گلشن اقبال پارک آج کے بعد ‘ پاکستان پارک بن گیا۔ اتوار کے دن یہ مسلمانوں کے ایک فرقے کا دوسرے فرقے پر حملہ نہیں تھا‘ بلکہ بلاامتیاز مذہب و فرقہ‘ دہشت گردی کی ایک کارروائی تھی‘ جس کا نشانہ صرف پاکستانی تھے‘ جو حسب روایت‘ مذہب و عقیدے سے بالاتر ہو کر‘ ایک ساتھ چھٹی کے دن سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اتفاق سے یہ مسیحیوں کے تہوار کا دن بھی تھا۔ پاکستانیوں کی چھٹی کا موقع بھی تھا اور جن تنگ نظر دہشت گردوں نے پاکستانیوں کا خون بہایا‘ وہ ان کی قومی شناخت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بن گئے۔ مسیحیوں اور مسلمانوں کا خون ایک ساتھ سرزمین پاک کی مٹی کی نذر ہوا۔ علامہ اقبال ٹائون متوسط طبقے کی ایک ملی جلی آبادی ہے۔ اس میں ہر مسلک کا مسلمان اور ہر عقیدے کا عیسائی ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اپنے تہوار ساتھ ساتھ مناتے ہیں۔ مذہبی فرائض اپنے اپنے انداز میں ادا کرتے ہیں اور خوشیاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مناتے ہیں۔ عید کا دن عیسائیوں کے لئے بھی عید کا دن ہوتا ہے اور ایسٹر کی خوشیاں بھی بلا امتیاز مذہب منائی جاتی ہیں۔ گزشتہ روز اتوار کا دن بھی اسی طرح منایا جا رہا تھا۔ مسلمان اپنے بچوں کے ساتھ گلشن اقبال پارک میں سیر کرنے آئے تھے‘ اسی طرح عیسائی بھی ایسٹر کے دن کو‘ اپنے بچوں کے ساتھ منانے کے لئے گلشن اقبال پارک پہنچے تھے۔ میں نہیں سمجھتا کہ تنگ نظر اور فرقہ پرست‘ مسلمانوں کے کسی گروہ نے بچوں کا خون بہا کر‘ اپنے مذہبی جوش و خروش کا اظہار کیا تھا یا دہشت گردوں کے کسی گروپ نے خون کی پیاس بجھائی تھی۔ یہ درندہ صفت لوگوں کی ایک ایسی کارروائی تھی‘ جو وہ سمجھ بوجھ کے بغیر کیا کرتے ہیں۔ زیادہ خون حسب روایت مسلمانوں کا بہتا ہے اور اس کے بعد اپنی تعداد کی نسبت سے۔اس پارک میں مسیحی حضرات‘ خواتین اور بچوں کے ساتھ اتوار کے تفریحی اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ تفریح کرنے والے‘ اس اتوار کو بلاامتیاز مذہب ‘اپنا خون اپنی مٹی کی نذر کر گئے۔ جن بدبختوں نے پاکستان کے خلاف خونریزی کی مہم شروع کر رکھی ہے‘ ان کا نشانہ مجموعی طور پر پاکستانی قوم ہے۔ ہماری قوم کا کوئی بھی حصہ اپنے مذہب کے حوالے سے خون کا نذرانہ پیش کرتا ہے‘ تو بنیادی طور پر وہ قوم کے ایک حصے کی قربانی ہوتی ہے۔ خون بہانے میں پاکستانی کوئی تفریق یا تقسیم سامنے نہیں رکھتے۔ پشاور میں جب عیسائیوں کاگرجا‘ دہشت گردوں کے بموں کا نشانہ بنتا ہے‘ تو یہ حملہ عیسائیوں پر نہیں پاکستانیوں پر ہوتا ہے۔ ہم ہر نئے حملے کو مذہبی اور فرقہ ورانہ انداز میں دیکھتے ہیں۔ لیکن دہشت گردوں نے ہر حملہ پاکستانیوں پر کیا ہوتا ہے۔ دیوبندیوں کی مسجد ہو یا اہل تشیع کا ماتمی جلوس۔ بریلویوں کا اجتماع ہو یا عیسائیوں کی تقریب۔ مارے ہر جگہ پاکستانی جاتے ہیں۔ علامہ اقبال ٹائون‘ قیام پاکستان کے بعد تعمیر ہوا۔ ہر آبادی کی طرح یہ آبادی بھی ‘ہر طرح کا تنوع اپنے ساتھ لے کر آئی۔ اس میں محلے کا کلچر پلاٹوں کے سائز کے اعتبار سے معرض وجود میں آیا۔ پلاٹوں کے سائز نے ہی آبادیوں کے مزاجوں کا تعین کیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ‘ شہریت غالب آتی گئی اور پندرہ بیس برس پہلے چھوٹے پلاٹوں پر مشتمل آبادیاں‘ طبقاتی شناخت کا ذریعہ تھیں۔ آج وہ سب ختم ہو گیا ہے۔ امیر لوگ پانچ مرلے کے گھروں میں رہتے ہیں۔ ضرورتوں نے بڑے پلاٹوں کی تقسیم بھی ختم کرا دی ہے۔ پانچ مرلے کے وہ پلاٹ‘ جو کم آمدنی والوں کے لئے‘ تعمیر کئے گئے تھے‘ آج وہاں اچھے خاصے دولت مند رہائش پذیر ہیں۔ وقت نے گھروں کے سائز کا فرق مٹا کر ایک ہی آبادی کا کلچر تشکیل دے دیا ہے۔ ترقی پذیر تجارتی رجحانات کے نتیجے میں‘بیشتر بڑے سٹور اقبال ٹائون منتقل ہو گئے ہیں۔ اب اقبال ٹائون کے مڈل کلاسیے بھی‘ انہی سٹورز میں جا کر خریداری کرتے ہیں‘ جو امراء کی نشانی سمجھے جاتے تھے۔
اتوار کے اتوار‘ گلشن اقبال پارک میں جو تفریحی میلہ لگتا ہے‘ اس میں شریک ہونے والوں کی کوئی علیحدہ پہچان نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے گلشن اقبال پارک امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں چھٹی کا دن منانے والوں میں دیگر تفریح گاہوں کی نسبت‘ عیسائیوں کی تعداد عموماً زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خونیں واردات میں زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد‘ عام المیوں کے مقابلے میںزیادہ رہی۔ تنگ نظر دہشت گردوں نے جب سے اپنی کارروائیاں شروع کی ہیں‘ حکومت کی پالیسی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ کہ ایسے اجتماعات میں جہاں اقلیتیں زیادہ تعداد میں ہوں‘ وہاں سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے‘ اس میںخصوصی انتظامات کے لئے زیادہ نفری کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے وزیراعظم اتوار کا دن عموماً لاہور میں گزارتے ہیں۔ شہر میں ان کی آمدورفت کے مقامات اس قدر پھیلے ہوتے ہیں کہ شہر کی سڑکیں تو کیا؟ گلیوں میں بھی سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں۔ سکیورٹی کی نفری کا بڑا حصہ‘ وزیراعظم کی نقل و حرکت میں کھپ جاتا ہے۔ اس لئے سکیورٹی فورسز ہنگامی ضروریات کے تقاضے پورے نہیں کر سکتیں۔ وزیراعظم اگر ملک کے اندر ہوں تو اتوار کے دن عموماً‘سکیورٹی فورس کی بڑی تعداد‘ ان کی مصروفیات کی نذر ہو جاتی ہے۔گزشتہ خونریزی بھی اتوار کے دن ہوئی۔ تنگ نظری پر مبنی مذہبی اجتماعات کی سکیورٹی کے لئے عموماً اضافی انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ اتوار کے دن چونکہ گلشن اقبال میں عیسائی زیادہ تعداد میں آتے ہیں‘ اس لئے جب وزیراعظم شہر میں نہ ہوں‘ تو اقلیتوں کے اجتماعات کے لئے عموماً اضافی پولیس فورس لگائی جاتی ہے۔ لیکن اس اتوار کو وزیراعظم لاہور میں تھے اور پولیس فورس زیادہ تعداد میں وزیراعظم کی ڈیوٹی دے رہی تھی۔ اتفاق سے اسی اتوار کو جناب شہبازشریف کی نقل و حرکت بھی معمول سے زیادہ تھی۔ دونوں اعلیٰ جمہوری عہدیداروں کی غیرمعمولی نقل و حرکت کے لئے زیادہ پولیس فورس کی ضرورت پڑ گئی اور گلشن اقبال میں چھٹی کے دن‘ جو اضافی پولیس فورس ڈیوٹی کے لئے درکار ہوتی ہے‘ اس دن وہ بھی موجود نہیں تھی۔ قاتلوں کو آزادی سے گولیاں چلانے کے مواقع ملتے رہے۔ اگر اتوار کے دن معمول کی پولیس فورس دستیاب ہوتی‘ تواتنی زیادہ انسانی جانیں ‘خون کے پیاسوں کی نذر نہ ہوتیں۔ یاد رہے 72 سے زیادہ انسان‘ محض ایک خودکش بمبار کی کارروائی سے زخمی اور جاں بحق نہیں ہو سکتے تھے۔ دہشت گرد کے ساتھیوں نے علیحدہ بھی اپنے اپنے ہتھیاروں سے گولیاں چلا کر انسانوں کو نشانہ بنایا۔
اسی دن اسلام آباد میں بھی قانون شکنی کرنے والے بڑی تعداد میں متحرک تھے۔ ان لوگوں نے اسلام آباد کے حساس علاقوں پر غیرقانونی قبضہ کیا اور سکیورٹی فورسز کی درخواستوں کے باوجود‘ غیرقانونی اجتماع کو منتشر کرنے سے انکار کر دیا۔ جس طرح یہ اجتماع اکٹھا ہوا اور جیسے سکیورٹی فورسز نے‘ کسی اقدام سے معذوری کا اظہار کیا‘ میرے خیال میں امن و امان برقرار رکھنے کے حوالے سے‘ یہ زیادہ تشویشناک اجتماع تھا۔ اسے منتشر کرنے سے سکیورٹی فورس کا اظہار معذوری‘ لاہور کے سانحے کی نسبت زیادہ تشویشناک ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اس گروہ کی میڈیا کوریج سے کسی زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے‘ تومیرے خیال میں اس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس گروہ نے کسی میڈیا کوریج کی بنا پر زور نہیں پکڑا۔ یہ کسی میڈیا کوریج کے بغیر خاموشی سے منظم ہوتا رہا۔ اب بڑے بڑے اجتماعات کرنے لگا ہے۔ اس کے لئے میڈیا کوریج کی ضرورت نہیں پڑی۔ انتظامیہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جذباتی تحریکیں کس طرح پروان چڑھتی ہیں؟ روکنے کی کوشش کی جائے‘ تو زیادہ تیزی سے زور پکڑتی ہیں۔ لاہور کے گلشن اقبال پارک میں 72انسانی جانوں کی قربانیوں اور زخمیوں کی تعداد کو پیش نظر رکھتے ہوئے‘ اتوار کی چھٹی کے لئے پولیس کواضافی نفری کی ضرورت ہے۔ اتوار کے دن‘ جناب وزیراعظم کی حفاظت کے لئے مطلوب پولیس فورس کو باقاعدہ کر کے‘ اتوار کے روز گلشن اقبال پارک کے اجتماع کے لئے بھی ‘ پولیس کے چند اہلکاروں کی ڈیوٹی مستقل کر لینا چاہیے۔