تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     01-04-2016

وحشت کا قہر… (2)

حکمرانوں کو سیاہ دولت کے حصول کے لیے مختلف روپ دھارنا پڑتے ہیں۔ دولت کے حصول کے لیے طاقت درکار ہوتی ہے اور سرمائے کے تسلط میں جکڑے معاشرے میں طاقت بھی کاروباری جنس بن کے رہ جاتی ہے۔ دولت سے ہی طاقت خریدی جاتی ہے اور پھر اس طاقت کو دولت مزید بڑھانے کے لیے استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے کوئی جمہوریت کا ڈھونگ کرتا ہے تو کسی نے لبرل ازم کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ کوئی مذہب اور فرقے کا چوغہ پہنے ہوئے ہے تو کسی نے قوم پرستی کا جنون برپا کر رکھا ہے۔ بہت سے نسل پرستی کی منافرت کا زہر پھیلا کر اپنی دکان کرتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی دھندے کے مختلف برانڈ ہیں۔ یہ منافع بخش کاروبار جب کالے دھن کی شکل میں بڑھتا اور پھیلتا ہے تو اس میں سرمایہ کاری کرنے والے مختلف جغادریوں کے درمیان تنازعات اور تصادم بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے میں حصہ داری کی لڑائیوں میں جبر اور وحشت درکار ہوتی ہے۔ دہشت گردی کا ایک بنیادی پہلو یہی جبر اور وحشت ہے جسے کسی بھی نام سے برپا کیا جا سکتا ہے اور جو تہذیب اور سماج کو تاراج کرتی جا رہی ہے۔ اس دہشت اور وحشت کو برقرار رکھنے کے لیے جس جنون کی ضرورت ہوتی ہے وہ پھر انتہا پسندی کے ذریعے ابھارا جاتا ہے۔ جتنی حصہ داریاں بڑھتی، جتنی نئی دکانیں کھلتی ہیں اتنے ہی نئے گروہ پیدا ہوتے ہیں۔
اس مظہر کی بنیاد اور جنم کی وجوہ کو پرکھنے کی بجائے اس کی ظاہری کیفیت پر مبنی تجزیے کسی نتیجے تک نہیں پہنچا سکتے۔ کبھی ایک فرقے کو میانہ روی پر مبنی اور ''معتدل‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے تو دوسرے کو انتہا پسند اور جنونی ٹھہرایا جاتا ہے‘ لیکن پھر یہی میانہ روی انتہا پسندی میں بدل جاتی ہے اور مفاد پرستی کے مقاصد کے تحت انتہا پسندی میانہ روی کا ڈھونگ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ مذہبی فرقہ واریت سے لے کر نسلی تفرقوں تک، سب کے سب آخری تجزیے میں کالے دھن کے تحفظ اور اس میں اضافے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں۔ امریکی سامراج اور اس کے پروردہ تمام ریاستی حکمران کہیں نہ کہیں اپنے سٹریٹیجک مقاصد، مالیاتی مفادات اور طبقاتی کردار کے پیش نظر اس خونریزی کو ابھارنے کے مجرم ضرور ہیں۔ عوام کو مذہب، فرقے، رنگ، نسل، قوم، ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ اس طرح محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی میں دراڑیں پیدا کی جاتی، تحریکوں کو زائل کیا جاتا ہے اور حکمران وقتی طور پر سمجھتے ہیں کہ عوام کی کسی بغاوت کا خطرہ ٹل گیا‘ لیکن پھر یہی وحشت اور جنون کا عفریت معاشرے میں اتنا انتشار اور عدم استحکام پیدا کر دیتا ہے کہ ان حکمرانوں کا اپنا اقتدار خطرات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے ہی پیدا کردہ عفریت کو ختم یا کنٹرول کرنے کی واردات کرتے ہیں‘ لیکن انہی کے تربیت یافتہ آلہ کار ان کی ان وارداتوں سے واقف ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں وہ چور دروازے بھی تلاش کر لیتے ہیں‘ اور فرار بھی ہو جاتے ہیں۔
دہشت گردی کا ایک اہم پہلو سماجی اور ثقافتی بحران بھی ہے۔ ایک طرف غریب طبقات کے بچے کالے دھن کی اس آگ کا ایندھن بنتے ہیں تو دوسری جانب متوسط اور بالادست طبقات کے نوجوان جس معاشرتی اور ثقافتی پراگندگی اور ابہام کا شکار ہیں، وہ ان کی نفسیات کو جنون اور وحشت میں دھکیل دیتا ہے۔ ایسا گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی واقعات کی تفتیش کے دوران واضح ہوا۔ متوسط اور بالادست طبقات کے ایسے افراد یا تو بنیاد پرستی اور دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہو جاتے ہیں‘ یا پھر بالواسطہ طور پر مالی وسائل اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
اس نظام کے اقتصادی‘ سماجی‘ ثقافتی اور نفسیاتی بحران کی بیماریاں پورے معاشرے کو لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ بنیاد پرستی، مذہبی جنون اور دہشت گردی جیسے کینسر کا علاج اب گہری جراحی کا متقاضی ہے۔ سکیورٹی انتظامات، آپریشن، نئے نئے سکیورٹی ادارے اور پولیس فورسز وغیرہ جیسی شعبدہ بازیوں کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔ حقیقی وجوہ اس گلے سڑے اور 
تعفن زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نظام کے بحران سے جنم لینے والی نفسانفسی، پراگندگی، عدم استحکام اور بیگانگی کی زہریلی نفسیات، ثقافت، اخلاقیات اور اقدار اس سماج پر حاوی ہیں۔ یہ تمام عناصر ایک دوسرے پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور بحیثیت مجموعی یہاں کے باسیوں کی زندگی کو جہنم بنائے ہوئے ہیں۔ اس نظام کے رکھوالے حکمران طبقات نے اپنی ہوس میں سماج کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ حکمران طبقہ تاریخی طور پر نااہل تھا اور آگے بھی مزید بربادیوں کے سوا کچھ دینے کا اہل نہیں‘ لیکن خون کے دریا بہہ بھی رہے ہیں تو انہیں کوئی پریشانی نہیں۔ ان کی دولت کے انبار لگتے جا رہے ہیں، انہیں اس کے علاوہ کسی چیز سے کوئی غرق نہیں۔ اسی دولت کی تقسیم اور حصہ داری پر ان کی لڑائیاں بھی ہیں اور دوستیاں بھی۔ مصالحت بھی ہے اور منافقت پر مبنی تکرار بھی۔ لیکن یہ حکمران سب خوش ہیں۔ یہ محنت کش عوام ہیں جو ان زخموں سے گھائل ہو رہے ہیں۔
دہشت گردی کے ایسے وحشیانہ حملوں سے بنیاد پرستی کی پہلے سے محدود سماجی بنیادیں مزید سکڑ رہی ہیں۔ سماج کی پسماندہ پرتوں اور پیٹی بورژوازی کو چھوڑ کے ملائیت کے خلاف وسیع پیمانے پر حقارت اور بیزاری موجود ہے۔ اس کے رد عمل میں جنونی زیادہ وحشت سے خود کو سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لبرل پروپیگنڈا کے برعکس اس ملک کی انتخابی تاریخ گواہ ہے پاکستان کے محنت کش عوام نے سیاسی اور انتخابی میدان میں ملائوں کو ہمیشہ مسترد کیا‘ لیکن حکمران طبقات کے کچھ حصوں کی پشت پناہی سے مصنوعی طور پر بنیاد پرستی اور رجعت مسلسل مسلط کی جاتی رہے تو ایک مخصوص مقام پر وسیع تر سماجی بغاوت کو جنم دے سکتی ہے۔ ایسی بغاوت پورے نظام کو ہی اکھاڑ پھینک سکتی ہے۔
جہاں بارود کی دہشت گردی وقفوں کے تسلسل کے ساتھ جاری ہے وہاں معاشی دہشت گردی کا سلسلہ تو ہر وقت چل رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وقت بدلتا ہے، انسان بدلتے ہیں، محنت کش طبقات کی نفسیات اور سوچ بدلتی ہے، شعور جست لگا کر آگے بھی بڑھتا ہے۔ محنت کشوں کے وقتی ابھار اور ہڑتالیں بڑے اور دھماکہ خیز واقعات کی جھلکیاں ہوتی ہیں۔ محنت کشوں کو ماضی کے ان تعصبات کی تقسیم میں صدا جکڑ کر نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ صرف دہشت گردی کا ہی نہیں بلکہ نسلوں اور صدیوں کے استحصال، ذلت اور جبر کا انتقام لینے کے لیے اٹھیں گے۔ دہشت اور وحشت کے ہر روپ، ہر ادارے کے خلاف بغاوت ہو گی جس نے معصوم زندگیوں کو تاراج کیا ہے، بچوں سے ان کا بچپن چھینا ہے، نئی نسل سے جوانیاں چھینی ہیں، بزرگوں کو بے وقت موت دی ہے، مامتا کو پامال کیا ہے۔ یہی وقت محشر ہو گا‘ یہی سوشلسٹ انقلاب ہو گا جب چہرے نہیں پورا نظام بدلا جائے گا۔(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved