تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     28-03-2016

نئے معمولات

این اے 101 کے حالیہ دنوں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی ایم ایل (ن) کے افتخار چیمہ نے پی ٹی آئی کے احمد چٹھہ کو تین ہزار ووٹوں سے شکست دے دی۔ ہو سکتا ہے آپ کہیں کہ کیا یہ کوئی بڑی خبر ہے؟ یقیناً ہے، کیونکہ اس انتخابی نتیجے کے بعد دھاندلی کے الزامات کی بوچھاڑ ہوئی نہ دھرنے کی دھمکی دی گئی اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے ممبران سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا؛ حالانکہ یہ ہمارے ہاں انتخابی نتائج کے بعد کا ایک معمول رہا ہے۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ٹی وی اینکرز نے اسے عملی طور پر نظر اندازکر دیا۔ کیا یہ ایک انقلابی تبدیلی نہیں کہ میڈیا نے اس الیکشن کی جنونی کوریج سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اسے معمول کی سرگرمی سمجھا؟ ایسا لگتا ہے ہماری سیاست اور برقی صحافت بلوغت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ 
قارئین جانتے ہیں میں گاہے اپنے وطن پاکستان آتا رہتا ہوں‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس مرتبہ فضا ہنگامہ آرائی سے تہی، بے کیف اور اکتاہٹ سے بھرپور ہے۔ نہ تو کراچی میں ایم کیو ایم کے طرف سے شہر کو ''آن یا آف‘‘ کرنے کا پیہم سلسلہ دکھائی دیا نہ پارلیمنٹ کے باہر دھرنے، نہ شعلہ بیانی اور نہ ہی خدا آپ کا بھلا کرے، دہشت گردوں کے حملے۔ کیا یہ کوئی نیا معمول ہے؟ کیا ہم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں‘ جب سیاسی معاملات ہمارے جذبات کو برانگیختہ نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ جنرل مشرف کے
ملک سے باہر جانے پر میڈیا یا سوسائٹی میں ہلکی سی تھرتھراہٹ بھی محسوس نہ ہوئی۔ ہاں، پارلیمنٹ میں پی پی پی کی قیادت میں اپوزیشن نے واویلا کر کے حکومت کو شرمندہ کیا، لیکن صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ نورا کشتی یا ''میچ فکسنگ‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ چند سیاسی رہنمائوں کو چھوڑ کر باقی معاشرے نے مشرف کی روانگی کی خبر ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی۔ کسی کے دل کی دھڑکن برہم ہوئی نہ کسی کی پیشانی شکن آلود‘ کیونکہ مشرف ملکی سیاست میں اتنے غیر اہم ہو چکے ہیں کہ اُن کی ملک سے غیر حاضری کو کسی نے بھی محسوس نہیں کیا اور غالباً کوئی کرے گا بھی نہیں۔
کچھ ٹی وی پروگراموں نے ''ملک سے آمر کے فرار‘‘ پر دہائی دیتے ہوئے درجہ حرارت بڑھانے کی کوشش کی‘ لیکن قیاس اغلب ہے کہ قارئین نے وہ چینل تبدیل کرتے ہوئے T20 ورلڈ کپ کا میچ دیکھنے کو ترجیح دی ہو گی، لیکن پاکستانی ٹیم کی بلا تاخیر ''گھر واپسی‘‘ کے بعد اکثر قارئین کو سپورٹس چینل سے بھی دلچسپی نہیں رہی ہو گی۔ آخر قوم کب تک آفریدی اینڈ کمپنی کے لیے اپنا خون جلائے؟ ایک دوست جو مقبول اخبار کے مدیر ہیں نے اگلے دن لنچ پر کہا کہ اداریے لکھنے کے لیے موضوعات تلاش کرنے میں دقت ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ پاکستانی سیاست سے بحرانوں کا روٹھ جانا ہے۔ میں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ موضوع کی تلاش میں تبدیلی کی خاطر پاکستان سے باہر کی دنیا میں جھانکیں۔ درحقیقت عالمی پریس میں بھی پاکستان کے حوالے سے بہت کم خبریں ہوتی ہیں۔ ملکی سیاست پر ایک طائرانہ نظر دوڑاتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے شعلہ فشاں قائد عمران خان پر یہ تلخ حقیقت عیاں ہو گئی ہے کہ وہ 2018ء سے پہلے وزیر اعظم نہیں بن سکتے؛ چنانچہ اُنھوں نے این اے 101 میں شکست پر اپنا روایتی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم بھی اداروںکے دبائو اور آپریشن کی وجہ سے احتجاج کرنے کے قابل نہیں۔ مصطفی کمال اس کی صفوں میں دراڑیں ڈال رہے ہیں، لیکن اس کی طرف سے کسی قابل ذکر مزاحمت یا رد عمل کا اظہار نہیں کیا جا رہا۔ چونکہ ٹی وی چینل بھی خاموش ہیں، اس لیے عوام نے بھی سکون کا سانس لیا ہے۔ 
جب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو عدالت کی طرف سے ملنے والی سزا پر عمل درآمد کرایا گیا تو کچھ مظاہرے ہوئے، کچھ مساجد میں تقاریر کی گئیں، شعلہ بیانی دیکھنے میں آئی، پوسٹر لگ گئے لیکن مجموعی طور پر زندگی کا سفر جاری رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ایسے پُرسکون پانیوں میں پہنچ گئے ہیں جہاں سیاسی حرکیات کی لہریں میڈیا میں ہیجان برپا نہیں کرتیں۔ تو پھر پتلی تماشا کرنے والے ماہرین کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ان قوتوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ آئے روز حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا الٹا ردعمل ہوتا ہے۔ اور پھر مشرف کی بیرون ملک روانگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بدمزگی پیدا کیے بغیر جی ایچ کیو سویلینز سے اپنی بات منوا سکتا ہے۔ تو جو بات صلح صفائی سے ہی ہو جائے اُس کے لیے ٹی وی اینکروںکے ذریعے ہنگامہ برپا کرنے کی کیا ضرورت؟ 
اگر یہ کوئی نیا معمول ہے تو بلند آہنگ انداز میں محفل گرمانے والے ٹی وی چینل ان مدھم سروں سے کیا رونق لگائیں گے؟ عادی گوشت خور پھیکی سبزیوں پر کیسے اکتفا کر سکتے ہیں؟ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے ناظرین اب تفریح کے لیے کسی اور طرف دیکھنا شروع کر دیں۔ ایسا لگتا ہے میں رجائیت کی طرف کچھ زیادہ ہی مائل ہوتا جا رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے یہ سکوت عارضی ہو اور ہمارے گھرکی رونق بالآخر ایک ہنگامے پر ہی موقوف ہو۔ T20 ورلڈ کپ ختم ہونے پر ٹی وی پر مباحثے کے پروگرام اپنا رنگ جمائیں گے اور سب جانتے ہیں کہ ''ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘۔ میرا خیال ہے کہ ٹی وی چینلوں سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ اپنے قیمتی وقت کا کچھ حصہ تعلیم ، صحت، ماحول اور آبادی کے مسائل کے لیے مختص کریں گے۔ اگر میڈیا سیاسی معاملات پر شغل لگائے رکھنے اور حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کاوش کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بننے کی بجائے عوام کو سماجی مسائل سے آگاہ کرے اور فعالیت کے لیے حکومت پر دبائو ڈالے تو اس سے ملک و قوم کی بھلائی بھی ہو گی اور میڈیا کا وزن بھی بڑھے گا۔ 
اس وقت سب سے پریشان کن خبریں امریکہ سے آ رہی ہیں جہاں ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافے کا رجحان دکھائی دیتا ہے۔ داعش کی یورپ میں بڑھتی ہوئی کارروائیاں بھی ٹرمپ جیسے رہنمائوں کے موقف کو تقویت دیتی ہیں؛ چنانچہ عالمی سطح پر پاکستان کے صحافی دوستوں کے لیے بہت سی خبریں ہیں، فی الحال پاکستان کے بارے میں کوئی خاص خبر نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved