دہشت گردوں کے مددگار‘ سہولت
کار بچ نہیں سکیں گے۔نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردوں کے مددگار‘ سہولت کار بچ نہیں سکیں گے‘‘ لیکن خود ان حضرات کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ اب انہوں نے اپنی مستقل پناہ گاہیں بنا لی ہیں اور اپنے پائوں پر بھی کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انہیں مددگاروں اور سہولت کاروں کی محتاجی نہ اٹھانی پڑے‘ البتہ مددگار اور سہولت کار ذرا ہو شیار ہو جائیں کیونکہ اب تو فوج نے پنجاب میں بھی ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ہے اور جس کا حکم بھی جنرل صاحب نے خود دیا ہے حالانکہ زبانی کلامی یہ کام خاکسار بھی کر سکتا تھا‘ تاہم اب دُعا کرنی چاہیے کہ یہ آپریشن کہیں اپنے انجام کی طرف نہ رُخ کر لے جس کے بعد خدانخواستہ دما دم مست قلندر ہی ہو گا‘ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ 'نرمی کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘ کیونکہ خاکسار کا تو جثہ ہی لحاظی ہے اور ہر طرف نرمی ہی نرمی ہے اور جس کا مظاہرہ بھی اب تک ہوتا رہا ہے۔ آپ اگلے روز ٹی وی پر قوم سے خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب میں معمول کی کارروائی
ہے‘ کوئی نیا آپریشن نہیں ہو رہا۔ رانا ثناء
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں
معمول کی کارروائی ہے‘ کوئی نیا آپریشن نہیں ہو رہا‘‘ جبکہ ہم سب نے اپنے آپ کو بھی یہ یقین دلایا ہے اس لیے قوم کو بھی اس پر اعتبار کر لینا چاہیے اور اگر اس کا حکم براہِ راست جنرل صاحب نے دیا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وزیر اعظم کی صحت ہاضمہ کی خرابی کی وجہ سے کچھ ٹھیک نہیں تھی اور انہوں نے خود ہی کہا تھا کہ اس کا حکم آپ ہی دے دیں‘ ویسے بھی حکومت مددگار اور سہولت کار حضرات کا سامنا خود ایسا حکم دے کر کیسے کر سکتی تھی‘ اس لیے اب ان پر جو مصیبت بھی آئے گی اس کی ذمہ دار حکومت نہیں ہو گی‘ حکومت کی دعا ہے کہ اللہ کریم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے کیونکہ یہ سہولت کار اور مددگار بھی تو ملک کے شہری ہیں اور ان کے باقاعدہ حقوق بھی ہیں اور ہماری یہ بھی دعا ہے کہ اللہ میاں جلد از جلد انہیں نیک ہدایت دے کیونکہ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں جبکہ موجودہ وقت خود ہمارے لیے دُعا کا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
چو مُکھی لڑائی لڑ رہے ہیں
دہشت گردی ختم کریں گے۔ حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی میاں حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم ''چومُکھی لڑائی لڑ رہے ہیں‘ دہشت گردی ختم کریں گے‘‘ کیونکہ مالی معاملات سارے کے سارے خاکسار کے ذمّے ہیں جو چومکھی لڑائی سے کسی طور پر بھی کم نہیں ہے جبکہ ہم ایک ہی قوت میں نیب سمیت صدر مملکت اور چیف جسٹس صاحب کے کرپشن کے خلاف بیانات کا بھی مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ یہ سوچ رہے ہیںکہ کرپشن کبھی بیان دینے سے بھی ختم ہوئی ہے؟ تاہم ہمیں ان معزز شخصیات پر حیرت بھی ہے کہ روزی کمانا کرپشن کے زمرے میں کیسے آ سکتا ہے جبکہ ساری کی ساری روزی حلال ہی کی ہوتی ہے کیونکہ اس میں محنت بھی کرنی پڑتی ہے اور محنت سے کمائے ہوئے چار آنے کرپشن کیسے کہلا سکتے ہیں‘ البتہ جہاں تک والد صاحب کا تعلق ہے تو وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ اگر دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو گئی تو سیاست چھوڑ دوں گا‘ جیسا کہ چوہدری احسن اقبال نے کہا تھا کہ اگر مشرف باہر چلا گیا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے لیکن انہوں نے بھی سیاست نہیں چھوڑی۔ آپ اگلے روز دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
لوہے کا استعمال
ہم نے اگلے روز اکامی ادبیات کے حوالے سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ چونکہ سالانہ ادبی کانفرنس کے انعقاد کے لیے حکومت نے انہیں پیسے نہیں دیئے اس لیے چار و ناچار انہوں نے ادیبوں کے امدادی فنڈ میں سے رقم نکال کر کام چلانے کی کوشش کی ہے۔ اب باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ امدادی فنڈ جو تھوڑا بہت موجود تھا ‘ وہ تو اسی طرح پڑا ہے تاہم‘ اکادمی نے مذکورہ کانفرنس منسوخ یا ملتوی کر دی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ دلچسپ اطلاع بھی ملی ہے کہ ایک تجویز کے مطابق اکادمی اگر کانفرنس میں لوہا استعمال کرے تو اسے من مانے فنڈز مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ خدا کرے یہ بات صحیح ہو اور حکومت تک بھی یہ انتہائی مفید تجویز پہنچ چکی ہو اور اس طرح اکادمی کا یہ مسئلہ حل ہو جائے اور اگر ابھی تک نہیں پہنچی تو ہم خود یہ تجویز حکومت تک پہنچائے دیتے ہیں جبکہ حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی انتہائی خوشگوار ہیں اور اس تجویز کا جلد از جلد مثبت نتیجہ بھی برآمد ہو گا۔ ع
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے
فضول احتجاج
ایک اخباری اطلاع کے مطابق گورنر پنجاب کو پروٹوکول دینے پر ہسپتال میں موجود مریضوں کے لواحقین نے سخت احتجاج کیا ہے۔ اطلاع کے مطابق گورنر پنجاب رفیق رجوانہ لاہور کے زخمیوں کی عیادت کے لیے جناح ہسپتال پہنچے تو انہیں پروٹوکول دینے پر زخمیوں کے لواحقین نے سخت احتجاج کیا کیونکہ اس دوران سکیورٹی اہلکاروں نے نرسوں کے علاوہ مریضوں کے لواحقین کو بھی کھانا وارڈ میں لے جانے سے روکے رکھا تھا۔ مریضوں کے لواحقین کو اتنا تو خیال کرنا چاہیے کہ گورنر بیچارے کے پاس اب پروٹوکول کے علاوہ اور رہ بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کو بھوک بھی کہاں لگتی ہے اور وہ اپنی تکلیف ہی میں بلبلا رہے ہوتے ہیں اور انہیں کھانے کا ہوش ہی کب ہوتا ہے اور اگر وہ کھانا گورنر کو کھلا دیا جاتا تو احتجاج کا جواز بھی تھا۔ اس لیے بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بنا دینا اس قوم کا چونکہ وتیرہ بن چکا ہے اس لیے اس پر اظہار افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ع
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
آج کا مطلع
رفتہ رفتہ کسی راکھ میں ڈھلتا رہتا ہے
دل سگرٹ کی طرح سُلگتا جلتا رہتا ہے