مقابلہ کانٹے کا ہو تو صرف ایک رن یا ایک وکٹ سے ہونے والی جیت بھی جیت ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی کے حلقہ 101 کا ضمنی انتخاب جیت گئی لیکن کیا یہ جیت ایسی ہے کہ اس پر فتح کے شادیانے بجائے جائیں؟ یہ حامد ناصر چٹھہ کا ''آبائی حلقہ‘‘ ہے لیکن ایسا نہیں کہ یہاں وہ ناقابلِ شکست رہے ہوں۔ صلاح الدین چٹھہ کے اکلوتے صاحبزادے نے ناز و نعم میں پرورش پائی تھی چنانچہ ایک خاص طرح کی خود پسندی ان کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ عملی سیاست میں آئے تو یہاں بھی یہی معاملہ تھا۔ اپنے حلقے کے عام آدمی سے ان کا ربط و ضبط کم کم ہی رہا۔ لاڈلے بچوں والی معصوم عادتیں ادھیڑ عمر میں بھی قائم رہیں۔ صبح دیر سے جاگنا بھی ان کا معمول تھا۔ سیاست میں انہیں عروج و زوال اور نشیب و فراز کا سامنا رہا۔ 1985ء کی (وزیرِ اعظم جونیجو والی) اسمبلی میں سپیکر فخر امام کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری کے بعد وہ ان کے جانشین قرار پائے (سپیکر کے طور پر فخر امام کی آزاد روی جنابِ جونیجو جیسے جمہوریت پسند مرنجاں مرنج وزیرِ اعظم کے لئے زیادہ دیر قابلِ برداشت نہ رہی تھی)۔ مسلم لیگ کی داخلی سیاست میں حامد ناصر چٹھہ جونیجو صاحب کے وفاداروں میں شامل تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد ضیاالحق کی آشیرباد کے ساتھ مسلم لیگ نے نیا جنم لیا تو فوجی صدر کی فرمائش پر پیر صاحب پگاڑا نے مسلم لیگ کی صدارت اپنے مریدِ سندھی محمد خان جونیجو کے سپرد کر دی۔ وزارتِ عظمٰی سے جونیجو کی برطرفی کے بعد، ضیاالحق کی زندگی میں ہی مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ گئی تو حامد ناصر چٹھہ جونیجو گروپ کے ساتھ تھے۔ فدا محمد خان کی زیرِ صدارت دوسرے دھڑے کے سیکرٹری جنرل نواز شریف تھے۔ ضیاالحق کی شہادت کے بعد 16 نومبر کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مقابلے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) قائم کرنے والے خفیہ ہاتھوں نے مسلم لیگ کے دونوں دھڑوں کو بھی متحد کر دیا تو متحدہ مسلم لیگ کی صدارت جونیجو صاحب ہی کے ہاتھ رہی۔ ایک ہی جماعت میں ہونے کے باوجود حامد ناصر چٹھہ اور نواز شریف میں ذہنی فاصلے برقرار رہے۔
1993ء کے اوائل میں جونیجو صاحب کے انتقال اور ایوانِ صدر میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف ہونے والی سازشوں نے مسلم لیگ کو پھر دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا۔ حامد ناصر چٹھہ کے زیرِ صدارت نواز شریف مخالف دھڑے نے خود کو جونیجو گروپ کا نام دے دیا تھا۔ جنرل وحید کاکڑ کے انیشی ایٹو پر صدر غلام اسحاق خان اور وزیرِ اعظم نواز شریف کے درمیان ''معاہدے‘‘ کے نتیجے میں 16 اکتوبر 1993ء کو ہونے والے عام انتخابات حامد ناصر چٹھہ کے لئے سیاست کا عروج لائے۔ اسٹیبلشمنٹ کو نواز شریف کی واپسی قبول نہیں تھی جس کے لئے تمام ضروری اقدامات بروئے کار لائے گئے۔ مرکز میں نواز شریف کی مسلم لیگ پیپلز پارٹی کی 89 نشستوں کے مقابلے میں 73 نشستیں حاصل کر پائی۔ پیپلز پارٹی نے مجموعی طور پر مسلم لیگ سے 3 لاکھ ووٹ کم حاصل کئے تھے، لیکن قومی اسمبلی میں نشستوں کے لحاظ سے اسے مسلم لیگ پر 16 کی برتری حاصل ہو گئی تھی۔ خود پروفیسر غفور احمد صاحب کے تجزیے کے مطابق قاضی حسین احمد کے پاکستان اسلامک فرنٹ کا فائدہ پیپلز پارٹی کو پہنچا تھا۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی 10 نشستیں ایسی تھیں‘ جہاں مسلم لیگ اور فرنٹ کے درمیان (رائٹسٹ) ووٹوں کی تقسیم کے باعث پیپلز پارٹی کامیاب ہو گئی۔ بصورتِ دیگر قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کے ارکان کی تعداد 83 اور پیپلز پارٹی کی 79 ہوتی۔
پنجاب اسمبلی میں معاملہ مختلف تھا۔ یہاں ''عالمِ بالا‘‘ کی تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود مسلم لیگ سب سے زیادہ (106) نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے 94 اور حامد ناصر چٹھہ کے جونیجو گروپ نے 18 نشستیں حاصل کیں، جبکہ 17 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ پنجاب میں ووٹرز کے عمومی رجحان کے باعث آزاد امیدواروں کی ترجیح مسلم لیگ تھی‘ لیکن ملک کے سب سے بڑے صوبے میں نواز شریف والی مسلم لیگ کی حکومت طاقتوروں کے لئے ناقابلِ قبول تھی۔ خود محترمہ بینظیر بھٹو بھی کسی قیمت پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں نواز شریف کا راستہ روکنا چاہتی تھیں۔ (1988-90ء میں اپنی 20 ماہ کی وزارتِ عظمیٰ میں وہ پنجاب میں نواز شریف حکومت کے تلخ تجربے سے گزر چکی تھیں)۔ اب پنجاب میں صرف 18 ارکان والے جونیجو گروپ کو وزارتِ اعلیٰ دینے کا سودا بھی ان کے لئے مہنگا نہ تھا‘ جس کے لئے چٹھہ صاحب نے منظور وٹو کا نام دے دیا۔ وہ خود قومی اسمبلی کے رکن تھے لیکن وفاقی حکومت میں کوئی عہدہ نہ لینے کے باوجود وہ عملاً نائب وزیرِ اعظم کے اختیارات انجوائے کرتے۔ وزیرِ اعظم بینظیر انہیں اپنا بھائی کہا کرتیں۔ منظور وٹو وزیرِ اعظم کے لئے قابلِ برداشت نہ رہے، خود چٹھہ صاحب بھی ان سے زیادہ خوش نہیں تھے تو محترمہ نے ان کی جگہ مخدوم الطاف احمد (مرحوم) کو لانے کی کوشش کی۔ 1977ء کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے میں یہ پیپلز پارٹی کی اپنی وزارتِ اعلیٰ ہوتی لیکن حامد ناصر چٹھہ آڑے آئے اور وہ منظور وٹو کی جگہ ایک دوسرے مسلم لیگی سردار عارف نکئی کو لانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کارِ خیر میں انہیں مسلم لیگ نواز کی خاموش تائید بھی حاصل تھی۔
حامد ناصر چٹھہ 1997ء کا الیکشن ہار گئے۔ جنرل مشرف کے 2002ء کے الیکشن میں وہ ایک سیٹ جیت گئے‘ لیکن دوسری پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد 2008ء کے انتخابات میں یہاں جسٹس ریٹائرڈ افتخار احمد چیمہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار تھے۔ ان کے 71792 ووٹوں کے مقابلے میں چٹھہ صاحب 48813 ووٹ حاصل کر پائے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں شکست کا مارجن 40 ہزار کو پہنچ گیا تھا۔ اب چٹھہ صاحب نے اپنے فرزند احمد ناصر چٹھہ کو میدان میں اتارا تھا۔ افتخار چیمہ کے 99191 ووٹوں کے مقابلے میں نوجوان چٹھہ نے 59878 ووٹ حاصل کئے (پاکستان تحریک انصاف کے شاہنواز چیمہ کے 11704 ووٹ تھے)۔
اور اب یہاں ضمنی انتخاب کا معرکہ درپیش تھا۔ حامد ناصر چٹھہ کا شمار ان خاندانی اور پیدائشی مسلم لیگیوں میں ہوتا ہے جو اپنی قبر کے لئے اس کتبے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں جس پر لکھا ہو کہ یہاں مسلم لیگ کا سچا اور پکا وفادار محو استراحت ہے۔ نصرت جاوید کے بقول حامد ناصر
چٹھہ نے بارہا ان کے سامنے سینہ پھلا کر دعویٰ کیا کہ وہ مرتے دم تک مسلم لیگی رہیں گے۔ اس جماعت کو چھوڑا تو اپنے والدِ مرحوم کی روح کے سامنے شرمندہ ہوں گے لیکن اب ضمنی انتخاب کے لئے انہوں نے اپنے صاحبزادے کو میدان میں اتارا تو اس کے ہاتھ میں عمران خان کی پی ٹی آئی کا ٹکٹ تھا، جس کے لئے خان بہ نفسِ نفیس احمد نگر تشریف لے گیا تھا۔ صاحبزادوں نے تو پی ٹی آئی جوائن کر لی تھی لیکن خود بڑے چٹھہ صاحب مسلم لیگی رہے۔ نوجوان احمد چٹھہ اپنے والدِ محترم سے مختلف مزاج کے حامل تھے، ورکر سے قریبی رابطہ اور عوام الناس سے گھلے ملے رہنا۔ اب خود بڑے چٹھہ صاحب بھی اپنے مزاج میں تبدیلی لے آئے تھے۔ انتخابی مہم میں وہ وزیرِ آباد شہر سمیت اس حلقے میں گلی گلی، کوچے کوچے جا رہے تھے، ایک ایک دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ خود عمران خان بھی انتخابی مہم میں شرکت کے لئے پہنچے اور نوجوان میں نیا جوش و جذبہ بھر گئے۔ کہا جاتا ہے شاہنواز چیمہ اب افتخار احمد چیمہ کے ساتھ تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے مخالفین اسے جی ٹی روڈ کی پارٹی کہتے ہیں اور یہ حلقہ بھی جی ٹی روڈ پر واقع تھا۔ ضمنی الیکشن میں ویسے بھی حکومتی جماعت کو مخالف امیدوار پر Edge حاصل ہوتا ہے۔ نواز شریف (اور ان کی مسلم لیگ) کی ذاتی مقبولیت کے علاوہ یہاں چیمہ فیملی کو اپنی نیک نامی کا بینفٹ بھی حاصل تھا۔ خود چیمہ صاحب نے بطورِ جج نیک نامی کے سوا کچھ نہیںکمایا تھا۔ ان کے برادرِ خورد ذوالفقار چیمہ کی جرأت و بہادری کی داستانیں بھی کم نہ تھیں۔ پولیس میں کتنے افسر ہوں گے جو ذوالفقار چیمہ کی مثال ہوں۔ گوجرانوالہ کا علاقہ تو بطورِ خاص ان کا ممنونِ احسان تھا کہ اسے انہوں نے ننھو گورایہ جیسے بدنام زمانہ بدمعاش سے نجات دلائی۔ ان تمام تر سازگار عوامل کے باوجود ضمنی انتخاب میں صرف 1669 ووٹوں سے فتح کیا واقعی ایسی ہے کہ اس پر جشن منایا جائے، شادیانے بجائے جائیں یا اسے الارمنگ bell سمجھ کر حقائق کا بے رحم تجزیہ کیا جائے؟