تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     29-03-2016

گلشن ِ اقبال پارک سے ڈی چوک تک

گلشن ِ اقبال پارک سانحہ کے متعلق وہی پرانی بات دہرائی جا سکتی ہے، یہ ایک مختلف اور مشکل جنگ ہے جس کا محاذ پورے ملک پر محیط ہے۔ اس میں انیشی ایٹو فریقِ مخالف (دہشت گرد) کے پاس ہوتا ہے کہ وہ کب، کہاں اور کس طرح حملہ آور ہو گا اور یہ بھی کہ دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی، وہ بھاگ رہے ہیں اور موقع پا کر، پلٹ کر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ لیکن اسی شام وفاقی دارالحکومت میں جو کچھ ہوا کیا اس کے متعلق بھی اسی منطق سے کام لیا جاسکتا ہے؟کیا یہ سب کچھ بھی امن و امان کے ذمہ داروں کے لئے ''اچانک‘‘ (سرپرائز) تھا، جس کے لئے قبل از وقت تیاری نہیں تھی، یا اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی اور اُدھر ملک کے سب سے بڑے شہر میں پریس کلب جیسے حساس اور اہم ادارے پر جو بیتی؟
ابھی چار دن قبل وفاقی دارالحکومت میں یومِ پاکستان پر شاندار فوجی پریڈ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کا مقصد قوم کو نئے حوصلوں سے سرشار کرنا تھا کہ سرزمینِ پاک پر دہشتگردی کی جنگ آخری مرحلے میں داخل ہو چکی۔ صدرِ مملکت یہی بات ایک اور انداز میں کہہ رہے تھے، پاکستانی قوم اور مسلح افواج نے بے مثال قربانیاں دے کر دہشتگردی کے خلاف اس محاذ پر شاندار کامیابی حاصل کی ہیں، اور یہ کہ آپریشن ضربِ عضب اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آخری دہشتگردکا صفایا نہیں ہو جاتا۔ لیکن آخری دہشتگرد کا صفایا اتنا قریب نہیں۔ وزیرستان میں اس کے ٹھکانے، اس کے اسلحہ خانے اور اس کی تربیت گاہیں تباہ کی جا چکیں لیکن سرحد کے اس پار ابھی پاکستان میں دہشتگردی کے لئے سب کچھ موجود ہے۔ اِدھر اندرون ملک بھی ان کے سلیپنگ سیلز بیدار و مستعد ہیں، جن کے خاتمے کے لئے کارروائیاں جاری ہیں۔ بعض نامی گرامی دہشتگرداپنے متوقع جانشینوں سمیت اگلے جہان پہنچا دئیے گئے لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ عمل ردِ عمل کو جنم دیتا ہے اور یوں اس شیطانی سلسلے کا دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ 27 مارچ کی اس بدقسمت شام سے ایک روز قبل لاہور میں ایم اے او کالج سے شاہدرہ تک میٹرو بس کی سروس معطل کر دی گئی تو اس کا سبب بھی یہی تھا۔ 
وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے متعلق عمومی رائے یہ ہے کہ وہ اپنے تینوں کاؤنٹر پارٹس کی نسبت زیادہ سرگرم و فعال ہیں۔ کاؤنٹر ٹیرر ازم فورس کے قیام سمیت نیشنل ایکشن پلان کے بیشتر نکات پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں باقی صوبوں کی نسبت زیادہ عمل ہو رہا ہے۔ ابھی دو دن قبل ''ڈولفن‘‘ کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوئی۔ برادر ملک ترکی کے تعاون اور تربیت کے ساتھ یہ نئی فورس لاہور کو سیف سٹی بنانے کے منصوبے کا حصہ ہے جس کا دائرہ دوسرے بڑے شہروں تک بھی پھیلایا جائے گا۔ 27 مارچ کے اس بدنصیب دن ، شالامار باغ میں مادھو لال حسین کا میلہ تھا، الحمرا میں صوفی فیسٹیول منعقد ہو رہا تھا، ایسٹر کی وجہ سے کرسچن کمیونٹی اپنے گرجا گھروں میں مصروفِ دعا تھی ، پولیس اور امن و امان کے ذمہ دار سول اداروں کی تمام تر توجہ ان مقامات پر مرکوز تھی ایسے میں گلشنِ اقبال پارک دشمن کے لئے سافٹ ٹارگٹ تھا۔ ضیأالحق دور میں گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے لاہور کو پارکوں کا شہر بنا دیا تھا۔ جیل روڈ پر سروسز ہسپتال کے سامنے ریس کورس گراؤنڈ کو خوبصورت پارک میں تبدیل کر دیا گیا۔ ماڈل ٹاؤن اورجلّو کے خوبصورت پارک بھی اسی دور کی یادگار ہیں۔ 1600 ایکڑ پر محیط علامہ اقبال ٹاؤن میں گلشنِ اقبال پارک بھی اہلِ لاہور کے لئے جنرل جیلانی کا تحفہ ہے (جس کا افتتاح جنرل ضیأالحق نے کیا تھا)۔ یہ مڈل اور لوئرمڈل کلاس کا پارک ہے جہاں اتوار کو شہر کے مختلف علاقوں سے سینکڑوں فیملیز آتی ہیں۔ بیرونِ شہر سے آنے والے مہمانوں کے لئے بھی یہ دلچسپی کا مرکز ہوتا ہے۔ 27 مارچ کے سانحہ کا شکار ہونے والوں میں سانگھڑ (سندھ) کی ایک فیملی بھی تھی۔ اس شام بھی یہاں ہمیشہ کی طرح میلے کا سماں تھا۔ ایسٹر کے باعث قرب و جوار سے کچھ کرسچن فیملیز بھی آئی ہوئی تھیں لیکن یہ ایسٹر فیسٹول نہیں تھا جسے کرسچن کمیونٹی کی وجہ سے ہدف بنایا گیا ہو۔ پھر تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں نے اس دہشتگردی کو ایسٹر سے کیوں جوڑ دیا؟ ایک اخبار نے تو اسے ان 100 برسوں میںایسٹر پر تیسرا بڑا حملہ قرار دے دیا تھا۔ فاضل ''محقق‘‘ تاریخ کے اوراق سے گزشتہ دو بڑے حملوں کی تفصیل بھی ڈھونڈ لایا جس کے مطابق پہلا حملہ اپریل 1916 ء میں آئرلینڈ میں ہوا، جس میں 500 افراد مارے گئے، اور دوسرا حملہ اپریل 2012ء میں نائیجیریا میں، جہاں مرنے والوں کی تعداد 66 تھی۔ تادمِ تحریر گلشن اقبال پارک سانحۂ کے ہلاک شدگان کی تعداد 72 کو پہنچ گئی، جن میں 10 افراد کرسچن ہیں اور باقی تمام مسلمان۔ ظاہرہے دہشتگرد کا ہدف ایسٹر (کرسچن کمیونٹی) نہیں تھی۔ اسے تو دہشت پھیلانا تھی جس کے لئے اس نے گلشنِ اقبال کا انتخاب کیا اور یہاں بھی اس جگہ کا جہاں خواتین اور بچوں کی تعداد زیادہ تھی (72 ہلاک شدگان میں 29 بچے، 7 خواتین اور 36 مرد ہیں)۔ 
یہ سانحۂ یقینا نہایت سنگین ہے، جس پر انٹیلی جنس سسٹم اور سکیورٹی لیپس کے حوالے سے سوالات فطری ہیں۔ گزشتہ شام اسی طرح کے سوالات پر رانا ثنا اللہ، رؤف کلاسرا سے الجھ پڑے ۔ وہ اسے ''مخصوص ایجنڈے ‘‘کا حصہ قرار دے رہے تھے۔ یہ بات درست کہ دہشت گردی کی اس جنگ میں اہلِ سیاست اور اربابِ صحافت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ انہیں قوم کو بے حوصلہ نہیں کرنا، لیکن اگر کہیں کوئی خامی، کوئی کوتاہی نظر آتی ہے تو اس کی نشاندہی بھی تو ان کی ذمہ داری ہے، لیکن لاہور کا ممتاز قانون دان اور پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کا رکن یہاں بھی پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کرتا نظر آیا۔ وہ یہاں بھی اورنج لائن ٹرین کا رونا رو رہا تھا۔ ادھر ایک ریٹائرڈ عسکری دانشور آئین کو ہدف بنائے ہوئے تھا۔ اس کے بقول ، ہمیں آئین سے کیا لینا دینا جو ہمیں سکیورٹی فراہم نہیں کرتا۔ جو ہسپتالوں میں صحت اور تعلیمی اداروں میں تعلیم کی سہولتیں بہم نہیں پہنچاتا، تو کیا اس دہشت گردی پر ملکی آئین کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے گا؟ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کا ہدف بھی یہی آئین ہے اور 
بعض دانشور بھی اسی کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ مسلح افواج دہشت گردی کی جنگ لڑ رہی ہیں تو ان کی تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رہنی چاہیے۔ اس کے لئے سول اور ملٹری کا ایک صفحے پر ہونا بھی بنیادی ضرورت ہے۔ ایسے میں دہشت گردوں، تخریب کاروں اور علیحدگی پسندوں کی اس سے بڑی خواہش کیا ہو گی کہ فوج کو دہشت گردی کے ساتھ دیگر سنگین مسائل کی دلدل میں بھی اتار دیا جائے۔
اس اتوار کو وزیرِ اعظم اپنے ہفتہ وار معمول کے برعکس اسلام آباد میں ہی تھے۔ وفاقی دارالحکومت کے ہائی سکیورٹی ریڈ زون میں ریاست کی رٹ عمران + قادری دھرنوں کی طرح ایک بار پھر سنگین چیلنج سے دو چار تھی۔ امن و امان کے ذمہ دار سول ادارے ناکام ہو گئے تو حکومت فوج کو طلب کرنے پر مجبور ہو گئی (جو اس کا آئینی اختیار ہے)، لیکن سوال یہ ہے کہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی؟ لاہور میں دہشت گرد حملہ تو سرپرائز تھا لیکن راولپنڈی ، اسلام آباد میں معاملہ ایسا نہ تھا۔ لیاقت باغ راولپنڈی سے اسلام آباد کا ڈی چوک تقریباً 15 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ اس کے لئے عشاق کے قافلوں کی آمد بھی غیر متوقع نہیں تھی، پھر فیض آباد تک انہیں Safe passage کیسے مل گیا؟ اور اس کے آگے وہ رستے کی ہر رکاوٹ کو روندتے ہوئے پیش قدمی کیسے کرتے چلے گئے؟ میٹرو بس اسٹیشنز، سرکاری و نجی گاڑیاں اور کنٹینر، جو بھی رستے میں آیا تباہ ہوتا چلا گیا۔ کہا جاتا ہے آئی جی پنجاب بھی اس روز صبح ہی سے راولپنڈی میں موجود تھے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان میاں صاحب کی کابینہ کے فعال اور مستعد ارکان میں شمار ہوتے، پھر اس روز جو کچھ ہوا ، وفاقی دارالحکومت جس طرح تماشا بن گیا، اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved