تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-03-2016

اندازِ فکر

شہبازشریف متحرک بہت ہیں۔ ہزاروں برس کے انسانی تجربات نظرانداز کرکے مگر وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ اور نہ ان کے مستقل طور پر ناراض رہنے والے برادر بزرگ۔ اپنے اندازِ فکر پہ انہیں نظرثانی کرنا ہوگی‘ وگرنہ چنگاریاں شعلہ بنتی رہیں گی۔
آپ کو قدرے تعجب ہوتا ہے۔ میاں محمد شہبازشریف سے جب آپ تنہائی میں ملتے ہیں اور وہ سمجھتے ہوں کہ آپ ایک آزاد آدمی ہیں تو بڑی توجہ سے بات وہ سنتے ہیں۔ بے ساختگی سے ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس تمکنت اور جلال کا سایہ تک نظر نہیں آتا جس کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
ایسے ہی ایک موقع پر جب بلوچستان کے بارے میں اپنی رائے سے انہیں آگاہ کیا تو قدرے حیرت کے ساتھ انہوں نے کہا: یہ سب کچھ آپ کو کیسے معلوم ہے۔ مراد یہ تھی کہ ایک پیچیدہ موضوع پر اس قدر واضح تجزیہ کیسے ممکن ہے۔ یہ جنرل ناصر جنجوعہ سے پہلے کا بلوچستان تھا۔ ایک بارہ سنگھا ‘ جس کے سارے سینگ جھاڑیوں میں پھنسے تھے۔ عرض کیا: ماہرین سے مشورہ‘ متنوع آرا تک رسائی اور غوروفکر کے سوا اور کیا۔ بولے: افسوس کہ مصروفیت کی وجہ سے سوچ بچار کا زیادہ وقت نہیں ملتا۔
تدبر و تفکر ہی سب سے زیادہ ضروری کام ہے‘ سب سے اہم اور اولیٰ۔ بیسویں صدی کے سب سے ممتاز فلسفی برٹرینڈرسل نے کہا تھا: چیزوں کے باہمی ربط سے ہم واقف ہیں مگر ان کی حقیقت سے نہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ دعا کیا کرتے تھے۔ ''اے اللہ چیزوں کی حقیقت سے مجھے آگاہ فرما دے‘‘ قدرت کے قوانین اور ان کا ادراک ہی زندگی کو صحت مند‘ استوار اور نتیجہ خیز بنا سکتا ہے۔ ان سے انحراف کی سزا ہے اور ہمیشہ ہے۔ اقبالؔ کہا کرتے تھے کہ دحی ٔالٰہی‘ طویل انسانی تجربے کا اختصار ہے۔ لاطینی امریکہ کے قدآور ادیب کوئلو پائلو کے اس قول سے ہم واقف ہیں کہ زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ بس تجربات ہوتے ہیں۔ ان سے جب ہم نہیں سیکھتے تو قدرت انہیں دہراتی ہے ؎
فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
ولے کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
جب بھی سچائی کو آدمی پا لے۔ سکرات سے پہلے پہلے جب بھی سچے دل سے توبہ کر لے۔ جان لے کہ بھلائی صرف سیدھے راستے پر چلنے میں ہوتی ہے تو یہ محض ایک گنجائش نہیں بلکہ ایک ادارہ ہے۔ ایک ابدی قانون‘ اس لئے کہ تمام انسان خطاکار ہیں۔ خطا اور غلطی سے نہیں بلکہ وہ اپنی غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں۔ اصحاب کا ایک وفد سرکارؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ کوئی گناہ نہ کریں گے۔ آپؐ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور فرمایا: اللہ تمہیں تباہ کر دے گا پھر تمہاری جگہ وہ ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خطا کا ارتکاب کریں گے اور معافی مانگیں گے۔ آدمی کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خطا سے پاک ہو جائے۔ پیغمبروں کی بات دوسری ہے‘ وہ براہ راست خالق کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔
انسانی المیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تمام آبادیاں ذہنی غسل کے عمل سے گزرتی ہیں۔ متعین نظریات اور ان کی مسلسل تکرار۔ ایک ایسا ذہن ہی مغالطوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جس کے لئے اپنی ذات اور تعصبات نہیں بلکہ اصول اہم ہوں۔ جو عدم تحفظ سے نجات پا لے۔ جو یہ جان لے کہ عزت اور رزق‘ کامیابی اور فروغ قدرت کے ہاتھ میں ہے۔ اسے محض دیانتداری کے ساتھ اپنے رستے پر چلے جانا ہے۔ ابرہام لنکن نے اپنی قوم سے اختلاف کیا تھا۔ مصلحت سے کام لیتا تو کالے کبھی آزاد نہ ہوتے۔ ایک نہیں امریکہ دو ملک ہوتے اور متصادم رہتے۔ تحریک خلافت‘ بھارت چھوڑ دو تحریک اور کم سن بچیوں کی شادی پر قانون کی منظوری کے ہنگام‘ قائداعظم نے مقبول موقف کی بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ آخری موقع پر تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا: قوم اپنا نیا لیڈر چن لے۔ صرف یہ نہیں کہ وہ وعدے کا پاس کرنے والے‘ مکمل طور پر دیانتدار اور ہمیشہ کے صداقت شعار تھے۔ یہ بھی کہ اللہ پر ہی بھروسہ رکھتے تھے۔ حکمت کا مطلب تدبر تھا اور اس کے وہ خوگر تھے۔ ایسی ''دانائی‘‘ ہرگز نہیں جو سچائی کو پس پشت ڈال دے۔ عقل کی اصطلاح اقبال اسی مفہوم میں برتتے ہیں:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
قلندر جز دو حرفِ لااِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
اقبال پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ عقل کی یکسر نفی کرتے ہیں‘ درآں حالیکہ زندگی کے جنگل میں وہی مشعل کا کام دیتی ہے۔ ظاہر ہے ان کی مراد اس عقل سے ہے جو ذاتی مفاد اور مصلحت کے تنگ دائرے میں بروئے کار آتی ہے۔ ٹیپو کی وصیت کے عنوان سے ان کی نظم کا ایک شعر یہ ہے ؎
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
خرابی‘ عقل کا غلام بننے سے برپا ہوتی ہے۔ سیاسی لیڈروں سمیت‘ ہم سب غلام ہی ہیں۔ بیسوی صدی میں تین آدمی لازماً مستثنیٰ تھے۔ قائد اعظم ‘ اقبال اور خواجہ مہر علی شاہ۔ عظمت آج بھی ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے۔ عرب و عجم کے شیوخ اپنی قبروں میں ناکام سو رہے ہیں۔ مغرب کے مقلد مصطفی کمال اتاترک‘ امان اللہ خان اور رضا شاہ کبیر بھی۔ آدمی اپنی ذہنی ساخت کا قیدی ہو جاتا ہے۔ اپنے تاثر کا اسیر۔
خبر یہ ہے؛ لاہور کا سانحہ رونما ہونے کے فوراً بعد ایک اہم اجلاس ہوا تو وزیر اعلیٰ نے لاہور کے سرحدی علاقوں میں آپریشن کا حکم دیا۔ صوبائی اداروں کے علاوہ رینجرز بھی جس میں شریک ہوگی ۔ لاہور کے یہ علاقے بھارتی جاسوسی منصوبوں کا گڑھ رہے ہیں۔ یاد ہے کہ شوکت خانم ہسپتال میں دھماکہ ہوا تو عمران خان کو آصف علی زرداری پر شبہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر وہ ہسپتال کا افتتاح کرنے کے آرزو مند تھے مگر عمران خان نے انکار کر دیا۔ اس پر کپتان کو انہوں نے پیغام بھیجا کہ وہ اس سے نمٹ لیں گے۔ عمران نے مجھ سے کہا ؛ دیکھو جنرل حمید گل کیسی عجیب بات کہتے ہیں کہ یہ 'را‘ کا کیا دھرا ہے۔ جب میں نے کہا: وہ ٹھیک کہتے ہیں تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ کچھ عرصہ بعد لاہور کے ایک پولیس افسر نے ایک سرحدی گائوں سے کسی کو گرفتار کیا تو وہ 'را‘ کا جاسوس نکلا۔ کئی دھماکوں کا ذمہ دار اور ان میں شوکت خانم کا واقعہ شامل تھا۔
تعلیمی ادارے تباہ ہوئے تو خادم پنجاب نے دانش سکولوں کی بنیاد رکھی اور داد سمیٹی۔ پنجاب پولیس کی استعداد محدود ہوتی گئی تو انہوں نے انسداد دہشت گردی فورس اور اب ڈولفن فورس کا ہنگامہ بپا کیا۔ ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایک میٹرو تعمیر کر دی جائے‘ جس پر 60ارب لٹ گئے اور بارہ ارب سالانہ‘ اب 200ارب روپے سے اورنج لائن ٹرین۔ 2لاکھ مسافر استفادہ کریں گے۔ فی مسافر دس لاکھ کے ابتدائی اخراجات ‘ پھر420روپے فی کس روزانہ۔ اس انداز کو کیا کہیے‘ اس جدت طرازی سے کیا کام چلے گا۔ دہشت گردی ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہاں تہاں فوج ان سے لڑے گی۔ 15سال بیت گئے۔ نائن الیون کے بعد آج تک امریکہ میں کوئی بڑا المیہ رونما ہوا اور نو سال گزرے برطانیہ کے الیون سیون کے نظام کو بھی۔ قوانین بدلے‘ تلاشی کا عمل سخت کر دیا اور آبادیوں کی نگرانی کرنے لگے۔ مسائل پیدا ہوئے اور شکایات بھی۔ ملک مگر دہشت گردی سے محفوظ ہو گیا۔ یہی راستہ ‘ یہی ایک راستہ۔
شہبازشریف متحرک بہت ہیں۔ ہزاروں برس کے انسانی تجربات نظرانداز کرکے مگر وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ وہ اور نہ ان کے مستقل طور پر ناراض رہنے والے برادر بزرگ۔ اپنے اندازِ فکر پہ انہیں نظرثانی کرنا ہوگی‘ وگرنہ چنگاریاں شعلہ بنتی رہیں گی۔
پس تحریر: پیر کی صبح ابتدائی معلومات کی روشنی میں لکھا گیا۔ چند گھنٹے بعد ہی سول اور اس سے زیادہ فوجی اداروں نے صوبے کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے کی کارروائیاں کیں۔ انشا اللہ‘ کل کچھ مزید۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved