قراردادِ پاکستان، مسلم شناخت کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس کی معنویت دیگر سنگ ہائے میل کے تسلسل ہی میں واضح ہو سکتی ہیں۔
پاکستان فکر و عمل کا امتزاج ہے۔ یہ سفر فکری بھی ہے اور زمینی بھی۔ میرا خیال ہے کہ پانچ دستاویزات، یا یوںکہیے کہ سنگ ہائے میل، منزل کی نشان دہی کرتے ہیں: علامہ اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد، قرارداد پاکستان، 11 اگست1947ء کو مجلس دستور ساز سے قائد اعظم کا خطاب، 14اگست1947ء کو انتقالِ اقتدارکی تقریب میں قائدکی تقریر اور قرارداد مقاصد۔ ان میں سب سے اہم خطبۂ الٰہ آباد ہے۔ میرا احساس ہے کہ ہمارے ہاں شعوری سطح پر اس خطبے کی درست تفہیم نہیں ہو سکی۔ اس سے ماخوذ دو قومی نظریے کی جو تعبیر سامنے آئی ہے اُس کی تفسیر و تشریح کے جملہ حقوق ہمارے مذہبی طبقات کے نام ہوگئے ہیں۔ میں جب اس سارے عمل کو ان پانچ دستاویزات کی روشنی میں دیکھتا ہوں تو میرے ذہن ایک تصویر بنتی ہے۔ میں اس کے نقوش چند نکات کی صورت میں واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
٭ اسلام، فرد اور اجتماع دونوں کے لیے ہے۔ یہ فرد کے انفرادی تزکیے کے ساتھ اجتماعی اصلاح کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ اس لیے اسلامی نقطۂ نگاہ سے فرد اور اجتماع کو الگ الگ نہیںکیا جاسکتا۔ یہ ممکن نہیںکہ فرد انفرادی تشخیص کے اعتبار سے مسلم ہو اور اجتماعی تشخیص سے غیر مسلم۔
٭ اسلام کا یہ اجتماعی پہلو متقاضی ہے کہ اس کے ماننے والوں کے پاس ایک خطۂ زمین ہو جہاں اسلام کی اجتماعی و تہذیبی قوت (Potential) کا ظہور ہو۔
٭ اس سے مراد مذہبی طبقے کی حکمرانی (Religious Rule) نہیں ہے۔ اسلام میں کلیسا کا کوئی تصورنہیں، لہٰذا اسلام کی تعلیمات کی روشنی میںاجتماعیت کی تشکیل کا مطلب کسی مذہبی طبقے یا علما کا اقتدار نہیں ہے۔
٭ مسلم اکثریتی علاقوں کو الگ کرنے کے دو مقاصد ہیں۔ ایک یہ کہ ہندوستان میں امن اور سلامتی ہو، تہذیبی اختلاف معاشرتی فساد میں نہ بدلے۔ دوسرا یہ کہ اسلام عرب ملوکیت کے اثرات سے نکلے اور اس کا حقیقی جوہر سامنے آئے، جو اس کی حقیقی روح اور روحِ عصر سے ہم آہنگ ہو۔
٭ یہ تصورکسی دوسرے مذہب کی اہانت پر مبنی نہیں ہے۔ دوسرے مذاہب کی روایات ، رسوم، رواج اور قانون کے بارے میں ہم انتہائی احترام کا تصور رکھتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کے بارے میں بری رائے ایک پست اورگھٹیا ذہنیت کا اظہار ہے۔
٭ ہندوؤں سے ہمارا اصل اختلاف مذہبی نہیں، معاشرتی ہے۔ اگر ہمارا معاملہ اہل کتاب سے ہوتا تو پھر الگ وطن کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے ساتھ ہمارا معاشرتی تضاد نہیں ہے۔ قرآن مجید نے اہلِ کتاب کو مشترکہ نکات کی طرف مراجعت کی دعوت دی ہے۔ صلیبی جنگوں اور یورپ کے جارحیت سے اس دعوت کی آفاقیت متاثر نہیں ہوئی۔ قرآن کی پیشکش وحدتِ آدم کی طرف پہلا عملی قدم ہے۔
٭ ہندو، مذہبی اور سماجی اعتبار سے طبقاتی تقسیم پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ امر ایک ساتھ رہنے میں مانع ہے۔ ہندواس طبقاتی تصورکے باعث خود ایک قوم نہیں بن سکے تو مسلم ہندو مل کرکیسے ایک قوم بن سکتے ہیں؟
٭ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان اسلامی اصولوں پر قائم ایک ریاست ہے، لیکن اس کے شہریوں کے ساتھ مذہب کے معاملے میںکو ئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ شہریوں کے حقوق مساوی ہوںگے جیسے کسی قومی ریاست میں ہوتے ہیں۔ مذہب فرد کا انفردای معاملہ ہے، ریاست اس میں دخل نہیں دے گی۔ ریاست کے مناصب کے لیے مذہب کو بنیاد نہیں بنایا جائے گا۔
٭ یہ تصور، اکبر جیسے حکمران یا رُوسو جیسے کسی مفکر سے مستعار نہیں۔ رسالت مآبﷺ چودہ سو سال پہلے ہمارے لیے یہ راہنمائی فرما گئے ہیں۔
٭ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا، تاہم جمہورکے نمائندے اس بات کو پیش نظر رکھیں گے کہ اقتدارکا اصل مالک اﷲ تعالیٰ ہے۔ ان کے پاس یہ امانت ہے اور انہیں اسے امانت سمجھ کر ہی استعمال کرنا ہے۔
٭ جب ہم اسلام کی اجتماعی یا تہذیبی قوت اور اسے روح ِعصرسے ہم آہنگ بنانے کی بات کرتے ہیں توہم اجتہاد کی بات کرتے ہیں۔ اس کے تین بنیادی اصول ہیں۔۔۔۔ قرآن مجید کی حاکمیت، روایات کی قانونی اور غیر قانونی تقسیم اوراس حوالے سے ان سے استفادہ اوراس کے ساتھ پارلیمنٹ کی اجماع کا متبادل ادارے کے طور پر قبولیت۔
خطبۂ الٰہ آباد سے قرارداد مقاصد تک، جب میں پاکستان کے فکری و عملی سفرکو دیکھتا ہوں تو اس کا یہی خاکہ میرے سامنے آتا ہے۔ یہ پانچ بنیادی دستاویزات ہیں۔ اس کے علاوہ قائد اور اقبال نے جو کچھ فرمایا، وہ ان دستاویزات کی شرح ہے، جیسے علامہ اقبال کے خطبات یا قائد اعظم کی تقاریر۔ میرا تاثر ہے کہ قائد اعظم اورعلامہ اقبال کے فکر و عمل سے پاکستان کا جو تصور ابھرتا ہے، وہ اس سے بہت مختلف ہے، ہمارا مذہبی طبقہ جس کو نظریۂ پاکستان یا لبرل طبقہ جسے سیکولر ریاست کہتا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم کی تفہیمِ اسلام اور سیاسی طرز عمل سے پھوٹنے والے تصورِ پاکستان کا پیرو کارکوئی طبقہ آج یہاں نہیں پایا جاتا۔ افراد کا معاملہ الگ ہے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اقبال سے ماخوذ فکری سفر آگے نہیں بڑھ سکا۔ نظریۂ پاکستان کی تفہیم و تشریح کے تمام حقوق مذہبی طبقے کو منتقل ہوگئے۔ مسلم لیگ اپنے فکری افلاس کے باعث اس کو قبول کرنے پر مجبور ہوئی۔ اب وہ اس سے نکلنا چاہتی ہے لیکن نہیں جانتی کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ لبرل پاکستان کی باتیں یا تحفظ نسواں قانون، دراصل اسی فکری محرومی اور پراگندگی کا اظہار ہیں۔
میرا احساس ہے کہ نظریۂ پاکستان اور قرارداد پاکستان کی یہی تفہیم درست ہے اور اسی سے ہم اپنے نظریاتی اور عملی مسائل کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ مجھے فی الجملہ اس پراطمینان ہے۔ تاہم دو باتیں ایسی ہیں جن کی مکمل تفہیم میرے لیے ممکن نہیں ہو سکی۔
1۔ تقسیم کے اس حل سے وہ مسلمان سرے سے نظر انداز ہوئے جو غیر مسلم اکثریتی علاقوں میں آباد تھے۔ سب کے لیے ظاہر ہے کہ نقل مکانی ممکن نہیں تھی۔ ان کی تعداد بھی کروڑوںمیں ہے۔ تقسیم ہندکے منصوبے سے ان کے مفادات کا تحفظ نہیں ہو سکا۔ وہ خود کو بھارتی اجتماعیت کا حصہ بنا سکے اور نہ انفرادی تشخص کو ثابت کر سکے۔ ان کے اس اضطراب کا حل کیا ہے؟ اس سوال سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم تاریخی عمل کومعکوس کردیں۔ اس کا کوئی حل تقسیم کو ایک تاریخی حقیقت سمجھتے ہوئے تلاش کر نا پڑے گا۔
2۔ تقسیم کے وقت لاکھوں لوگوں کا قتل اور مذہبی فسادات کوئی معمولی المیہ نہیں، جسے محض دردِ زہ (Birth pangs) قرار دے کر نظرانداز کیا جاسکے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کیبنٹ مشن کے تجویزکردہ حل کو مان لیا جاتا تو اس المیے سے بچا جا سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام چند سال مؤخر ہو جاتا لیکن شاید اس سطح کی ہجرت اور قتل و غارت گری نہ ہوتی۔ یہ محض اتفاق نہیںکہ آج کا برصغیرکم و بیش وہی ہے جو کیبنٹ مشن نے تجویز کیا تھا۔کیا تاریخ کا فیصلہ تقسیم ہندکے فارمولے کے بجائے کیبنٹ مشن کے حق میں نہیں؟
یہ دو سوال مجھے مضطرب رکھتے ہیں۔کاش میں ان کا قابل اطمینان حل تلاش کر سکتا؟