تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-04-2016

قزاقی

ہم جیتے تو انہوں نے منہ بنا لیا۔ سیمی فائنل میں وہ ہارے‘ تو ہم نے بھنگڑے ڈالے۔ ہم ٹورنامنٹ سے باہر ہوئے تو انہوں نے بھی کتھا کلی کیا۔ بھارت اور پاکستان‘ دونوں ہی ایک خطے میں واقع ہیں۔ ہمارے موسم بھی ایک جیسے ہیں۔ ہمارے پھول بھی ایک جیسے موسموں میں کھلتے ہیں۔ہم سانس بھی ایک جیسی ہوائوں میں لیتے ہیں۔ ہماری سبزیاں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے اندر کا موسم‘ ایک جیسا نہیں ہوتا۔انہیں خوش دیکھ کر‘ ہمارے ہاتھ میں پکڑی آئس کریم کڑوی ہو جاتی ہے اور ہمیں خوش دیکھ کر‘ ان کی گلاب جامن میں ترشی آجاتی ہے۔ہماری ان عادتوں کا ساری دنیا کو علم ہے۔ میں لندن یا نیویارک کی سڑکوں پر بھی ہوتا ہوں اور بھارت میچ ہارتا ہے تو راہ چلتا گورا بھی مجھے روک کر بتاتا ہے''ہیلو!بھارت ہار گیا‘‘۔ اور میں اس کی توقع کے مطابق‘ عین اطمینان کی ایک سانس بھر کے‘ جواب دیتا ہوں۔ آپ کا بے حد شکریہ۔ہم ورلڈکپ سے باہر ہو چکے تھے۔ وہ ہماری اس شکست پر خوشیاں منا چکے تھے۔ سیمی فائنل میں آکر‘ جب ان کی پشت پر لات پڑی تو ہمارے خوش ہونے کا موقع تھا ‘ جسے ہم نے بہت مست ہو کر منایا۔''عناد کی خوشی‘‘ منانے کا یہ طریقہ اچھا نہیں۔ بھارت سیمی فائنل میں ہارا ‘ تو ہمیں اپنی خوشی ہضم کرنا چاہئے تھی لیکن اس عناد کی خوشی نے تو ہمارا پیٹ ہی خراب کر دیا۔ اسے کہتے ہیں دشمن کو تکلیف میں دیکھ کر‘ پیٹ میں مروڑ اٹھنا۔
سب سے پہلے تو ہمارے لالہ‘ شاہد خان آفریدی نے بھارتیوں کی سیمی فائنل میں ناکامی کا جشن مناتے ہوئے‘ اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو پشاوری چپل سے مارنا شروع کر دیا۔ جب خان‘ غصے میں آتا ہے تو پھر قصور اور بے قصور کو نہیں دیکھتا۔ جدھر اس کا دل چاہتا ہے‘ چپل گھما دیتا ہے۔یوں تو لالہ نے ‘بھارت میں اسی وقت ردعمل ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا‘ جب ٹیم نے ناکامیوں کی گنتی شروع کی۔ ہمارے گروپ میں چارٹیمیں تھیں۔ ان میں سے تین میچ ہم ہار گئے اور ایک میں فتح عظیم حاصل کی۔یہاں‘ پر کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ غم و اندو ہ میں ڈوبی رہی لیکن وہاں پر1971ء کے بعد‘ بنگالیوں کو ایک اور شکست دے کر‘ یحییٰ خان کی یاد تازہ کر دی۔اس تہلکہ خیز کامیابی کے بعد‘ لالہ اتنا خوش تھا کہ اس نے جی بھر کے لڈو کھائے۔ان میں سے ایک لڈو پر‘ بھڑ بیٹھی ہوئی تھی۔ منہ میں جا کر جب وہ بھنبھنائی تو لالہ نے کہا'' چیں کرو یا پیں کرو‘ اس وقت ہم فتح کے جوش میں ہے‘ جو منہ میں آیا‘چبا جائوں گا‘‘۔اس ایک کامیابی میں صرف ایک بھڑ ہی کام آئی۔اب کس کس کی شامت آئے گی ؟سب سے پہلے ہیڈ کوچ‘ وقار یونس جو شوق ملامت میں دھت رہتے ہیں۔ پورے کرکٹ بورڈ سے جا ٹکرائے۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ ناکامیوں کے اس سلسلے پر ٹیم کے ہیڈ کوچ‘ وقار یونس نے اپنی رپورٹ تیار کی تھی۔یہ رپورٹ انہوں نے شہریار خان کو پہنچا دی۔شہر یار خود بھی خان صاحب ہیں۔انہوں نے یہ رپورٹ اپنے دفتر میں رکھ دی۔آج کل ہمارے میدان میں جانے اور گھروں میں بیٹھنے والے کھلاڑی‘ شکست کے نشے میں چور ہیں۔ یقیناً انہی میں سے کسی نے یہ رپورٹ اٹھا کر ‘اس کے چند صفحے نوچ لئے اور ادھر ادھر پھیلا دیے۔ اصل رپورٹ کس حالت میں ہے یہ کوئی نہیں جانتا ؟ اگر کسی بھلے مانس نے اس ''واردات‘‘ کے بعد رپورٹ دیکھی ہو تو اس کو پتہ چلے کہ اس کے اندر سے کچھ صفحے نکالے بھی گئے ہیں یا نہیں؟۔ سب نے ویسے ہی شور مچا رکھا ہے۔
ادھر وقار یونس نے اقرار ی مجرم کی طرح اودھم مچا رکھا ہے۔ اس رپورٹ کا ابھی تک کوئی اقرار ی قاری سامنے نہیں آیا۔مگر اس رپورٹ کی بنیاد پر‘ متعدد افراد ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے پھر رہے ہیں۔یہ کیسا تماشا ہے؟ کہ وقارا پنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے وفاقی وزیر‘ ریاض پیرزادہ کے دفتر جا پہنچے اور اپنا احتجاج نکال کر بیٹھ گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ موصوف خود ہی اپنی رپورٹ کی تالہ بندی پر مصر ہیں۔جس شخص کو انہوں نے رپورٹ دی۔ اسے بھی یہی ہدایت کی تھی کہ یہ خفیہ رپورٹ ہے۔ میںا سے عام مطالعے کے لئے بعد میں پیش کر دوں گا۔اس لڑتی بھڑتی ٹیم میں‘ لالہ سب سے تیز نکلے۔وہ کرکٹ کھیلنے والوں میں کپتان کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے باوجود‘ جس رپورٹ پر لڑتے جھگڑتے پھر رہے ہیں‘ وہ ابھی تک انہوں نے خود نہیں پڑھی۔ کم از کم بورڈ کے اراکین ‘جن کی دفتر میں یہ رپورٹ ہونی چاہئے‘ ان میں بھی صرف شہریار خان ہی اسے پڑھ سکتے ہیں۔ میرے علم کے مطابق‘ خان صاحب نے ابھی تک یہ دعویٰ نہیں کیا کہ انہوں نے مبینہ رپورٹ پڑھ لی ہے۔
میرے اندازے کے مطابق‘ ہمارے کرکٹ کے کھلاڑیوں میں شعیب اختر‘ معروف لڑاکے تھے۔یوں تو ہر فاسٹ بائولر غصیلا ہوتا ہے لیکن شعیب اختر نے اس فن میں سب پر برتری حاصل کر لی تھی۔اب وقار یونس کی خفیہ رپورٹ کی ایک جھلک بھی دیکھ لیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ''معین خان کچھ مخصوص لڑکوں کو ''باہر‘‘لے جاتے اور انہیں تحائف دلواتے تھے۔ معین ہی کے کہنے پر‘ عمر اکمل کو کئی بار‘ پریکٹس سیشن میں شامل نہ ہونے کی چھوٹ دی گئی۔ عمر اکمل کو ٹیم میں شامل کرانے پر‘ معین خان اور محمد اکرم نے میری مخالفت کی تھی‘‘۔ یہ الزام سچا ہے یا جھوٹا ؟اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ الزام پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ''اگر معین خان ‘لڑکوں کو باہر لے جاتے تھے اور انہیں تحائف دیتے یا دلواتے تھے تو ہماری کرکٹ کے یہ ''سٹارز‘‘ کس طرح کے لوگ ہوں گے ؟ خود وقار یونس کے بارے میں بھی سوچنا پڑے گا کہ اگر معین خان‘ لڑکوں کو سیروتفریح کے لئے باہر لے جاتے تھے تو انہیں آج تک اس کا ''رنج ‘‘کیوں ہے؟ انہوں نے اپنی اس خفیہ رپورٹ میں معین خان کے اس شوق یا کرتوت کا بطور خاص تذکرہ کیا ہے۔ بڑے مزے کے ہیں یہ کرکٹ والے۔
ادھر میڈیا میں قومی کرکٹ کی انتظامیہ کے ان گنت اراکین کے نام آنے والے ہیں۔ موجودہ انتظامیہ میں کھلاڑیوں کی جس نوعیت کی شہرت سامنے آرہی ہے‘ اسے دیکھنے کے بعد جو لوگ باہر بیٹھے ہیں‘ ان میں سے ''اچھے‘‘ کیسے ڈھونڈے جا سکتے ہیں؟۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں کی سیاست سے بیزار ہو کر‘ ایک سابق صحافی کو اپنے بورڈ کا اعلیٰ عہدیدار بنایا تھا۔ جو ایک کامیاب منتظم ثابت ہوا لیکن ہمارے ہاں جس شخص کو صحافی کہہ کر‘ کرکٹ بورڈ پر تھونپا گیا۔اس کی کارکردگی دیکھ کر‘ جھرجھری آجاتی ہے۔ کرکٹ بورڈ میں دو صحافی رکھے گئے ہیں۔ ایک تو عملی طور پر صحافت کے پیشے سے وابستہ رہا ہے لیکن دوسرا گھس بیٹھیا ہے۔ا س نے عملی زندگی کا زیادہ حصہ‘ خفیہ سرگرمیوں میں گزارا ہے۔ اور پھر سسرال کے خاندانی تعلقات کو استعمال کر کے‘ مشتبہ لوگوں کی فہرست سے نکلا۔ باہر آکر اس نے مختلف درسگاہوں میں پڑھائی جانے والی‘ بیرون ملک میں شائع کی گئی کتابوں کو‘ بلااجازت چھاپنا شروع کر دیا۔ درآمدی کتابوں کے ریٹ بہت زیادہ تھے اور مقامی طور پر یہی کتابیں اونے پونے میں چھپ جاتی تھیں۔ موصوف نے دونوں ہاتھوں سے نفع کمایا۔ سنا ہے کہ اب بھی کما رہے ہیں۔فلم پرڈیوسرز‘ بھارتی فلموں کی پوری نقل یہاں بناتے ہیں تو اسے چربہ کہا جاتا ہے۔ کتابوں کے جعلی ایڈیشن چھاپنے کوپائریسی ( قزاقی) کہتے ہیں۔کرکٹ بورڈ کے ملازمین اور کھلاڑیوں کو بھی چند روز میں معلوم ہو گیا ہو گا کہ پائریسی کیا ہوتی ہے؟ اور قزاق کیسے ہوتے ہیں؟ وقار یونس کی خفیہ رپورٹ کس نے بلااجازت مارکیٹ میں پھیلائی ہے؟ یہ کام وہی کر سکتا ہے ‘ جس کا یہ پیشہ ہو ۔
نوٹ:۔ رات ہونے سے پہلے ‘شہریار خان نے اس خبر کی تردید کر دی کہ وہ استعفیٰ دینے والے ہیں۔ خان صاحب‘ عزت دار گھرانے کے چشم و چراغ ہیں لیکن یہ دور نواز ہے۔ بیرونی کتابوں کی قزاقی کرنے والے کو نوازا نہیں جائے گا‘ تو کیا ہو گا؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved