تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     01-04-2016

بکھری بکھری حکومت

کراچی پولیس کا ایک حاضر سروس ایس ایس پی ہے جس نے اپنی چونتیس سالہ طویل نوکری میں کسی ایک کیس کی بھی تفتیش نہیں کی البتہ یک طرفہ پولیس مقابلوں میں لوگوں کو ٹھکانے لگالگاکر ترقی کرتا رہا ہے۔ ماورائے عدالت قتل میں اس کی مہارت کا عالم یہ ہے کہ ایک بار نصیبِ دشمناں چنددن کے لیے عہدہ چھنا بھی تو پولیس مقابلے روکے نہیں بس ان کا عنوان بدل ڈالا۔ ان دنوں جن لوگوں کو قتل کیا ان کی فائلوں میں بس اتنا لکھا کہ ان لوگوں نے ایس ایس پی موصوف پرقاتلانہ حملہ کیا اور جوابی فائرنگ میں مارے گئے۔معمول کے دنوں میں جو لوگ اس کے ہاتھوں مرتے ہیں انہیں سرکاری کاغذات میں دہشت گرد لکھا جاتا ہے ۔ اس ذات شریف کا طریقہ واردات خبروں کے ساتھ ساتھ چلنا ہے۔ جن دنوں جو خبر چل رہی ہو ان دنوں اسی کے ذیل میں لوگو ں کو اگلے جہان پہنچاتے ہیں، مثلاً پشاور چرچ کا واقعہ پیش آیا تو انہوں نے چن چن کر ایسے 'گروہ‘ ٹھکانے لگائے جو کراچی میںگرجوں پر حملے کی سوچ رہے تھے، آرمی پبلک سکول کا اندوہناک سانحہ ہوا تو صاحب نے وہ گروپس دریافت کرلیے جوشہر قائد میں سکولوں کا نشانہ بنانے چاہتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے ایم کیو ایم اور'را‘ کی خبریں چلنا شروع ہوئیں توآنجناب نے ہندوستان سے تربیت پانے والادہشت گردمیڈیا کے سامنے پیش کردیا۔سانحہ گلشن اقبال کے بعد خیال تھا کہ اب کراچی سے بھی چند خبریں آئیں گی کہ ایس ایس پی صاحب نے ملیر کے علاقے سے ایسا گروہ تلاش کرلیا ہے جو کراچی کے ہل پارک یا باغ ابنِ قاسم میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ لیکن نجانے کیا ہوا کہ اب تک اس کی طرف سے کسی ٹھوں ٹھاں کی خبر نظر نہیں آئی۔ گلشن اقبال جیسا موقع ملے اور ایس ایس پی مذکور اس طرح کی حرکت نہ کرے ، یقین نہیں آتا۔ ہوسکتا ہے اس نے اپنی کارگزاری دکھانے کی کوئی نئی راہ ڈھونڈ نکالی ہو! 
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ایک تو کراچی کے ایس ایس پی کی طرح کے بدقماش لوگ پائے جاتے ہیں جو انسانی جانوں سے کھیلنا اپنا حق سمجھتے ہیں یا ایسے بہادرکہ جب کوئی بڑا واقعہ ہوجائے تو اس کے ردعمل میں ناراض کمسن نوجوانوں کی طرح جھٹکے سے کھڑے ہوکرگھر کے برتن توڑکر اپنی اہمیت جتاتے ہیں۔ وہ لوگ جو ٹھنڈے دل سے تفتیش کریں، بدترین حالات میں اپنے اوسان خطا نہ ہونے دیں ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے جاتے ہیں۔ سانحہء گلشن اقبال کے بعد پاکستان کی ریاستی مشینری کے ردعمل پر ایک نظر ڈالیں تو یہ بات مزید واضح ہوجائے گی۔ جیسے ہی گلشن اقبال میں دہشت گردی ہوئی پولیس افسر جلے پاؤں کی بلیوں کی طرح اچھلتے کودتے گلشن ِ اقبال کے ایک شہید کو ہی خودکش حملہ آور قرار دینے لگے، بیوروکریسی کے بگلا بھگت سر نیچا کرکے خاموشی سے ایک ٹانگ پر کھڑے ہوگئے اور پاک فوج نے پنجاب میں چھاپے مارنے شروع کردیے۔ مجموعی تاثر یہ بنا کہ پاکستان کے سارے انتظامی بازو ایک دوسرے کے ساتھ الجھ کر رہ گئے ہیں۔ شہدائے لاہور خبر بازی کے میدان میں 
کہیں گم ہوگئے اور بحث یہ شروع ہوگئی کہ اس سانحے کے بعد پہلی میٹنگ وزیراعظم ہاؤس میں برپا ہوئی یا جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی، جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کی مرضی کے بغیر پنجاب میں آپریشن کا حکم دیا ہے یا وزیراعظم کے کہنے پر کارروائیاں تیز کی جارہی ہیں، وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ 
دوسری مثال کے طور پر کل بھوشن یادو نامی بھارتی جاسوس کا معاملہ لے لیجیے۔ سادہ سی بات تو یہ تھی کہ پاکستان نے دنیا کے سامنے بلوچستان میں بھارتی سازشوں کا ناقابل تردید ثبوت حاصل کرلیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کل بھوشن یادو کی پھیلائی ہوئی سازشوں کا توڑ کرنے کے لیے سر جوڑے جاتے لیکن ہوا یہ کہ حکومتی عہدیدار ایک دوسرے کے ساتھ سر ٹکرانے لگے۔ تاثر یہ بنا کہ فوج اس معاملے میںحکومت کی بے عملی سے ناراض ہے اور حکومت فوجی انداز فکر سے نالاں۔بات اتنی 
بڑھی کہ پاکستانی کارخانوں میں کام کرنے والے بھارتی شہریوں کو بھی تقریباََ کل بھوشن یادو سمجھ کر ہی ایک مہم شروع ہوگئی جس میں تحریک انصاف کے جہانگیر ترین سے لے کر حکمران خاندان کے افراد تک لپیٹ میں آگئے۔ یہ درست ہے کہ فوجی جوش و جذبہ اور عالمی سیاست کی سفاکانہ عملیت پسندی ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن پاکستان کے مخصوص ماحول میں وفاقی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کوئی راہ نکالے اور عسکری حلقوں کو سمجھائے کہ غیر ملکی جاسوس کو پکڑنا بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اس کا جشن صرف ملک کے اندر ہی منایا جاسکتا ہے، اس کی بنیاد پر عالمی سیاست میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ رنجیدہ عناصر کو غلام نبی فائی کا قصہ یاد دلاتی جنہیں امریکی ایف بی آئی نے ہماری آئی ایس آئی سے پیسے لے کر امریکہ کے خلاف سازش کرنے الزام میں چار سال پہلے پکڑ کر سزا بھی دلوادی، لیکن اس کے کچھ ہی عرصے بعد امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے دینے کی بھی ہامی بھر لی ۔ 
اسلام آباد میں ممتازقادری کے چہلم اور اس کے بعددھرنے کی صورتحال بھی غیر مربوط حکومتی کارروائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ راولپنڈی میں ادھورے انتظامات کے تحت چہلم کے جلسے کی اجازت دے کر پنجاب حکومت نے تو جو کچھ کیا سو کیا لیکن چہلم کے شرکا ء کی طرف سے پر امن طور پر منتشر ہوجانے کے وعدے پر یقین کرلینے کو سوائے بے وقوفی کے کیا نام دیا جائے۔ اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسر کو بھی اگر وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان تک براہ راست رسائی نہ ہوتو اس کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ اسلام آباد پر یلغار کرنے والوں کو کس کھلی جگہ لے جا کر بٹھا دے اور چودھری صاحب کے اگلے احکامات یا گالیوں کا انتظار کرے۔ پارلیمنٹ کے سامنے سینکڑوں لوگ دھرنا دے چکے ہوں تو پھر وزیراعظم کے پاس بھی راستہ نہیں بچتا کہ وہ دارالحکومت کی سلامتی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں جیسا انہوں نے کیا۔ وزیرداخلہ پریس کانفرنسیں کرتے رہ گئے اور وزیراعظم کی بھیجی ہوئی ٹیم نے چارگھنٹوں میں وہ کام کردکھایا جو چودھری نثار علی چار دنوں میں نہیں کرپائے ۔ اس کے بعد نیا کام شروع ہوگیا کہ وزیر داخلہ دھرنا دینے والوں سے کسی تحریری معاہدے کے وجود سے انکار کررہے ہیںاور وزیرخزانہ تحریری معاہدے کے وجود کا اقرار کررہے ہیں۔ 
جس حکومت کے اہم ترین وزراء ایک ہی واقعے پر متضاد بیان داغ رہے ہوں،جس حکومت سے عسکری قیادت کو شکوہ ہو کہ وہ مطلوبہ رفتار سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لے رہی، جس حکومت کی سفارتی صلاحیتوں پر ریاست کے ایک اہم ادارے کو تحفظات ہوں، اس حکومت کے سربراہ کو سوچنا چاہیے کہ آخر ایک طرح کی خرابی ہی بار بار کیوں پیدا ہوتی ہے۔ کہیں حکومت میں بھی توکراچی کے ایس ایس پی کی طرح کے لوگ تو نہیں آبیٹھے جو واقعات کی تیزی میں اپنا الّوسیدھا کرتے ہیں یا کمسن نوجوانوں کی طرح ناراض ہوکر گھر کے برتن توڑنے لگتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved