تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     01-04-2016

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا

دنیا ٹیلی ویژن کے معروف پروگرام میں کامران خان نے ایک سابق سیکرٹری خارجہ کو بلایا۔ گفتگو حد درجہ مایوس کن رہی۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے حضرات ان مناصب پر پہنچ جاتے ہیں جہاں فکر و نظر کی گہرائی کے ساتھ جرأت کی بھی ضرورت ہوتی ہے!
کامران خان کا فوکس ایران پر تھا۔ وہ بار بار سابق سیکرٹری صاحب سے پوچھتے تھے کہ ایران کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ مگر سیکرٹری صاحب کا ہر بار ایک ہی جواب تھا کہ ہمیں فوکس انڈیا پر رکھنا چاہیے۔ کامران خان جند اللہ کا حوالہ دے رہے تھے۔ پاکستان نے جند اللہ کے عہدیدار کو پکڑ کر ایران کے حوالے کیا۔ ایران نے اسے پھانسی دی۔ بدلے میں پاکستان کو کیا ملا؟ چاہ بہار اور بھارتی نیوی کا افسر! جو پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا تھا۔ سابق سیکرٹری خارجہ ایران کے بارے میں کچھ کہنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ کبھی کہتے بھارت پر فوکس رکھنا چاہیے‘ کبھی کہتے کہ ہمارے اداروں نے بھارتی افسر کو پکڑ دکھایا۔ کبھی مشرق و سطیٰ کی طرف نکل جاتے۔
یہ ہیں وہ بیوروکریٹ جو وزارتِ خارجہ چلاتے رہے اور چلا رہے ہیں۔ جرأت، نہ وژن‘ نہ معلومات! فرمایا کہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران بھارت قربت میں تعطّل رہا! غلط بالکل غلط! پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت پابندیوں کے دوران ایران کی ہر ممکن مدد کرتا رہا۔ سابق سیکرٹری صاحب کو وقت ملے تو وُو ڈروولسن سنٹر ہی کی سپیشل رپورٹ دیکھ لیں۔ اس رپورٹ میںThe "Strategic Partnership" Between India and Iran کے عنوان سے چشم کشا حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ 
جنوری 2003ء میں ایران اور بھارت کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس کے تین حصّے تھے۔ اقتصادی، سیاسی اور دفاعی! ایران اور بھارت میں مشترکہ فوجی تربیت کے پروگرام طے پائے۔ جلیل روشن دل ایک معروف ایرانی محقق ہیں جو امریکہ، ترکی اور ڈنمارک کی متعدد یونیورسٹیوں میں ریسرچ کرتے رہے۔ وہ یونیورسٹی آف ایران اور ایران کے ایک معرف تھنک ٹینک سے بھی وابستہ رہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
In the worst-case Scenario of war with Pakistan, The Possibility that India might access Iranian Military bases, Thereby encircling and Containing Pakistan, cannot be excluded.
یعنی اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے ساتھ بھارتی جنگ کی صورت میں بھارت ایران کی ملٹریBases کو استعمال کر سکتا ہے اور یوں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر سکتا ہے۔
دنیا ٹیلی ویژن پر کامران خان جو سوال بار بار اٹھا رہے تھے وہ یہ تھا کہ کیا ایران نے کل بھوشن کے واقعہ پر بھارت سے احتجاج کیا؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ایران نے یہ بھی نہیں کہا کہ بھارت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ایران اور پاکستان کے تعلقات دنیاوی سرحدوں سے ماورا، اسلام کے رشتے سے بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی، شیعہ ہو یا سنّی، ایران سے محبت کرتا ہے۔ فارسی صدیوں تک برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیبی شناخت رہی! سارے مغل عہد میں ایرانی شعراء اور اہلِ علم آتے رہے اور مغل بادشاہ اور امرا و عمائدین ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ یہ ایرانی شعراء ہی تھے جنہیں جہانگیر اور شاہجہان کے درباروں میں ملک الشعراء کے خطابات ملتے رہے۔ دوسری طرف ایران میں اقبال کو جو پذیرائی ملی ہے، محتاجِ بیان نہیں! آج بھی خسرو اور بیدل کے شعری مجموعے پاکستان میں ملیں یا نہ ملیں، ایران میں ضرور ملتے ہیں۔ اقبال نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ؎
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
مگر ایران جب پالیسیاں مسلکی بنیادوں پر بناتا اور آگے بڑھاتا ہے تو اہل پاکستان صدمے سے دو چار ہوتے ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے ہی ایرانی صدر نے کہا کہ اہلِ تشیع کے دفاع کے لیے کسی جگہ بھی مداخلت سے گریز نہیں کریں گے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے روزنامہ دنیا کے معروف تجزیہ نگار جناب خورشید ندیم نے لکھا... ''اپنے تمام تر دعووں کے باوجود امر واقعہ یہ ہے کہ ایران کا انقلاب فرقہ وارانہ تعصب سے اٹھ نہیں سکا۔ نعرہ تو ''لاشرقیہ لاغربیہ۔ اسلامیہ اسلامیہ‘‘ کا بلند ہوا لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس انقلاب کے خدوخال مسلکی تھے۔ مشرق وسطیٰ میں اس انقلاب کے بعد شیعہ سنی کی تقسیم نمایاں ہوتی چلی گئی اور آج یہ اپنے عروج پر ہے‘‘
آگے چل کر خورشید ندیم حسرت کا اظہار کرتے ہیں... ''اگر وہ یہ کہتے کہ وہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائیں گے تو اس سے ان کا قد بڑھتا‘‘۔
ایرانی صدر پاکستان میں تشریف لائے۔ یہ پاکستان کے لیے مبارک موقع تھا۔ ایران کے صدر اُس ملک کے صدر ہیں جو ہماری تہذیب کا مظہر ہے۔ سعدی ‘حافظ اور عطار کے وطن سے کوئی عام شخص بھی آئے تو ہمارے لیے محترم ہے اور وہ تو صدر ہیں! ہم تو یہی کہیں گے ؎
دریں خانہ ہر کس کہ پا می نہد
قدم برسر و چشم ما می نہد
اس گھر میں آنے والا، اپنے پاؤں ہمارے سر آنکھوں پر رکھے!! مگر وہ جو اقبال نے کہا تھا ع
گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے 
چاہ بہار کے واقعہ پر گلہ تو بنتا تھا!!ہماری سیاسی قیادت خاموش رہی! قرعۂ فال جنرل راحیل شریف کے نام نکلا۔ انہوں نے ایرانی مہمانِ گرامی سے بات چیت کے دوران معاملہ اٹھایا اور مطالبہ کیا کہ ایران اپنے علاقے سے پاکستان مخالف بھارتی سرگرمیاں روکے اس لیے کہ را پاکستان کے خلاف ایرانی سرزمین استعمال کرتی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎
قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنو عامر میں
فخر ہوتا ہے قبیلے کا فقط ایک ہی شخص
ایران، بھارت اور پاکستان کے حوالے سے یہ جو واقعہ پیش آیا ہے‘ اس پر ہمارے وہ دوست بھی ٹھنڈے دل سے غور کریں جو حقائق سے آنکھیں چرا کر، جذبات کی رومانی دنیا میں رہتے ہوئے امتِ مسلمہ کے نام پر آئے دن نعرہ زن ہو رہے ہوتے ہیں! کون سی امتِ مسلمہ اور کون سا اتحاد؟؟ سعودی عرب اور ایران خم ٹھونک کر آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ ترکی اور ایران مخالف کیمپوں میں ہیں۔ شام اور عراق میں مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے ۔گوادر کو نیچا دکھانے کے لیے چاہ بہار کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں چالیس سال سے زیادہ عرصہ کے بعد اُن رہنماؤں کو تختۂ دار پر لٹکایا جا رہا ہے جنہوں نے مشترکہ پاکستان میں اپنے ہی ملک کی حمایت کی تھی!
امتِ مسلمہ کا تصور روحانی اور مذہبی ہے۔ مگر مسلمانوں کی پوری تاریخ میں (سوائے چند ابتدائی سالوں کے) یہ ایک سیاسی وحدت کے طور پر کبھی صورت پذیر نہیں ہوا۔ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ مسلمان ممالک ایک دوسرے کی معمولی مدد کرنے پر تو تیار نہیں مگر کچھ لوگ عالمی اسلامی حکومت کی ڈفلی بجائے جا رہے ہیں! ایک ایک اینٹ کی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی تنظیموں کی قیادت تو خاندان سے باہر نکل نہیں پاتی مگر لوگوں کو عالمی خلافت کے نام پر اکٹھا کر کے دکانیں چمکائی جاتی ہیں۔ سادہ دل لوگ اسلام کے نام پر اِن تنظیموں کے عہدیداروں کو ایک خوشحال معیارِ زندگی مہیا کرتے رہتے ہیں۔
اگر امت کا تصور سیاسی ہوتا تو آج ایران اور سعودی عرب برسرِ پیکارنہ ہوتے۔ ایران اور روس ایک دوسرے کے ساتھ نہ ہوتے۔ عرب حکومتیں عراق کے خلاف امریکہ کی مدد نہ کرتیں۔ یہاں دوستیاں بھی مفادات کے تابع ہیں اور دشمنیاں بھی دنیاوی فائدوں کے لیے ہیں۔ عالمِ اسلام کا حال وہی ہے جو فراز نے کہا تھا ؎
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved