سِٹرس کے پودے کافی دنوں سے پھُولے ہوئے ہیں اور مجھے ان پر پھل لگنے کا شدت سے انتظار ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس کی جتنی جلدی مجھے ہے‘ پودوں کو نہیں ہے‘ حالانکہ اگر اب پھل آتا بھی ہے تو اس کے تیار ہونے میں ابھی مزید نو دس ماہ درکار ہوں گے لیکن مجھے پھلوں سے اتنا ہی سروکار ہے کہ آنکھوں کو بھلے لگیں گے ورنہ بازار سے بے انتہا دستیاب ہوتے ہیں‘ میں تو ان کے تیار ہونے کے بعد بھی حتی الامکان انہیں اترواتا نہیں ہوں جب تک باقاعدہ گرنے نہ لگ جائیں۔ پیڑوں کی موجودگی اور سبزے کی صُحبت بلاشبہ اللہ میاں کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن ہم اس پر غور کرتے نہ شکر ادا کرتے ہیں۔ سُرخاب صاحب کچھ کچھ بے تکلف ہوتے جا رہے ہیں کہ بعض اوقات انیکسی کے سامنے پختہ فرش پر بھی براجتے اور مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں‘ یعنی ع
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
دو چڑیوں کا ذکر یہاں پر بے حد ضروری ہے ایک تو وہ جو چند روز پہلے تار پر بیٹھی تیز بارش میں نہا رہی تھی۔ تیز ہوا میں ساتھ ساتھ جھولتی بھی جا رہی تھی اور تار کو بھی مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی۔ یہ بالکل سیاہ رنگ کی تھی یعنی کوئل سے چھوٹی اور پدّی سے ذرا بڑی‘ حالانکہ اکثر پرندے پانی کی تیز بوچھاڑ میں کم کم ہی باہر نکلتے ہیں۔ میں کھڑکی کے شیشے میں سے اُسے مسلسل دیکھ رہا تھا اور یقین تھا کہ وہ بھی مجھے دیکھ رہی ہے‘ ویسے فاصلہ بھی دو فٹ سے زیادہ کا نہ تھا۔
دوسری چڑیا البتہ اس سے بھی قریب یعنی شیشے کے ساتھ ہی آ کر بیٹھ گئی‘ رنگ اس کا بھی سیاہ تھا لیکن اس کی پشت کے پر فیروزی رنگ کے تھے۔ اس سے پہلے میں نے ایسی چڑیا کبھی نہیں دیکھی۔ شاید اس نے بھی مجھے پہلی بار ہی دیکھا ہو۔ یہ سائز میں ہماری عام چڑیا سے ذرا چھوٹی اور اس کی چونچ پتلی اور لمبی تھی اور میرا خیال ہے کہ خدا پر یقین کرنے کے لیے یہ چڑیا ہی کافی تھی کہ اُس نے خبر نہیں کہاں بیٹھ کر ایسی چیزیں بنائی ہونگی۔ بیٹھ کر کیا‘ اس نے کُن کہا ہو گا اور مطلوبہ چیز بن گئی ہو گی۔ تیسری بڑی نعمت یعنی پھولوں کا ذکر تو رہ ہی گیا۔ گلاب کے پودوں پر خزاں نہیں آتی۔ اس کی کئی قسمیں اور کئی رنگ ہیں اور کسی نہ کسی قسم پر پھول موجود ہی رہتے ہیں۔ سبز پتوں کے پس منظر میں سُرخ پھول باقاعدہ ایک قیامت کا سین پیش کرتے ہیں۔ ان پر سے آپ سرسری گزر ہی نہیں سکتے کہ یہ آپ کو خود روک لیتے ہیں اور اس کے لیے کچھ زیادہ جگہ بھی درکار نہیں ہوتی۔ گھر کے ایک کونے میں اسے گملے کے اندر بھی اُگایا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ جو چیزیں میں نے گنوائی ہیں ان کے لیے کسی وسیع رقبے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے اندر ان کی طلب ہونی چاہیے‘ یہ کسی نہ کسی طور مہیا ہو ہی جاتی ہیں۔
اللہ میاں کی ایک اور نعمت یعنی تازہ اور صاف ہوا۔ اس کے لیے بھی جگہ کی کوئی قید نہیں‘ گھر سے باہر ہوں تو اس سے بھی ملاقات ہو ہی جاتی ہے۔ کچھ دنوں سے اس کے اندر تازگی کے علاوہ ٹھنڈک بھی ہے کیونکہ موسم بدلتے بدلتے گویا پھر ٹھہر گیا ہے۔ گہرے بادل نہ بھی ہوں اور آسمان محض ابرآلود ہو تو بھی ہوا میں ایک دلپسند خنکی آ جاتی ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ بھی مال مفت ہے‘ اگرچہ پانی مال مفت نہیں ہے کیونکہ شہروں میں تو یہ باقاعدہ خریدنا پڑتا ہے جو خالص اور صاف بھی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ جس بیدردی سے ہم اسے استعمال اور ضائع کر رہے ہیں اس کا خمیازہ ہمیںبھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ زیرزمین پانی کی سطح روز بروز کم ہو رہی ہے جو کسی وقت بھی جواب دے سکتی ہے۔
زندگی بہت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ خوش بھی ہوں کہ کوئی جھنجھٹ‘ کوئی چھوٹا بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ اگرچہ خطر پسندطبیعت کو ان کا سازگار ہونا بھی ایک عجیب سی بات ہے لیکن عمر کے ساتھ ایک ٹھہرائو بھی آ جاتا ہے اور یہ ٹھہرائو اگر پرسکون بھی ہو تو یہ بھی اللہ میاں کی خاص نعمتوں میں سے ہے۔ اخبار پڑھنا‘ ٹی وی دیکھنا‘ کالم لکھنا‘ کسی شعر کی ٹانگ توڑنا‘ کوئی کتاب‘ رسالہ دیکھ لینا اور واک کرنا‘ یہی مستقل وظیفے باقی رہ گئے ہیں‘ اور کافی سے زیادہ ہیں۔ بچوں کے ساتھ میل ملاقات البتہ مصروفیت نہیں‘ باقاعدہ عیاشی کی ذیل میں آتا ہے کبھی کسی دوست کی شکل نظر آ جاتی ہے یا کسی محفل میں شرکت‘ کتابوں کی اشاعت ایک الگ مصروفیت‘ ابھی ابھی محب مکرم سید انیس شاہ جیلانی کا فون آیا۔ ''آدمی غنیمت ہے‘‘ کے اقتباسات ہفتہ وار باقاعدہ چھپنے پر بہت خوش تھے۔ آدمی کا قلم تو ہمیشہ رواں رہتا ہے‘ میں نے کہا‘ آپ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟۔ کہنے لگے کہ ریڑھ کی ہڈی میں مسئلہ ہے‘ بیٹھ نہیں سکتا‘ میں نے کہا کسی کو ڈکٹیٹ کروا کے لکھوا دیا کریں۔ کہنے لگے یہ بھی اب ممکن نہیں رہا۔ بہرحال‘ جتنا اور جیسا کچھ لکھ چکے ہیں وہ بھی کچھ کم یادگار نہیں ہے۔ ادھر میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ریڑھ کی ہڈی وغیرہ سلامت ہے اور اپنی حواس باختگی کے باوجود لکھ رہا ہوں اور لوگ برداشت بھی کر رہے ہیں‘ اور یہ فضا سازگار دیکھیے کب تک رہے۔
فون پر غلط یا صحیح ‘یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ اکادمی ادبیات والے اگلے ماہ جو سالانہ کانفرنس کروا رہے ہیں‘ اُس کے اخراجات کے لیے انہوں نے حکومت سے ایک کروڑ روپے مانگے تھے جو نہیں ملے اور مجبوراً انہیں معذور ادیبوں کو دی جانے والی امداد کے فنڈ میں سے نوے لاکھ روپے نکلوانا پڑے ہیں اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آئندہ کافی عرصے تک یہ امدادی سلسلہ بھی معطل رہے گا۔ خدا کرے یہ اطلاع غلط ہو! اور اب اپنی منجھلی بہو‘ جو میری بھانجی بھی ہیں‘ کی فرمائش پر ان کی یہ پسندیدہ غزل :
شعر کہنے کا بہانہ ہُوا توُ
میری جانب جو روانہ ہُوا توُ
دُھول اور دُھوپ کے اِس موسم میں
دل پہ تنبُو سا یہ تانا ہُوا توُ
مہربانی ہوئی مُجھ پر تیری
ورنہ بے مہر تھا مانا ہُوا توُ
ہوئیں ناکامیاں میری آغاز
جب مرے شانہ بشانہ ہُوا توُ
اجنبی بن گیا پہلے کی طرح
دیکھا بھالا ہُوا‘ جانا ہُوا توُ
میں نے چھُو کر نہیں دیکھا تُجھ کو
میرے اندر ہی پُرانا ہُوا توُ
کہیں گُم ہو گئی آواز تری
یوں حقیقت سے فسانہ ہُوا توُ
رو سکا ہوں نہ تُجھے گاہی سکا
کوئی نوحہ ‘نہ ترانہ ہُوا توُ
نہیں موجود ظفر اپنی جگہ
ہے کہیں اور ‘زمانہ ہُوا توُ
آج کا مطلع
یہ شہر چھوڑ دے کہ شرافت اسی میں ہے
رسوائے شہر! اب تری عزت اسی میں ہے