تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     29-03-2016

مستقل صحت یابی یا جراحی پہ جراحی؟

جن لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایران اس بات سے لا علم ہے کہ اس خطے میں ''را‘‘ کیا گل کھلا رہی ہے ، چند حقائق ان کے پیشِ خدمت ہیں ۔ انقلاب کے بعد سے ایران میں انٹیلی جنس کا نظام اس قدر سخت ہے کہ ہمارے یہاں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ ایک عام آدمی حکومت کے خلاف ایک لفظ منہ سے نکال نہیں سکتا۔ مذہبی اشرافیہ حقیقی مقتدر ہے ۔ وہ دس میں چھ صدارتی امیدواروں کو نا اہل قرار دیتے ہوئے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتی ہے ۔ وہ محمود احمدی نژاد سے امریکہ اور مغرب کو دھمکیاں دلوا سکتی ہے ۔ احمدی نژاد کے پورے دور میں آپ نے یہ اعلانات سنے ہوں گے کہ ایران بہر صورت اپنا ایٹمی پروگرام پوری قوت سے جاری رکھے گا۔ دوسری طرف یہ مذہبی اشرافیہ حسن روحانی کو سرجھکانے اور سمجھوتہ کرنے کے احکاما ت جاری کرسکتی ہے ۔ ایٹمی پروگرام پر ایرانی موقف میں زبردست تبدیلی آتی ہے اور یا للعجب پورے ملک میں کوئی ایک احتجاجی صدا بلند نہیں ہوتی ۔ انٹیلی جنس وہاں سخت ہے۔
گزشتہ عشرے میں ایران نے افغانستان ، عراق ، لبنان اور شام سے لے کر یمن تک ایک بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ یمن میں تو اس کی حامی ملیشیا نے حکومت گرا ہی دی؛ حتیٰ کہ عرب اتحاد کو وہاں
حملہ کرنا پڑا۔ خطے بھر کی چوکیداری کرنے والا ایران ، جہاںامریکہ اور مغرب پورے دس برس کشیدگی کے باوجود حکومت کے خلاف ایک بھرپور مظاہرہ نہ کر وا سکے، کیا وہ بے خبر ہے ؟ وہ نہیں جانتا کہ بھارت اس کی سرزمین سے بلوچستان میں کیا کردار ادا کر رہا ہے ؟ 
افغانستان میں پاکستان مخالف گروہ، افغان انٹیلی جنس اور بھارتی ایجنٹ کیا کھیل کھیل رہے ہیں، یہ ایک کھلا راز ہے ۔ خطے کے سارے کھلاڑی یہ بات جانتے ہیں کہ بھارت دو اطراف سے دبائو بڑھا کر پاکستان کو سینڈوچ بنا رہا ہے۔ایران بخوبی جانتاہے کہ سرحدی علاقوں، بالخصوص گوادر سے دو قدم کے فاصلے پر چاہ بہار میں تعینات بھارتی حکام کے اصل عزائم کیا ہیں ۔چاہ بہار تعمیر ہی بھارتی مدد سے ہو رہی ہے ۔ یہ نہیں کہ ایران پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھارت کے ساتھ شریک ہے ۔ہاں یہ ممکن ہے کہ اپنے قومی مفادات میں مدد کے عوض پاکستان مخالف سرگرمیوں پہ آنکھیں اس نے بند کر رکھی ہوں ۔
ایک لکھنے والے کی حیثیت سے یہ بات ہمیشہ میرے لیے حیران کن رہی کہ جب کبھی عرب بادشاہتوں کے خلاف لکھا تو کوئی خاص ردّعمل نظر نہیں آیا۔ ہاں البتہ ایران پہ تنقید کیجیے تو ای میلز کی بارش ہوجاتی ہے اور کم و بیش سبھی میں ایک ہی پیغام ہوتاہے ۔ بہرحال، پاک چین اقتصادی راہداری کے راستے پاکستان کی معاشی خود مختاری امریکہ اور برطانیہ سمیت عالمی برادری کے مفاد میں نہیں ۔ بھارت کے مفاد میں تو بالکل ہی نہیں لیکن ایران بھی غالباًگوادر کو رقابت کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ 
پشاور آرمی پبلک سکول حملے سے بہت پہلے ہی میں یہ لکھتا رہا ہوں کہ خود کش دھماکے ہوتے رہیں گے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ثابت یہ ہوا ہے کہ پاکستانی ریاست قائم رہے گی ۔ شہروں پہ طالبان اپنی حکومت قائم نہ کر سکیں گے ۔ جوہری ہتھیار اور میزائلوں کی سکیورٹی خطرے سے باہر ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایسے خودکش حملوں اور کمزور اہداف کی حفاظت موجودہ سیٹ اپ میں نا ممکن ہے ۔ اس کے لیے چاروں صوبوں کی پولیس ، قانون نافذ کرنے والے سول ادارے اور انٹیلی جنس میں جس اصلاح اور جس طرح کی فعالیت درکار ہے ، وہ کہیں نظر نہیں آرہی ۔ حکومت اقتدار کے طویل مہ و سال میں یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور آزمائے ہوئے کو آزماناایک جاہل ہی کو زیب دیتاہے ۔ آئن سٹائن کے الفاظ میں ایک ہی تجربہ دہراتے ہوئے مختلف نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے ۔جس روزمقامی پولیس اور شہریوں کی قائم کردہ کمیٹیاں محلے کے ہر شخص کا ریکارڈ اور ان پہ نظر رکھنا شروع کر یں گی،جس روز مشرقی اور مغربی سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کی آمدورفت روک دی جائے گی، اس روز خود کش حملے بند ہو جائیں گے۔ فوج کے پاس نہ اتنی نفری ہے اور نہ روپیہ ۔ سول اور عسکری قیادت کو مل بیٹھ کر قانون نافذ کرنے والے تمام سول اداروں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ہوں گے ۔ 
ریاست کی پالیسیوں میں بھیانک تضاد ہے ۔ فوج ملکی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ۔قومی اداروں کے خلاف بولنے والے پاکستان کی سلامتی سے کھیل رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پہ درجنوں کلپ دیکھے جا سکتے ہیں ، جن میں اول فول بولا جا رہا ہے ۔الفاظ کا انتخاب ایسا ہے کہ کوئی انہیں دہرا نہیں سکتااور یہ دھنداعام ہو رہا ہے۔ اور تو اوریہ لوگ قومی شخصیات پر بھی تبرّا فرماتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو عوام کو سکیورٹی اداروںکے خلاف اکسا رہے ہیں ، ان کا محاسبہ کون کرے گا؟نظریاتی سطح پر اتنی کنفیوژن ہوگی تو جنگ کیسے جیتی جائے گی؟
ان خوفناک تضادات کے ہوتے ہوئے خود کش حملوں کی روک تھام دیوانے کا خواب ہے ۔ سول اداروں کی موجودگی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت فوج کے ہاتھ میں ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے ، جیسے مناسب دوا اور پرہیز کی بجائے بار بار ایک زخم کو بگڑنے دیا جائے اور پھر سرجن سے جراحی کرائی جائے ۔ جب تک آپ چاہیں گے ، فوج نشتر لے کر کھڑی رہے گی ۔ جراحی وہ کرتی رہے گی ۔ یہ فیصلہ البتہ آپ کو خود کرنا ہے کہ مستقل صحت یابی کے نسخے پر عمل کرنا ہے یا نہیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved