تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-03-2016

دل میں محبت کا گداز رکھنے والوں کے لیے

ملتان ٹی ہائوس میں 23مارچ کی شام بزم ترقی ادب کے زیر اہتمام ایک سیمینار اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔
مشاعرے میں قریب تیس شعراء نے اپنا کلام سنانا تھا۔ اس مشاعرے سے پہلے قرار داد پاکستان کے حوالے سے ایک سیمینار بھی تھا لہٰذا وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے شعراء پر تین اشعار سنانے کی پابندی لگا دی گئی۔ کئی شعرا ء نے اس پابندی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں تاہم بیشتر شعراء نے اس کی پابندی کی۔ اسی اثناء میں مجھ سے آگے بیٹھے ہوئے صاحب نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور کہا بھلا تین اشعار میں کیا کہا جا سکتا ہے؟میں نے جواباً کہا کہ اگر کہنے والا کچھ کہنے پر قادر ہو تو محض ایک شعر ہی کافی ہوتا ہے۔ میں ایک اچھا شعر پڑھ کر کئی دن خوش رہتا ہوںاور مزے کی بات ہے کہ ایسے شعروں کی کمی بھی نہیں ہے‘ تین شعر تو بہت ہوتے ہیں بشرطیکہ ان میں کچھ ہو۔ میں نے بارہ اشعار پڑھ کر اترانے والے شاعر کی طرف اشارہ کر کے اسے بتایا کہ اس کے بارہ اشعار میں ایک بھی شعر نہیں تھا ۔ اس شاعر کے پاس اب بھی تین شعر سنانے والی پابندی کے باوجود تین شعر سنانے کی گنجائش موجود ہے کہ اس نے شعر تو ایک بھی نہیں سنایا۔ تین اشعار‘ یعنی چھ مصرعے کی پابندی میں‘ میں نے دو مصرعوں والی نظم سنائی۔ شاکر نے کہا ابھی دو اشعار کی گنجائش موجود ہے۔ میں نے کہا کئی شاعر یہ والی گنجائش پیشگی استعمال کر چکے ہیں اور کئی ابھی انتظار میں ہیں۔
کئی اشعار‘ کئی نظمیں برسوں آپ کے دل پر قبضہ کیے رکھتی ہیں۔ یہ کبھی پرانی نہیں ہوتیں ‘کبھی ان سے دل نہیں بھرتا اور کبھی ان کی تازگی ختم نہیں ہوتی ‘جیسے عزیز شاہد کی نظم ۔ سرائیکی کی یہ ایک لازوال نظم ہے اور میں عزیز شاہد سے سننے کے لیے سال بھر انتظار کرتا ہوں۔ درجنوں بار اس کی وڈیو دیکھتا ہوں اور پڑھتا ہوں مگر حال یہ ہے کہ ابھی انیس مارچ کو ملتان ٹی ہائوس کے کل پاکستان مشاعرے میں عزیز شاہد سے سنی ہے اور منتظر ہوں کہ پھر کب سننا نصیب ہو گی۔ اس نظم کے لیے دو چیزیں از حد ضروری ہیں۔ پہلی یہ کہ سرائیکی زبان آتی ہو اور دوسری یہ کہ عزیز شاہد خود سنائے۔ فی الوقت دونوں چیزوں میں سے ایک تو میسر ہی نہیں کہ کالم کا دامن صرف لکھ کر بھرا جا سکتا ہے؛ تاہم بہت سے لوگ اس سرائیکی نظم سے ضرور لطف لیں گے۔ میں نے اس نظم کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر آپ کو تو علم ہی ہو گا کہ ترجمہ الفاظ کا مرہون منت ہوتا ہے اور اس دوران متبادل لفظ تو استعمال کر لیے جاتے ہیں مگر بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روح کا ترجمہ ناممکنات میں ہوتا ہے۔ اس نظم میں ایسے الفاظ کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر مجبوری ہے۔ اور ہاں اس کے لیے دل کا گداز ہونا اور محبت سے آشنا ہونا ازحد ضروری ہے۔ یہ نظم محبت سے محروم لوگوں کے لیے محض الفاظ کی ترتیب ہے۔محبت سے خالی دل میں گداز کا کیا کام؟ یہ نظم دل میں محبت کا گداز رکھنے والوں کے لیے ہے۔
نظم:''اساں تاں چاندنی وانگوں‘‘
اساں تاں چاندنی وانگوں وچھیے پئے ہیں
رُلی ہوئی روح دے روحیں تیں
صبر دے ون صنوبر تیں
سُتے بے چنت پتھریں تیں
وچوں وہندے ہوئے چشمیں تیں
غلابیں تے‘ ربیلیں تیں
چنبیلیں تیں
سُچے ست رنگ پتریں تیں
گِھمی شبنم دے قطریں تیں
وچھیے پئے ہیں
اساں تاں چاندنی وانگوں وچھیے پئے ہیں
تھلاں تیں‘ ریت تیں
ٹیلیں تیں‘ٹو بھیں تیں
سمندریں تیں
سروں سر تار دریاویں تیں‘ لہریں تیں
ڈکھٹن دی ہیل تیں 
ٹھلدیں ہوئیں بیڑیں تیں
پروں پر لے کناریں تیں
وساخیں تے حویلیں تیں
وساندن ‘ بیٹ‘ بیلیں تیں
سہاگن لئی دیں بوریں تیں
سجی ستری ہوئی ساول تیں
وچھیے پئے ہیں!
اساں تاں چاندنی وانگوں وچھیے پئے ہیں
مسیتیں تیں ‘ مناریں تیں
فقیریں دے مزاریں 
مندریں تیں‘ گردواریں تیں
چھتے ‘ پر شور‘ شہریں تیں
بزاریں تیں
مکانیں‘ محل‘ ماڑیاں تیں
کچے کوٹھیں دیں چھپریں تیں
تلے لہندیں ہوئیں پوڑیں تیں
کھلے در دے ولیکھیں تیں
صحن‘ ویڑے تلے تھلیاں تیں
تیڈے در تیں
تیڈے رستے تیں ‘گلیاں تیں
تیڈی گلیاں دے ککھیں تیں
تیڈی گلیاں وچوں
وسدے ہوئے لوکیں دے پیریں تیں
وچھیے پئے ہیں
کتھئیں تاں یار! پَوں پَیسیں
اساں تاں چاندنی وانگوں وچھیے پئے ہیں
ترجمہ: ''ہم تو چاندنی کی طرح‘‘
ہم تو چاندنی کی مانند بچھے ہوئے ہیں
برباد شدہ روح کے پہاڑوں پر
صبر کے درخت صنوبر پر
سوئے ہوئے بے فکر پتھروں پر
گلابوں پر‘ ربیلوں(ایک خوشبودار بوٹی) پر
چنبیلیوں پر
سچے سات رنگوں والے پتوں پر
ہم بچھے ہوئے ہیں
ہم چاندنی کی مانند بچھے ہوئے ہیں
صحرائوں پر‘ صحرائوں کی ریت پر
ٹیلوں پر‘ ٹوبھوں پر(تھل میں پانی کے قدرتی تالاب جو بارش سے بھرتے ہیں)
سمندروں پر
اپنے سر سے اونچے پانی والے دریائوں پر‘ اس کی لہروں پر
جنوب سے آتی ہوئی ہوا پر
اس جنوب کی ہوا کے زورپر تیرتی کشتیوں پر
دُور‘دوسرے کناروں پر
چوپالوں اور حویلیوں پر
آباد جھوک پر‘ دریا کے دامن میں خشکی پر‘ جنگلوں پر
سہاگن لئی( دریا کے کنارے والا جھاڑی نما پودا) کے بُور پر
سجے سنورے سبزے پر
ہم بچھے ہوئے ہیں
ہم تو چاندنی کی مانند بچھے ہوئے ہیں
مسجدوں پر‘ مناروں پر
فقیروں کے مزاروں پر
مندروں پر اور گوردواروں پر
ظالم اور پرشور شہروں پر 
بازاروں پر
مکانوں‘محلوں اور بلند و بالا گھروں پر
کچے مکانوں کے چھپروں پر
نیچے اترتی ہوئی سڑھیوں پر
کھلے دروازوں کی ریخوں پر
صحن‘ دالان اور قدمچوں پر
تمہارے راستے پر اور گلیوں پر
تمہاری گلیوں کے خس و خاشاک پر
تمہاری گلیوں میں
بستے ہوئے لوگوں کے پائوں پر
ہم بچھے ہوئے ہیں
کہیں تو محبوب! تم اپنے پائوں رکھو گے
ہم تو چاندنی کی مانند بچے ہوئے ہیں۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ داغستان کے رسول حمزہ توف کی محبت کی نظم سے بڑھ کر نہیں تو کم بھی نہیں۔ اگر یہ نظم پڑھ کر آپ کی آنکھیں جھلملائی نہیں تو سارا قصور ترجمے کا ہے‘ یا آپ کو سرائیکی نہیں آتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کا دل محبت کے گداز سے محروم ہے۔ یہ نظم میرے پورے وسیب کی محبت کی نمائندگی کرتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved