تخیلاتی پرواز کی عکاسی کے لیے اردو زبان کا جواب نہیں۔ جب وزیر اعظم نواز شریف نے عہد کیا کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے بہائے گئے قطرے قطرے کا حساب لیا جائے گا‘ تو ہمیں اُن کی بات پر کم و بیش یقین آ گیا؛ تاہم مکمل نہیں۔ سوا سال پہلے پشاور سکول کے بچوں کے قتل عام سے پہلے، وزیر اعظم نواز شریف ایسی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے میں متذبذب تھے‘ اور کل جماعتی کانفرنس کی آڑ میں وقت گزار رہے تھے۔ اُس وقت فوج آپریشن کرنے کے لیے بے قرار ہو رہی تھی، لیکن وزیر اعظم مذاکرات کی راہ پر گامزن رہنے پر مصر تھے، حالانکہ یہ راستہ کہیں نہیں جاتا تھا۔ اس سے اگر کسی کو کوئی فائدہ ہونا تھا تو طالبان تھے‘ تاکہ اُنہیں اپنی قوت جمع کرنے اور اپنے مورچے سنبھالنے کا موقع مل جائے؛تاہم لاہور میں ہونے والے حالیہ حملے کے بعد اپنی تقریر میں ہمارے وزیر اعظم پہلے سے کچھ زیادہ غمزدہ اور غصے میں دکھائی دیے۔ دراصل اُن کا غصہ ایک ایسے ہیڈ ماسٹر جیسا تھا‘ جنہیں کسی ہونہار طالب علم، جس بہت سی امیدیں تھیں، نے مایوس کیا ہو۔ اکثر اوقات وہ دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی بجائے اسلامیات پر لیکچر دیتے دکھائی دیتے۔ انہوں نے قوم سے خطاب میں اُس فوجی ایکشن، جو اب پنجاب میں شروع ہو چکا ہے، پر ایک لفظ تک ادا کرنا گوارا نہیں کیا‘ اور نہ ہی قوم کی راہنمائی کی۔ درحقیقت خطاب میں ایسا کوئی واضح منصوبہ نہ تھا کہ اُن کی حکومت اس سانحے کے بعد اب کیا کرنے جا رہی ہے۔ مختصر یہ کہ انہوں نے ایک مبہم اور بے معنی سے تقریر کر دی، بالکل ویسی ہی جیسی وہ اپنے سیاسی کیریئر میں اکثر اوقات کرتے رہے ہیں، جسے لوگ اگلی صبح تک بھول چکے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ایک اور حملہ ہو جاتا ہے۔
درحقیقت ہمیں نیشنل ایکشن پلان، جو دسمبر 2014ء میں پشاور سکول پر حملے کے بعد بنایا گیا، کی کارگزاری پر ایک رپورٹ بنانا چاہیے تھی۔ یہ پلان حکومت کے لیے بہت سے اقدامات تجویز کرتا ہے، جن میں مدرسوں کی اصلاحات سے لے کر نصاب پر نظرثانی تک کئی معاملات شامل ہیں۔ ہمارے سکول کے نصاب کے کچھ حصے یقینی طور پر انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان طے شدہ نکات پر بہت کم عملی کام ہوا۔ وہ واحد ادارہ جو انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے، فوج ہے۔ اس نے دہشت گردوں کے خلاف بہت سی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا، لیکن یہ وزیر اعظم ہیں جو اپنے بھائی شہباز شریف کے ہمراہ جنوبی پنجاب میں پنجابی طالبان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں تھے۔ ان کے گریز کی وجوہ واضح ہیں۔ وہ پنجابی طالبان کے خلاف ''جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی رکھتے ہیں؛ تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ اگر آپ اپنے صحن میں زہریلے ناگ پالیں گے تو پھر جب وہ آپ کو ڈس لیں تو آپ کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔
لاہور پارک میں معصوم جانوں کی ہلاکت کے بعد بھی پنجاب حکومت کے ایک سینئر ممبر، رانا ثنااللہ کا اصرار تھا کہ پنجاب میں طالبان کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں، حالانکہ انٹیلی جنس رپورٹس اور میڈیا کی تحقیقاتی کہانیاں اس کے برعکس کہتی ہیں۔ ہمیں رانا ثنااللہ کی وہ تصویر کبھی نہیں بھولے گی‘ جس میں وہ انتخابی مہم کے دوران ایک انتہا پسند کے ساتھ ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم دشمن کو واضح طور پر پہچان نہیں لیتے‘ اور اس کے خلاف کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بے رحم کارروائی نہیں کرتے، ہم اپنے مبہم اور بے سروپا اقدامات سے اُسے مزید تقویت دے رہے ہیں۔ میڈیا میں بھی بہت سی حقیقت پسند آوازیں بہت دیر سے یہی کہہ رہی ہیں کہ ان دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے انتہا پسندی کے نظریات کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا، ورنہ یہ جنگ کبھی ختم نہ ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سکول اور کالج کا نصاب تبدیل کرنا ہو گا اور ٹی وی کے ٹاک شوز اور مساجد میں کی جانے والی نفرت انگیز تقاریر کو قطعی برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ مدرسوں اور انواع اقسام کی تنظیموں کو ملنے والے فنڈنگ کو روکنا ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نفرت پر مبنی عقائد کے پھیلائو پر قدغن لگانا ہو گی۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اپنی طاقت کے عروج کے دور میں مشرف بھی ایسا نہ کر سکے تھے۔ وہ مذہبی جماعتوں اور جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی چاہتے تھے لیکن ایسا نہ کر سکے؛ تاہم اپنے ایک حالیہ کالم میں مشہور کالم نگار، ایاز امیر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے اپنے مرد جانشیں حکمرانوں سے زیادہ ہمت دکھائی تھی جب نوے کی دہائی میں اُن کے وزیر داخلہ، نصیراللہ بابر نے ایم کیو ایم پر ہاتھ ڈالا تھا۔
یہ اُس وقت کی بات ہے جب بوری بند تشدد زدہ لاشیں ملتیں‘ اور الطاف حسین کے ہدفی قاتل شہر کو اپنی آہنی گرفت میں رکھتے تھے۔ وہ لوگ جنہوں نے کراچی کا وہ دور دیکھا ہوا ہے، اس کی یاد آج بھی ان کے جسموں پر لرزہ طاری کر دیتی ہے۔ اُس آپریشن کے لیے بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کی گئی تھی، باوجود اس حقیقت کے کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ پی پی پی کی دشمن تھی۔ اس مثال سے یہ بات واضح کرنا مقصود تھی کہ وزیر اعظم میں ہمت اور عزم کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر طالبان کو نہ چھیڑا جائے تو وہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں اپنا ''کام ‘‘ جاری رکھیں گے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے کراچی اور اسلام آباد میں مذہبی جماعتوں کے حالیہ دھرنوں میں دیکھا کہ اگر آپ انہیں ایک انگلی تھمائیں گے تو وہ کلائی پر ہاتھ ضرور ڈالیں گے۔
کوشش ہوئی کہ کراچی اور اسلام آباد، دونوں مقامات پر حکام کو اشتعال دلا کر لاشیں گرائیں‘ اور پھر چنگار ی پر عوامی جذبات کا پٹرول گرائیں۔ اگرچہ سندھ اور مرکزی حکومت اس کھیل کو بھانپ گئیں اور تشدد سے گریز کیا، لیکن اس سے ان کی کمزوری عیاں ہو گئی۔ اب مستقبل میں یہ سلسلہ چل نکلے گا۔ عمران خان اور طاہرالقادری نے جس دھرنے کی سیاست کو عروج پر پہنچایا تھا، اب وہ سلسلہ شاید کبھی ختم نہ ہو۔ شاید نواز شریف صاحب کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مکمل طور پر آرمی چیف کے سپرد کر دیں۔