تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     27-03-2016

قیادت کے اہم اوصاف

دین معیشت ، معاشرت ، تہذیب ، حکومت ، سیاست ، عائلی اور اجتماعی زندگی کے تمام معاملات میں کامل رہنمائی کرتا ہے، اور انسانوں کو منشائے الہٰی سے پورے طریقے سے آگاہ کرتاہے۔ان معاملات میں سے ایک اہم معاملہ قیادت کے انتخاب کا بھی ہے۔ جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قائد کا پہلا اہم وصف یہ ہے کہ وہ صاحب علم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ مجادلہ کی آیت نمبر 11میں اہل علم کے درجات کو باقی لوگوں کے مقابلے میں برترقرار دیا، اس لیے کہ اہل علم اُن حقائق سے آگاہ ہوتے ہیں جن سے عام لوگ آگاہ نہیں ہوتے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں جہاں تخلیق آدم علیہ السلام کا ذکر کیا وہاں پر فرشتوں پر ان کی فضلیت کا سبب بھی بیان فرمایا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ میں بیان فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو بنانے کے فیصلہ کا اظہار فرشتوں کے سامنے کیا تو فرشتوں نے اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں کہا تھا کہ کیازمین پر ایسی مخلوق کو پید ا کیا جائے گا جو زمین پر فساد اور انتشار پیداکرے گی اور ایک دوسرے کا خون بہائے گی جبکہ فرشتے ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح ، حمدو تقدیس اور عبادات کرنے میں مشغول رہا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہا تھا ''بے شک میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ان کو جملہ اشیاء کے ناموں سے آگاہ فرمایا اور اس کے بعد ان اشیاء کے ناموں کے بارے میں فرشتوں سے استفسار کیا ۔فرشتوں نے ان اشیاء کے نام بتانے سے معذوری ظاہر کی اور اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کہا ہم تو اتنا ہی 
جانتے ہیں جتنا تونے ہمیں علم عطا فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر آدم علیہ السلام کو جملہ اشیاء کے نام بتانے کا حکم دیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام چونکہ ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے وہ تمام نام بیان فرما دیے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے علم کی فضیلت ثابت ہو جانے پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام زمین پر اللہ کے نبی ہونے کے ساتھ ساتھ زمین پر اس کی طرف سے مقرر کردہ خلیفہ بھی تھے۔ اس لیے ہمیں بھی اپنے ذہن میں اس بات کو رکھنا چاہیے کہ قائد اور رہنما علم سے آراستہ و پیراستہ ہو۔ 
علم کی فضیلت کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ یہ اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نعمت علم سے اپنے انبیاء کومالا مال فرما دیا ۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ان پیغمبروں نے چونکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کیا اس لیے ان کا علم ہر اعتبار سے قابل بھروسہ اور قابل اعتماد تھا۔ اس علم کے ذریعے انبیاء علیہم السلام نے حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی، ٹیڑھے اور سیدھے راستوں کے درمیان فرق کو واضح فرمایا اور انسانوں کو صحیح راستے پر چلنے کادرس دیا۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے بھی اس علم کی روشنی سے جزیرۃ العرب کو منور فرما دیا اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں جاہلیت کے اندھیروں اور تمام غلط رسم و رواج کو کلی طور پر ختم کر دیا گیا۔ آپ ﷺ کے جانشین بھی مادیت کے مقابلے میں علم ہی کی دولت سے بہرہ ور تھے ۔حضرت ابو بکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مثالی دور حکومت کا ان اکابرین کی علمی صلاحیتوں سے انتہائی گہرا تعلق ہے ۔خلفائے راشدین علم کی روشنی میں لوگوں کے درمیان فیصلہ فرماتے رہے ، اس لیے ان کے فیصلوں ا ور طرز حکمرانی میں ظلم اور ناانصافی کا معمولی سا شائبہ بھی نہیں تھا ۔
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حاکم اور قائدکے لیے علم کے ساتھ ساتھ طاقت کا ہونا بھی انتہائی ضروری 
ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میںحضرت شموئیل علیہ السلام کے عہد کا ذکر فرمایا کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے ان سے ایک بادشاہ کا مطالبہ کیا کہ جس کی قیادت میں وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں۔ اس پر حضرت شموئیل علیہ السلام نے انہیں بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس منصب کے لیے جناب طالوت کو چن لیا ہے ۔ بنی اسرائیل کے لوگ اس بات سے آگاہ تھے کہ جناب طالوت صاحب ِ ثروت نہیں ہیں ۔ انہوں نے جناب شموئیل علیہ السلام کے سامنے یہ خدشہ رکھا کہ جناب طالوت ہمارے حاکم کس طرح ہو سکتے ہیں جبکہ وہ صاحب مال نہیں ہیں ۔ اس موقع پر حضرت شموئیل علیہ السلام کا جواب تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب طالوت کو تم پر فضلیت دی ہے اوران کوعلم اور طاقت میں وسعت عطا فرمائی ہے ۔ اس صحیح انتخاب کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کے فضل سے بنی اسرائیل کے لو گ جناب طالوت کی قیادت میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن پر غالب آگئے ۔مسلمانوں کے اولین حکمران عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عسکری اور سیاسی اعتبار سے طاقتور بھی تھے۔ اس لیے غیر اقوام نے کبھی ان کے ادوار میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں بھی مسلمان حکمران طاقتور تھے اس لیے جب بھی کبھی مسلمانوں کی عزت اور وقار کو خطرہ لاحق ہو ا تو ان حکمرانوں نے مسلمانوں کی پشت پناہی کی۔محمد بن قاسم کی برصغیر میں آمد بھی درحقیقت ایک مسلمان بیٹی کی آبرو کو بچانے کے لیے تھی۔ اس کے برعکس دور حاضر میں ہمارے رہنماؤں کی کمزوری کی وجہ سے قوم اور ملت کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی ایک عرصے سے بے گناہی کے باوجود قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے۔ 
سورہ ص کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو عادل ہونا چاہیے، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی غلامی سے بھی آزاد ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کی تلقین کی ا ور اس کے ساتھ ساتھ خواہشات سے بچنے کا حکم بھی دیا۔ اگر حکمران خواہشات سے بچنے والا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ قوم کی خدمت کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر حکمران خواہش نفس کا اسیر ہو تو وہ اپنے اختیارات کو عوام کی فلاح وبہبود کی بجائے اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کو ہمیشہ مخلص، دیانت دار اور عادل شخص کو ہی بطور رہنما منتخب کرنا چاہیے۔ 
اگر قیادت کے انتخاب کے حوالے سے قرآ ن وسنت میں موجود اہلیت کو اہمیت دی جائے تو معاشروں کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ ایک صاحب علم عادل حاکم میںمسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت ایک بے علم یا کم علم بددیانت حاکم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
جب تک مسلمانوں کے قائدین اور امراء دینی اور دنیاوی علو م سے بہرہ ور اور ان علوم کی حوصلہ افزائی کرنے والے تھے اس وقت تک مسلمان معاشرے سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے دیگر معاشروں کے مقابلے میں بہتر اور طاقت ورتھے، لیکن جب مسلمانوں کے لیڈر علمی اعتبار سے کمزور ہو گئے اور قیادت کے انتخاب میں مادیت کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی تو مسلمان معاشرے سیاسی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو گئے ۔ ایک وقت تھا جب مسلمانوں کا حاکم عصری علو م میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا امام بھی ہوا کرتا تھا اور اس وقت مسلمان پوری دنیاکے حاکم اور قائد تھے ۔ علم سے دوری کی وجہ سے مسلمان رفتہ رفتہ پستی اور زوال کا شکار بھی ہوتے چلے گئے ، اس زوال سے نجات حاصل کرنے کا موثر ترین ذریعہ علم کی ترویج ہے ۔ اگر ہمارے حکمران اور معاشرے مادہ پرستی کی بجائے علم کی طلب کے راستے پر چل نکلیں تو اخلاقی اور سیاسی عروج کے ساتھ ساتھ انہیں مادی عروج بھی خود بخود حاصل ہو جائے گا ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved