جس وقت ہم سوچ رہے تھے کہ داعش فوجی دبائو بڑھنے کی وجہ سے پیچھے ہٹ رہی ہے‘ اور اس کے قبضے سے علاقے نکل رہے ہیں (جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا) تو اس وقت اس نے برسلز میں تباہ کن حملہ کر دیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تنظیم اپنی سرحدوں سے دور خود کش حملے کرنے کی اہل ہے؛ تاہم صورت حال کا بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ضروری نہیں کہ ان حملوں سے داعش کی طاقت کا اظہار ہوتا ہو۔ یہ بات ہم بارہا پاکستان میں بھی دیکھ چکے ہیں کہ خود کش حملہ آور کے لیے اپنی جیکٹ کا بٹن دبانے میں کوئی دیر نہیں لگتی۔ اگر کسی مقام پر کسی تنظیم کے ایجنٹ موجود ہوں‘ تو عام دستیاب اشیا بلکہ باورچی خانے میں استعمال ہونے والی چیزوں سے بھی دھماکہ خیز مواد تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی کہی جا سکتی ہے کہ پیرس اور برسلز، دونوں شہروں میں نوجوان مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ ان میں سے کچھ داعش کے پیغام سے متاثر بھی ہو سکتے ہیں۔
برسلز میٹرو اور ایئرپورٹ پر حملوں کے فوری بعد سی این این کی کرسٹین آمنا پور نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری سے پوچھا کہ کیا اب مغربی ریاستوں کے شہریوں کو مسلسل خوف کی فضا میں زندگی بسر کرنا پڑے گی یا اُنہیں گھر سے باہر نکلتے وقت، اپنے کام پر جاتے وقت یہ خوف لاحق رہے گا کہ کسی بھی وقت، کہیں بھی کوئی بم دھماکہ ہو سکتا ہے۔ مس آمنا پور نے جان سے دوٹوک الفاظ میں پوچھا۔۔۔ ''کیا اسے زندگی کا معمول سمجھ کر قبول کر لیا جائے؟‘‘ تاہم امریکی افسر نے اس امکان کو سختی سے رد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ ضرور کیا جائے گا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح؟ دہشت گردی بھی سو سر رکھنے والی سمندری بلا، ہائیڈرا، کی طرح ہے۔ جب آپ اس کا ایک سر کاٹ دیتے ہیں تو اس کی جگہ دوسرا سامنے آ جاتا ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کا فی الحال یہ انجام ہوا ہے کہ یہ برمنگھم سے لے کر برلن تک پھیل چکی ہے۔ داعش جیسے گروہ، جو کسی علاقے پر قبضہ کرکے خلافت قائم کرنے کی کوشش کریں، روایتی فوج کی حملوں کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں، جیسا کہ شام میں دیکھنے میں آ رہا ہے، لیکن مغربی معاشروں میں چھپے ہوئے اپنے انتہاپسند حامیوں کے ذریعے وہ انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں‘ کیونکہ ان کے حامی سکیورٹی اداروں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ان کا سراغ لگانا اور انہیں پکڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے‘ جہاں اس کے عسکری اداروں نے قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر کاری ضرب لگائی ہے‘ لیکن کراچی اور دیگر شہری علاقوں میں انفرادی حملوں کو مکمل طور پر نہیں روکا جا سکا ہے۔ رینجرز اہل کاروں پر بھی حملے دیکھنے میں آئے ہیں۔ آج کل دہشت گرد انتہائی جدید ذرائع ابلاغ اپناتے ہوئے ایک سرکل قائم کر لیتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد مغرب پر حملے کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ان کا اندازہ یہ ہے کہ ایسی پُرتشدد کارروائیوں کے بعد مغرب میں مقامی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر ابھرے گی‘ اور مغرب کے دائیں بازو کے عناصر اُن پر حملے کریں گے؛ چنانچہ وہ مزید مسلمان نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل ہونے پر مائل کر لیں گے۔ دہشت گردوں کا اندازہ یہی ہے کہ ان حملوں کے ذریعے وہ مغربی معاشرے سے زیادہ تعداد میں نوجوان بھرتی کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس وقت امریکی انتخابات میں پہلے ہی مسلم مخالف جذبات میں شدت آتی جا رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کو امریکہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں تو ٹیڈ کروز کا مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادیوں میں پولیس کا گشت بڑھایا جائے‘ تاکہ اُن کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھی جا سکے۔ برسلز حملوں کے بعد اُن کے مطالبات کو نیا جواز مل جائے گا۔
ایک گروہ محسوس کرتا ہے کہ ان حملوں کا سب سے زیادہ اثر یورپ میں آباد ہونے والے شامی مہاجرین پر ہو گا۔ فی الحال ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں مہاجرین کی آمد کی رفتار سست ہو چکی ہے اور پناہ کی تلاش میں آنے والوں کو پہلے کے مقابلے میں سرد مہر رویّے کا سامنا ہے۔ لبرل سیاست دان جیسا کہ اینجلا مرکل، پر شدید دبائو ہے کہ وہ مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ پیرس اور برسلز میں حملے کرنے والوں کے ریکارڈ سے ایک بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سب افراد معمول کے جرائم، جیسا کہ منشیات فروشی اور مسلح ڈکیتی کا طویل ریکارڈ رکھتے تھے؛ چنانچہ قیاس ہے کہ انہیں جیل میں انتہا پسندی کی طرف مائل کیا گیا ہو گا۔ بہرحال ایسے افراد کے لیے اپنے مجرمانہ روابط کو استعمال کرتے ہوئے زیر زمین دنیا سے ہتھیار وغیرہ حاصل کرنا مشکل نہیں۔ یورپ میں انٹیلی جنس کے تبادلے میں فقدان بھی اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے۔
جہاں تک بیلجیم کا تعلق ہے تو یہ ایک کثیر لسانی ریاست ہے‘ جہاں ہو سکتا ہے کہ کسی ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے ایجنٹ دوسرے ایجنٹ کی کسی اور زبان میں لکھی ہوئی رپورٹ نہ پڑھ سکیں۔ اس کے علاوہ سراغ رساں افسران اپنے اثاثوں کی حفاظت کے لیے اپنے رازوں کا دوسروں کے ساتھ تبادلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس میں حسد کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے؛ چنانچہ انٹیلی جنس افسران سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ راتوں رات اپنی دیرینہ عادت بدل لیں گے۔ ایک اور عامل مغربی ممالک میں پیدا ہونے والے نوجوان جنگجوئوں کی وطن واپسی ہے‘ جو داعش کی صفوں میں شامل ہو کر جنگ کرنے گئے‘ اور بدقسمتی سے زندہ بچ کر واپس آ گئے۔ بیلجیم سے جہاد کے لیے جانے والے نوجوانوں کی تعداد پورے یورپ میں سب سے زیادہ ہے؛ چنانچہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان شہریوں کے درمیان سے انتہا پسندوں کو تلاش کرنا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے مشکل ہے۔ یہ نازک صورت حال اُن لاکھوں پُرامن اور قانون کی پابندی کرنے والے مسلمان شہریوں کی زندگی اجیرن بناتی ہے‘ جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے یورپ میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ ان میں سے بہت سوں کو تفتیش کے لیے پوچھ گچھ کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتہا پسند یہی چاہتے ہیں کہ مغربی مسلمان زچ ہو کر ان کے ساتھ تعاون پر راضی ہو جائیں۔
جان کیری جیسے سوچ سمجھ رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری سے دہشت گرد حملوں کو روکا جا سکتا ہے، لیکن القاعدہ کے خلاف لڑی جانے والی طویل جنگ سے حاصل ہونے والا تجربہ اس رجائیت کی نفی کرتا ہے۔ ابھی اس ضمن میں بہت سے سوالات کا جواب ملنا باقی ہے۔ اس دوران مغرب میں مذہبی فوبیا بڑھتا جا رہا ہے، اور اندیشہ ہے کہ اس کی وجہ سے مزید مسلمان نوجوان انتہا پسندی کی طرف راغب ہوں گے۔