں کی طرح مال بٹورنے کے الزامات کی زد میں ہیں۔ شام کو برباد کر نے کے الزامات سے لے کر غیر ریاستی گروپوں کی سہولت کاری تک جیسے شدید الزامات۔ ترکی کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہمیشہ سے سیاحت کا شعبہ رہا ہے۔ آج سیاحت کے شعبے کا حال ہمارے ناردرن ایریا جیسا ہو رہا ہے۔
اس معاشی گمبھیرتا سے نکلنے کے لیے اسی ہفتے یورپی یونین کے ساتھ ترکی کا ایسا معاہدہ ہوا‘ جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت یورپ کے سارے آزاد اداروں نے تنقید کا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ برسلز کے ہولناک دھماکوں نے اس طوفان کی جلتی پر تیل ڈالا۔ ترک یورپی یونین متنازعہ معاہدے کو ڈالر کے بدلے مہاجر‘ اور کہیں مہاجر کے بدلے ڈالر کا نام دیا گیا۔ معاہدے کی رُو سے ترکی کی حکومت نے ذمہ داری اٹھائی ہے کہ وہ مغربی ملکوں میں جانے والے مہاجروں کو روکے گی۔ اس کام کا معاوضہ ملے گا‘ جبکہ وہ مہاجر جو مغرب سے واپس بھیجے جائیں گے‘ ان کے عوض بھی ''ڈالر ڈیل‘‘ ہو گئی ہے۔ ترکی دوست ملک ہے اس لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے، وہاں امن بحال ہو جائے۔
برسلز دھماکوں نے اس ڈالر ڈیل پر تنقید کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ بیلجیم اور کئی دوسرے مغربی ملکوں میں دھماکوں کے نتیجے میں دو انتہائیں ایک دوسرے کے مقابل آ گئیں۔ ایک طرف (STOP ISLAM) یعنی اسلام کو روکو نامی مہم ہے‘ جبکہ دوسری انتہا کہتی ہے مسلمان ملکوں میں مداخلت بند کرو۔ اسے (Stop Regime Change) کہا جا رہا ہے۔ مسلم حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے بمباری کی مہم کی مخالفت بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔ اس خیال والے سمجھتے ہیں مغربی ملک مسلم زمینوں پر اپنی مرضی کی کٹھ پُتلیاں بٹھانے کے شوق میں مسلمانوں کو مغرب سے نفرت کرنے کی ترغیب اور جواز مہیا کر رہے ہیں۔ اس کے لیے (Muslims have reason to hate west) کی اصطلاح چل نکلی ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے سوشل میڈیا پر اپنا تجربہ شیئر کیا۔ اے لیول پاس کرکے بین الاقوامی تعلقات کی تعلیم حاصل کر نے کے لیے برسلز جانے والے اس طالب علم نے اپنی آب بیتی یوں بیان کی: ان دھماکوں کے بعد‘ اس کے پڑوس کی عورتیں اور فیملیز اس کے پاس آنا شروع ہو گئیں۔ پہلے وہ خوفزدہ ہوا‘ لیکن پھر اس کا خوف خوشگوار حیرت میں بدل گیا‘ کیونکہ اس کی والدہ کی عمر والی عورتوں نے اسے کہا کہ اگر اسے ڈر لگ رہا ہے تو بتائے وہ اس کے لیے کیا کر سکتی ہیں۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو‘ یا اسے کمپنی چاہیے تو وہ ان کے ساتھ جا سکتا ہے۔ پھر ان فیملیز نے برسلز میں مقیم طالب علم سے معذرت کی کہ میڈیا نے خواہ مخواہ خوف کا ماحول پیدا کر دیا‘ جس سے وہ پریشان ہوا۔ طالب علم سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ برسلز کو اپنا گھر سمجھے اور پڑوسیوں کو اپنی فیملی۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جتنی جنگیں اب تک لڑیں گئیں‘ ان کا بنیادی سبب ایک جیسا ہے۔ عالمی اسلحے کی منڈی کے سوداگر اور سوداگروں کے ایجنٹ حکمران۔ جس طرح ہمارے ہاں صابن، توٹھ پیسٹ اور میک اپ وغیرہ کے اشتہار چلتے ہیں‘ اسی طرح مغرب کے وہ چینلز‘ جو عالمی پذیرائی رکھتے ہیں‘ ان پر ٹینک، توپ، لڑاکا طیاروں، بم اور اسالٹ رائفل کے اشتہاروں کی بھرمار ہے۔ ہر نیا اسلحہ بیچنے سے پہلے اس کا استعمال میں آنا ضروری ہے۔ اگر آپ گوگل، یُو ٹیوب پر اسلحے کے اشتہار دیکھیں تو ساتھ موت کے سوداگر آپ کو بتا رہے ہوں گے کہ یہ اسلحہ عراق میں استعمال ہوا‘ لیبیا میں چلایا گیا‘ اس نے شامی محاذ کو فتح کیا یا افریقہ کا میدانِ حرب۔
گولہ بارود کے عالمی سوداگروں کے سب سے بڑے خریدار مسلمان ہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ اسلحہ چیک کرنے کے لیے افغانستان سے لے کر یمن تک سارے میدانِ جنگ بھی مسلم زمینوں پر واقع ہیں۔ مغرب کے عام لوگوں میں سوچ کی نئی لہر کا بنیادی نکتہ جنگ کو روکنا ہے۔ مغربی میڈیا جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی بے دلی کے ساتھ معمولی کوریج کرتا ہے۔ وہ بھی کبھی کھبار۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے ہاں ''اچھی خبر‘‘ کی کوریج۔ نئے زمانے میں سچ پر اجارہ داری رکھنے والے عالمی کارپوریٹ باس اس کے حق میں سڑکوں پر آنے والے عوام سے ناراض ہیں۔ ان کو معلوم ہے اگر جنگ کا نیا میدان لگنا بند ہو گیا‘ دنیا میں نئے محاذ کھلنا بند ہو گئے تو ان کی اسلحہ ساز موت بیچنے والی فیکٹریاں بھی اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ بے آسرا مہاجر جن کو ڈالروں کے عوض برباد ہوئے کہتے ہیں۔
برتری کے ثبوت کی خاطر
خون بہانا ہی کیا ضروری ہے؟
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی ضروری ہے کیا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved