یہ میری کتاب ''کائنات میں ایک آدم‘‘ کے اقتباسات ہیں۔ اللہ کو منظور ہوا تو دو ماہ میں یہ مکمل ہو جائے گی ۔
''آدمی نے انسان کے علاوہ دیگر زندہ اشیا پہ ایک نگاہ ڈالی۔ ان کی تعداد کئی ملین تھی۔ بعض کے نزدیک گیارہ ملین (ایک کروڑ دس لاکھ )، کچھ کے نزدیک پانچ ملین (پچاس لاکھ)۔ یہاں پچاس لاکھ جانداروں کا نہیں، پچاس لاکھ جاندار اقسام یعنی انواع کا ذکر ہو رہا ہے۔ آج کرۂ ارض کا چپہ چپہ انسانوں سے اٹا ہوا ہے۔ پھر بھی یہ سات ارب انسان پچاس لاکھ میں سے صرف ایک نوع ہیں! یہاں آدمی کا دل دھک سے رہ گیا۔ اسے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ جس انسان کی عظمت پر تحقیق کرنے وہ نکلا ہے، وہ پچاس لاکھ میں سے ایک ہے۔ عین اس وقت اس کی نگاہ نالی میں تیرتے ہوئے ایک مکروہ کیڑے پہ پڑی۔ یہ سوچ کر اسے متلی سی ہونے لگی کہ پچاس لاکھ میں سے دوسرا وہ ہے۔ اس نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا۔ بندر، بلّی، ہاتھی، بچھو، سانپ... تیسرا، چوتھا، پانچواں، چھٹا اور ساتواں۔ اپنی اس بے توقیری پہ اس کی آنکھ میں نمی تیرنے لگی۔
.........
زندگی کر ۂ ارض کے چپے چپے پر موجود ہے۔ زمین کے اوپر اور نیچے (شمال اور جنوب) میں انتہائی سردی ہے۔ جنوب میں تو ایک پورا برّاعظم (انٹارکٹکا) ہی برف سے اٹا ہوا ہے۔ اوسطاً دو کلومیٹر برف سے ڈھکے ہوئے اس براعظم میں بھی زندگی پائی جاتی ہے۔ یہاں درجۂ حرارت منفی ساٹھ سے منفی نوّے سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ کوئی مستقل انسانی آبادی موجود نہیں۔ پھر بھی یہاں بیکٹیریا اور دیگر یک خلوی جاندار ہی نہیں، پودے، پینگوئن اور سیل جیسے پیچیدہ جانور بھی ملیں گے۔ یہی صورتِ حال شمالی برف زاروں (آرکٹک) کی ہے۔ آپ دنیا کے گرم اور خشک ترین مقامات پر جائیے، اگر پیچیدہ جانور نہیں تو کسی پتھر کی تہوں میں سادہ یک خلوی جاندار تو بہرحال مل ہی جائیں گے۔
اپنی ڈائری میں آدمی نے لکھا: ''زندگی بہت سخت جان ہے‘‘۔
.........
آدمی نے دیکھا کہ جاندار جوڑوں کی شکل میں زندگی گزار رہے تھے۔ ہر جاندار اپنی نوع کی مخالف جنس میں کشش محسوس کرتا ہے۔ بعض، جیسا کہ شیروں میں طاقتور نر گروہ کی قیادت کرتے۔ بعض، جیسا کہ شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں میں مادہ۔ سبھی میں اولاد کی حفاظت کے کچھ اصول کارفرما تھے۔ بلی سے لے کر انسان تک، سبھی ان اصولوں کی پاسداری کر رہے تھے۔
اپنی ڈائری میں آدمی نے یہ لکھا: گو کہ انسان ممتاز ہے لیکن باقی بھی جی رہے ہیں۔ وہ پیدا ہوتے، اپنی ضروریات پوری کرتے، نسل بڑھاتے اور مر جاتے ہیں۔ انسان گو بے حد مختلف ہے لیکن وہ بھی پیدا ہوتا، اپنی ضروریات پوری کرتا، نسل بڑھاتا اور مر جاتا ہے۔ اس نے لکھا: یہ بات حیرت انگیز ہے کہ عقل سے محروم جانور بھی زندگی گزارنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔
آدمی آزردہ اور دل گرفتہ تھا۔ انسان کی یہ کمتری اس کے وہم و گمان سے بھی باہر تھی۔ اس کے باوجود سچائی پہ قائم رہتے ہوئے اس نے یہ لکھا: اپنی بے بہا عقل سے انسان نے اپنی زندگیوں کو آسانیوں، آسائشوں سے بھر لیا ہے۔ ہم پانی پہ تیرتے، ہوا میں اڑتے ہیں۔ ہر طرح کی لذیذ اشیا کھاتے، خوراک ذخیرہ کرتے، مضبوط عمارتوں میں رہتے ہیں۔ ہم اعضا کی پیوند کاری کرتے، کیمیکلز (ادویات) سے بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن عقل سے کام لے کر اپنی زندگیاں ہم جس قدر بھی سہل اور پُرآسائش بنا لیں، اس کے باوجود دیگر جاندار انواع کی طرح، انسان بھی بوڑھے ہوتے اور مر جاتے ہیں۔ ''یہ ایک بہت اذیت ناک سچائی ہے‘‘ اس نے لکھا ''جہاں تک موت کا تعلق ہے، انسان دوسرے جانداروں سے قطعاً مختلف نہیں‘‘۔
.........
انسان کی منفرد خصوصیات، جن کی بنا پر وہ اس قدر کامیاب و کامران ہوا، وہ ہر چیز کو ایک نام دینا ہے۔ ایک بلّی یا کتا لوہے کو سونگھ کر چھوڑ دے گا کہ یہ کھائے جانے کے قابل نہیں۔ خوش قسمتی سے انسان ان چیزوں کو سونگھ کر نہیں چھوڑتا، جو فوری طور پر کھائے جانے کے قابل نہ ہوں۔ وہ سونگھنے اور دیکھنے کے علاوہ چیزوں کی مختلف خصوصیات پہ غور بھی کرتا ہے۔ وہ ان سے مثبت اور منفی دونوں طرح کے فائدے اٹھانے پر غور کرتا ہے۔ مثلاً پہلے انسان نے جب لوہا دیکھا ہو گا تو اس کی مضبوطی پہ غور کیا ہو گا۔ یہی نہیں، وہ کسی بھی شے کی مفید اور مضر خصوصیات سے اپنے خاندان اور قبیلے کو آگاہ کرتا ہے۔ ہر چیز کو ایک نام دینا، اس کی مثبت اور منفی خصوصیات کا جائزہ لے کر دوسروں کو بتانا، یہی وہ بنیاد ہے، جس پر آج کی تمام انسانی ترقی، اس کی شان و شوکت کھڑی ہے۔
چیزوں کو نام دینے میں انسان اس قدر ماہر تھا کہ اس نے اپنے منہ سے نکلنے والی ہر آواز کو بھی ایک نام دیا۔ اس نے مٹی پر انگلی سے بنائی جانے والی ہر شکل کو بھی ایک نام دیا۔ انہی دونوں چیزوں سے بعد ازاں زبان نے جنم لیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر خطۂ ارض کے انسان نے اپنی ایک زبان تشکیل دی۔
آج ہم نظامِ شمسی کے مختلف سیاروں پہ اترنے والے مشن دیکھیں یا زمین کے اندر سے نکالی جانے والی معدنیات کو، اعضا کی منتقلی دیکھیں یا تھری ڈی پرنٹر سے اشیائے استعمال کی تخلیق، یہ سب انہی دو بنیادی انسانی خصوصیات کا نتیجہ ہے۔ انہی سے جہاز بنے اور انہی سے ایٹم بم۔ نام دینے میں انسان اس قدر ماہر ہے کہ اس نے ہر سمت کو بھی ایک نام دیا ہے۔ پہلی اور چودہویں کے چاند کو اس نے ہلال اور بدر کا نام دیا ہے۔ نظامِ شمسی کے ہر سیارے اور اس کے ہر چاند کو مختلف نام دیے۔ اس نے اپنی کہکشاں کو اور دوسری کہکشائوں کو نام دیے۔ جب اس نے ایک نادیدہ چیز کے گرد بہت سے سورجوں کو گھومتے دیکھا تو اسے بلیک ہول کا نام دیا۔ اس نے موسموں کو نام دیے۔ ہر موسم کی خصوصیات کا جائزہ لیا۔ دوسروں کو اس بارے میں بتایا۔
باپ، بیٹا، ماں، بیٹی، بیوی، بہنوئی، غرض یہ کہ ہر رشتے کو انسان نے ایک نام دیا۔ انسانوں کی ہر آبادی نے اپنے قبیلے، شہر، ملک اور سلطنت کا ایک نام رکھا۔ دشمن کا ایک نام رکھا، دوست کا دوسرا نام رکھا۔ زیرِ زمین ہر دھات کا نام رکھا۔ سانپوں کی ہر مختلف قسم کو اس نے الگ نام دیا۔ ہر رستے، ہر سڑک، ہر مفید اور ہر مضر چیز، حتیٰ کہ ہر بیماری کو ایک نام دیا۔ جب سے وہ پیدا ہوا ہے، ہر وہ شے، جس سے اسے واسطہ پڑتا ہے، اسے ایک نام دیتا ہی چلا جا رہا ہے اور جب تک آخری انسان زندہ ہے، یہ کام وہ کرتا رہے گا۔
جب آدمی چیزوں کے نام یاد کر رہا تھا تو اس کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ اسے کچھ یاد آنے لگا۔ درحقیقت اسے کچھ یاد آتے آتے رہ گیا۔
''ہر چیز کو ایک نام دینا، دوسروں کو اس بارے میں بتانا‘‘ سر جھٹک کر اس نے لکھا۔