بارک اوباما نے ہوانا میں سفارت خانہ کھولنے کے بعد کیوبا تک سفر اختیار کرکے اپنے صدارتی ورثے میں خاصا اضافہ کر لیا ہے۔ کانگرس میں ریپبلکن اکثریت 1959ء میں فیڈل کاسٹرو کے لائے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے بعد عائد کردہ تعزیریں اٹھائے یا نہ اٹھائے‘ 88 سال بعد ایک امریکی صدر کا یہ دو روزہ دورہ بڑا معنی خیز ہے۔ اگر واشنگٹن‘ اشتراکی ملکوں روس اور چین سے سفارتی تعلقات رکھ سکتا ہے‘ تو فلوریڈا سے 90 میل جنوب تک رسائی حاصل کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ امریکی مقننہ نے کیوبا پر سے پابندیاں ہٹانے اور اس کی سرزمین پر لیز پر حاصل کردہ گوانتانامو بے کو بند کرنے سے انکار کر سکتی ہے‘ تو صدارتی ٹکٹ کے لئے کیوبا نژاد امیدواروں کو ابتدا ہی میں شکست سے کیونکر بچا سکتی ہے۔ پہلے فلوریڈا سے سینٹ مارکو روبیو اپنی مہم سے فارغ ہوئے اور اب سینیٹر ٹیڈ کروز کی باری ہے۔ گٹمو کا پٹہ بھی ختم ہونے والا ہے اور کیوبن لیڈر نے اس کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا۔
صدر اوباما جب ایئر فورس ون میں ہوانا کے بین الاقوامی ہوائی اڈ ے ہوزے مارٹی پر اترے تو خاتون اول کے علاوہ دونوں بیٹیاں اور ساس بھی ان کے ساتھ تھیں‘ مگر صدر راہول کاسٹرو‘ جو بڑے بھائی کی ریٹائرمنٹ پر ملک کے سربراہ چنے گئے غائب تھے‘ اور ان کے وزیر خارجہ برونو راڈریگس مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ابھی تک ایک امریکی سفیر کا تقرر نہیں ہوا‘ اس لئے صدر کا استقبال کیوبا میں سینئر امریکی سفارت کار جیفری ڈی لارنتس نے کیا۔ امریکی کاروباری افراد کا ایک جہاز‘ صدر کے طیارے سے پہلے ہوانا پہنچا تھا‘ اور وہ شہر کے پرانے سیاحتی علاقے کو ترقی دینے کی ترکیبیں کر رہے تھے۔ ہوائی اڈ ے کے باہر اور میامی کے لٹل ہوانا میں مٹھی بھر کیوبن یا ان کی اولاد‘ جو امریکہ میں اقتصادی لحاظ سے کامیاب رہی‘ مخالفانہ مظاہرے کر رہی تھی۔ اس روز بھی امریکی کوسٹ گارڈ نے اٹھارہ کیوبن باشندوں کو سمندر سے نکالا‘ جو کشتیوں پر فلوریڈا پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے نو ساتھی ایسی ہی کوشش میں ناکام ہو کر ڈوب مرے ہیں۔ یہ سلسلہ اوباما کے دورے سے خاص نہیں۔ یہ اخراج ایک زمانے سے جاری ہے اور بڑے بڑے بین الاقوامی واقعات کو جنم دے چکا ہے۔
بیالیس ہزار مربع میل اور ایک کروڑ آبادی کا یہ چھوٹا سا جزیرہ بڑی لڑائیوں کی لپیٹ میں آتے آتے بچا۔ ڈکٹیٹر بتستا 1959ء میں بھاگ نکلا تو انقلابی جنگجو کاسترو اس ملک کے وزیر اعظم بنے۔ اسی وقت سے امریکہ اور کیوبا میں تنا تنی چلی آ رہی تھی۔ سی آئی اے نے کوئی پندرہ سو کیوبن پناہ گزین تیار کئے اور انہیں ہتھیار دے کر کیوبا کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے بھیجا‘ مگر یہ فورس ناکام رہی۔ اسے The Bay of Pigs (خنزیروں کی خلیج) کا معرکہ کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں سرد جنگ زوروں پر تھی۔ سوویت یونین اپنے ایٹمی میزائل کیوبا میں لے آیا۔ صدر کینیڈی نے کیوبا کی ناکہ بندی کا حکم دیا۔ دنیا کا پہلا جوہری تصادم ہونے ہی والا تھا کہ دونوں ملکوں کی قیادت کی کاوش اور کچھ صحافیوں کے بیچ بچاؤ کرانے پر میزائل ہٹ گئے‘ ناکہ بندی تمام ہوئی اور نہ صرف یہ جنگ ٹل گئی بلکہ نصف صدی بعد دونوں ملک داعش کے خلاف بمباری کرتے اور سلامتی کونسل میں ایک دوسرے سے تعاون پر مائل دکھائی دیے۔ جس طرح خروشیف کے دور کا روس نہیں رہا‘ اسی طرح ماؤزے تنگ کا چین بھی بدل گیا۔ اس نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا‘ اور آج تجارت میں اس کا صف اول کا ساجھے دار ہے۔ امریکہ بھی ''سامراجی‘‘ راستہ چھوڑ چکا ہے‘ اور کیوبا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا خواہش مند ہے۔ اوباما کو امید ہے کہ کیوبا تک رسائی سے امر یکہ اپنے نہایت تلخ اور دیرینہ مخالفوں میں سے ایک میں نسلی ارتقا کا وسیلہ بنے گی۔
''لیکن یہ ایک نیا دن ہے‘‘ صدر اوباما نے اپنے میزبان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے شروع میں یہ جملہ کہا‘ اور پھر کیوبن ہسپانوی میں اس کا ترجمہ بھی کیا۔ ہسپانوی یا سپینش اس ملک کی غیر سرکاری دوسری زبان ہے اور بوقت ضرورت گھر کے بچوں کے علاوہ جنوبی امریکہ سے امریکہ میں داخل ہونے والے ایک کروڑ سے زیادہ لوگ یہی زبان بولتے ہیں؛ تاہم عربی کی طرح اس کا لہجہ ان ملکوں سے خاص ہے۔ اوباما نے کہا: نصف صدی سے زیادہ مدت میں‘ ہوانا میں ایک امریکی صدر کی موجودگی شاید ناقابل تصور تھی‘ لیکن یہ ایک نیا دن ہے۔ صدر کاسٹرو نے بھی ایسی ہی خوش خلقی کا اظہار کیا‘ مگر جلد ہی یہ پریس ٹاک دو پہلوانوں کے دنگل میں بدل گئی۔
ایک صحافی نے‘ جس کے والدین کیوبا سے نقل وطن کرکے امریکہ میں آباد ہوئے تھے‘ کاسٹرو سے پوچھا: اب کیوبا میں انسانی حقوق کی صورت حال کیا ہے؟ جواب میں کاسٹرو بولے: انسانی حقوق؟ کون سے حقوق‘ تم انسانی حقوق کے ایک قیدی یا ایک سے زیادہ قیدیوں کے نام لو‘ اور وہ شام کو رہا ہو جائیں گے۔ ہر ملک کا انسانی حقوق کا تصور اپنا ہے۔ مثال کے طور پر ہوانا میں صدر اوباما کا استقبال یا ان کی مخا لفت کرتے ہوئے جو لوگ گرفتار ہوئے وہ حکومت کی نگاہ میں ''جرائم‘‘ کے مرتکب ہوئے ہیں‘ اسی طرح جیسا کہ کراچی میں صفائی کی عوامی مہم کے دوران گرفتار ہونے والے عام قانون کی خلاف ورزی پر پکڑے گئے۔ چھوٹے کاسٹرو نے مزید کہا: کیوبا بہت سے عالمی معاہدوں پر دستخط کرتا ہے‘ اور ملک بھی ایسا ہی کرتے ہیں مگر ان پر کتنے عملدرآمد کرتے ہیں؟ یہ طنز امریکہ پر تھا جس نے بنیادی حقوق کی عالمی عدالت کے قیام پر دستخط بھی نہیں کئے کہ کہیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس کے فوجیوں کو مقامی عدالتوں میں گھسیٹا نہ جائے۔ یورپ کے بیشتر ملک اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔ یہ سوال بلجیم میں دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد‘ جس میں کم سے کم 30 افراد ہلاک اور 270 زخمی ہوئے‘ بھی اٹھا جس کی تفتیش کے دوران یہ ملک ''مکمل تعاون‘‘ کی یقین دہانی کرا رہا تھا۔ برسلز کے سانحے کا سن کر صدر اوباما بولے: یہ دہشت گردی دنیا کو اتحاد کی یادداشت کراتی ہے رنگ و نسل‘ مذہب اور قومیت کے اختلافات کے باوصف۔ پاکستان کو بھی یہ سبق لینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ پر طنز کا ایک اور موقع میزبان نے نکالا۔ دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جہاں عورت کو ایک ہی کام کا معاوضہ مرد کے برابر نہیں ملتا: ''کیوبا میں عورت کو وہی کام کرنے پر مرد کے برابر معاوضہ ملتا ہے‘‘۔
برسلز کے بین الاقوامی ہوائی اڈے اور میٹرو سٹیشن پر سات بم چلانے والوں نے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ نہ سوچا کہ اس کارروائی سے ریپبلکن امیدواروں کو فائدہ پہنچے گا۔ انہیں تو یورپی یونین کے صدر مقام اور نیٹو کے ہیڈکوارٹرز کے نرم گوشوں پر حملہ کرنا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا: میں نہ کہتا تھا کہ اس ملک میں مسلمانوں کے داخلے پر کچھ وقت کے لئے پابندی لگا دینی چاہئے۔ اب کہ انہوں نے کہا کہ نیٹو کی حمایت کم ہونی چاہئے اور واٹر بورڈنگ کا قانون منسوخ کر دیا جائے۔ اوباما تفتیش کے اس طریقے کو ظالمانہ کہہ کر ممنوع کر چکے ہیں۔ ٹیڈ کروز بولے: پولیس کو چاہئے کہ (امریکی) مسلمانوں کو ان کے ہمسائے میں پابند کر دے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ انتہا پسند لڑ رہا ہے۔ صدر اوباما اور ڈیموکریٹک ٹکٹ کی امیدوار ہلیری کلنٹن کا موقف ہے کہ بیشتر مسلم حکومتیں انتہا پسندی سے لڑ رہی ہیں اور ہمیں ان کی حمایت درکار ہے۔ اس سلسلے میں وہ فراوانی سے پاکستان کی مثال دیتے ہیں۔ داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس کا مقصد امریکی اور یورپی زندگی کے معمولات کو تلپٹ کرنا ہے‘ جس میں وہ کامیاب ہے۔ اوباما نے اگلی منزل کو روانہ ہونے سے قبل کیوبا میں ایک دوستانہ بیس بال میچ بھی دیکھا‘ جس میں صدر راہول کاسٹرو بھی موجود تھے۔ شمالی اور جنوبی امریکہ میں یہ کھیل ایسا ہی ہے جیسے پاکستان اور بھارت میں کرکٹ۔