تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     28-03-2016

بغل کی چُھری

جس وقت پاکستان میں امن کی آشا عروج پر تھی، تب بلوچستان میں ممبئی کا رہنے والا کلبھوشن یادیو خاموشی سے داخل ہوا۔ ہمارے ''عظیم‘‘ پڑوسی اور ''برادر‘‘ اسلامی ملک افغانستان اور کبھی ایران کے راستے 'را‘ کا نیول کمانڈر حقِ ہمسائیگی ادا کرنے آیا۔ امن کی آشا کے بینر تلے پڑوسی ملک کی جاسوس ایجنسی کا یہ فیلڈ آپریٹر تین مقاصد کے لئے بھیجا گیا۔
پہلا یہ کہ بلوچستان میں اجتماعی قتل کی وارداتیں منظم کروائے۔ ریکارڈ گواہ ہے‘ ان وارداتوں کا نشانہ پنجاب سے جانے والے نچلے درجے کے ہنرمند نائی، موچی، ترکھان اور روڑی کوٹنے والے دیہاڑی دار مزدور بنے۔ بھارت کے ذہن نے یہ ٹارگٹ ''تاک‘‘ کر چُنے۔ بھارت جانتا ہے کہ بااثر بلوچ حضرات کی بڑی تعداد پنجاب میں بھی آباد ہے۔ بھارتی نیتاؤں کا خیال تھا‘ جونہی پنجابی مزدوروں کے لاشے وہاں پہنچیں گے پنجاب میں تصادم شروع ہو جائے گا‘ لیکن بھارت کی یہ سازش ناکام ہوئی۔
کلبھوشن یادیو کا دوسرا ٹاسک بلوچستان کے اندر تاثر دینا تھا کہ آبادی کا کوئی حصہ آزادی کا طلب گار ہے۔ اس لئے بھوشن نے کفر کے ماتھے پر اسلام کا محراب سجایا۔ اپنا نام بھوشن یادیو سے حسن بلوچ میں تبدیل کیا‘ اور یوں بلوچستان کو نیا بنگلہ دیش بنانے کی ناکام ''سعی‘‘ کرتا رہا۔ تفتیش کاروں کو معلوم ہوا ہے کہ اُس نے جعلی شناخت کے لئے کئی نام تبدیل کیے۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ جب اس نے اپنا نام حسن بلوچ رکھا‘ حسین مبارک یا پٹیل رکھا تو تب اس نے باپ کا نام شناختی کاغذات میں کیا لکھوایا؟
اس کا تیسرا ٹاسک پاکستان کی سٹریٹیجک تنصیبات پر حملے کروانا تھا۔ اب بھوشن یادیو صحیح جگہ پر پہنچا ہے‘ جہاں سے اسے پاکستان کے خلاف جنگ کرنے، ملک توڑنے کی سازش، دہشت و وحشت گری اور دشمنانہ جاسوسی کے الزامات کا ٹرائل کرنے والی عدالت میں فوراً بھجوایا جائے۔ دہشت گردی کی عدالتوں میں جج درست اور جلد فیصلہ کرنے کا حلف لیتے ہیں۔ قانون کہتا ہے 8 دن میں ایسے مقدمے کا فیصلہ کریں۔ پاکستانی قوم بھی چاہتی ہے کہ ہمارے قانون کے ادارے اور انصاف کے ایوان پاکستان توڑنے والوں اور دشمن ملک کے کارندوں کو عدل گاہوں سے عبرت کی مثال بنائیں۔
اس ملزم کا متعلقہ عدالت سے فوری ٹرائل کروانے کی دو وجوہ اور بھی ہیں۔ پہلی وجہ بھوشن یادیو جیسی ''ہائی پروفائل‘‘ گرفتاری کے باوجود حکومتِ پاکستان کے بڑوں کی خاموشی ہے۔ ان میں سے پہلا ملک کا چیف ایگزیکٹو‘ دوسرا وزیرِ خارجہ اور تیسرا ایڈہاک وزیر دفاع ہے۔ اس خاموشی پر بہت انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور وہ بھی جائز طور پر کیونکہ اس سے پہلے سرجیت سنگھ کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا گیا تھا۔ اسے بھی عدالت نے بھرپور ٹرائل کے بعد قانونی سزا سنائی تھی۔ اس بھارتی جاسوس کے جرائم کی فہرست بڑی خوفناک اور طویل تھی۔ اُس نے پا ک سرزمین کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔
امن کی دعویدار برانڈ بھارتی لابی نے مہم شروع کی‘ جس کے نتیجے میں کمزور سیاسی قیادت اور بے سِمت ایگزیکٹو اتھارٹی پسپا ہو گئی۔ سرجیت سنگھ واہگہ بارڈر تک معصوم شہری کی ایکٹنگ کرتا رہا۔ ضعیف اور بیمار نظر آنے کا ڈرامہ بھی کیا‘ لیکن جونہی اس نے اٹاری سے بھارت کی سرزمین پر پہلا قدم رکھا‘ وہ پھر سے جوان ہو گیا۔ اس نے چھاتی پر ہاتھ مار کر کہا‘ میں انڈین جاسوس تھا‘ جاسوس ہوں اور انڈین جاسوس رہوں گا۔ آگے بولا: میں نے اپنے ملک کے لئے قید کاٹی اور جو کچھ پاکستان کے اندر کر سکتا تھا‘ بالکل درست کیا۔
تازہ مثال دیکھ لیں ۔ہمارے حکمرانوں نے پاکستانی سمندروں کے اندر آ کر مچھلیوں اور ماہی گیروں کے حق پر ڈاکہ مارنے والے بھارتی چوروں کو بڑی تعداد میں رہا کیا۔ ان بے توازن اور بے تُکی رہائیوں کا جواز یہ بیان کیا گیا کہ اس کے بدلے بھارت میں قید بے گناہ پاکستانی رہا ہوں گے‘ مگر اب تک بچوں سمیت پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھارتی جیلوں میں جسمانی تشدد کا شکار ہے۔ ساری دنیا کے مہذب معاشروں میں ریاستی مفادات پہلے اور کاروباری تعلقات بعد میں دیکھے جاتے ہیں۔ کاروبار ٹھپ بھی ہو سکتا ہے‘ ذاتی تعلقات مفادات کے ساتھ تبدیل بھی‘ لیکن ریاست نے زندہ رہنا ہے اس لئے وہ مستقبل پر نظر رکھ کر پالیسی بناتی ہے۔
بلوچستان سے پکڑے گئے اعلیٰ ترین بھارتی افسر کا معاملہ روٹین کے جاسوس کی گرفتاری نہیں۔ اس درجے کے افسر کی گرفتاری ثابت کرتی ہے کہ بھارت نے بلوچستان کے لئے ''بڑا پلان‘‘ تیار کیا ہے۔ یہ بھی بڑے پلان کا ہی حصہ تھا کہ بڑے افسر کو افغانستان کی بجائے ایران میں بیٹھ کر ''آپریٹ‘‘ کرنے کا ٹاسک ملا۔ کچھ بھارت نواز اقتدار پرست آوازیں ہماری سلامتی کے خلاف اس ''گریٹ گیم‘‘ کو سفارتی مسئلہ کہہ رہی ہیں۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے‘ جی نہیں۔ یہ فوجداری مقدمات کا مجموعہ ہے۔
یادیو کے خلاف آرمی ایکٹ سمیت انسدادِ دہشتگردی کے قانون اور تعزیراتِ پاکستان کے تحت ٹرائل ہوں گے۔ ایسے ٹرائل کا فورم یا تو ملٹری کورٹ ہے‘ یا انسدادِ دہشتگردی کی عدالت۔ تحقیق اور تفتیش کے بعد اس مقدمے کو ایک دن کے لئے بھی لٹکانا مناسب نہیں۔ ریاست کے خلاف کام کرنے والے غیر ملکی ایجنٹ کو فوراً انجام تک پہنچایا جائے۔ ساری دنیا ایسا ہی کرتی ہے۔ سلامتی پر سیاست اور سازش پر سفارت کاری‘ دونوں کی اجازت نہیں۔ 
بھوشن یادیو ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ پہلا ٹیسٹ اس بات کا کہ اتنے لمبے عرصے تک وہ ہماری سرزمین پر تخریب کاری کے لئے ایران و افغانستان کا بارڈر کراس کرتا رہا۔ کیا اس کی تحقیقات ہو گی؟ مزید کتنے بھوشن یادیو مظلوم مسلمان بن کر چمن اور تافتان کا بارڈر کراس کرتے ہیں۔
بلوچستان حکومت کو چاہیے کہ وہ دستیاب تفصیلات پر صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلائے۔ تفصیلی ان کیمرہ بریفنگ کے ذریعے معلومات صوبائی نمائندوں سے شیئر کرے‘ اور ثبوت کا کھوج لگانے کے لئے سب سے ممکنہ مدد کی درخواست بھی۔ پاکستان سارے پاکستانیوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ اس کا تخفظ سب کی مشترکہ ذمہ داری۔
موجودہ تناظر میں ایک بات طے ہے۔ یہی کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات روٹین کے پڑوسیوں جیسے کبھی نہیں ہو سکتے۔ آپ بھارت کے جس شہر اور جس طبقے میں بھی جائیں سب کا سرکاری ''منترا‘‘ ایک ہے۔ وہی منترا جو ہماری''بھولی سرکار‘‘ بھی اکثر پڑھتی ہے۔ ہم سب ایک ہیں۔ حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں‘ کیونکہ نہرو سے مودی تک سب واہگہ کی خونیں لکیر کو مصنوعی قرار دیتے ہیں۔ دو قومی نظریہ ہر دور کی بھارتی لیڈرشپ کے کلیجے میں چُھری کی طرح پیوست رہا‘ اسی لئے بھارت کی حکمران اشرافیہ اور خاکی اسٹیبلشمنٹ منہ سے رام رام کرنے سے بھی بہت پہلے، چھُری بغل میں رکھ لینا نہیں بھولتی۔
بھوشن یادیو بکریاں چرانے والا بچہ نہیں جو بھول کر بارڈر کراس کر بیٹھا۔ یہ پاکستان دشمن بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ادارے (Research Analysis Wing) المعروف ''را‘‘ کے ساتھ ساتھ انڈین مسلح فوج کا کمانڈر بھی ہے۔ ایشیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ امن کے زمانے میں کسی فوج کا کمانڈر پڑوسی ملک کی سرزمین پر تخریب کاری کرتے پکڑا گیا۔
کیا امن کی آشا پر اب بھی کوئی شک باقی ہے؟؟
زبانوں پر خدا کا نام ہو گا
دلوں میں جلوہ￿ اصنام ہو گا
شہیدوں کا لہو نیلام ہو گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved