حافظہ کچھ ایسا کمزور بھی نہیں ہوگیا مگر پھر بھی ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا کہ یہ کب کی بات ہے کہ ہمارے ہاں سب کچھ در حقیقت ویسا ہی ہوا کرتا تھا جیسا دکھائی دیتا تھا۔ اب تو ہر معاملہ وقفے وقفے سے اِتنے چولے بدلتا ہے کہ اُس کی اصل ہیئت کا کچھ اندازہ ہی نہیں ہو پاتا۔ سوچیے کچھ اور نکلتا ہے کچھ۔ حتمی تجزیے میں تمام اندازے یکسر غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔
ہم جس عمل کو سیاست سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ محض کھیل ثابت ہوتا ہے اور جسے کھیل سمجھ کر محظوظ ہونا چاہتے ہیں وہ بالآخر سیاست نکلتا ہے! یعنی ہر معاملے کے کواکب ہیں کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ۔
کرکٹ کا ذکر چِھڑ ہی گیا ہے تو پھر آئیے، اِس کی دُم پکڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ کمرشل ازم کی چادر اِس کھیل پر ایسی تنی ہے کہ سب کچھ اُس کے سائے میں آگیا ہے۔ اب آپ لاکھ ڈھونڈیے تب بھی کرکٹ میں وہ مزا نہیں ملتا جو کبھی پایا جاتا تھا اور وہ بات دکھائی نہیں دیتی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ بہت زیادہ پرانی بات نہیں اس لیے آپ کے حافظے میں ضرور محفوظ ہوگی کہ پاکستان میں کرکٹ کھیلی جاتی تھی۔ اب کرکٹ کھیلی نہیں جاتی بلکہ کھیل رہی ہے۔ اِس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ کرکٹ واقعی ہماری توقعات، جذبات اور اندازوں سے کھیل ہی تو رہی ہے! کان اُدھر سے پکڑیے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ کرکٹ کے ذریعے ہمیں ''ماموں‘‘ بنایا جارہا ہے!
پہلے بھارت سے ہارنے کی روایت برقرار رہی۔ پھر نیوزی لینڈ نے ہمیں پچھاڑا۔ اور آخر میں آسٹریلیا سے ہارنے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر ہوئی۔ اہلِ وطن کے چہرے بُجھ گئے۔ آسٹریلیا سے ہارنے کے بعد قوم کا عجیب حال ہوا۔ ایسے میں ضروری تھا کہ زخموں پر مرہم رکھنے والی کوئی بات کی جاتی۔ مگر آسٹریلیا سے مقابلے سے قبل بورڈ میں جو اندرونی کشمکش شروع ہوئی تھی وہ زور پکڑگئی۔ ہیڈ کوچ اور کپتان کے درمیان اختلافات نے بہت کچھ طشت از بام کیا۔ دوسری طرف کرکٹ بورڈ کے سیاہ و سفید کے مالک شہریار خان نے بھی ایسے بیانات داغے جن سے معاملات مزید الجھتے گئے۔ ٹیم ابھی بھارت ہی میں تھی کہ کپتان کو ہٹانے کی باتیں ہونے لگیں۔ ایسے میں کپتان شاہد آفریدی نے حقیقت پسندی پر مبنی بیان دیا۔ ان کا کہنا تھا : ''پریشان نہ ہوں۔ ورلڈ کپ میں پہلی بار نہیں ہارے۔ اب تو ہارنے کی عادت سی ہوگئی ہے اور قوم کو بھی عادی ہوجانا چاہیے۔‘‘
شاہد آفریدی نے ٹھیک ہی تو کہا ہے۔ ع
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے، اور تو کوئی بات نہیں!
کرکٹ کے معاملات اِتنے مشکوک ہیں کہ اب تو عام آدمی، بلکہ خواتینِ خانہ بھی کرکٹ میں بہت سے معاملات کی بُو سُونگھ لیتی ہیں۔ ہماری ٹیم جب بھی کسی بڑے ایونٹ میں بھارت یا کسی اور مضبوط ٹیم سے ہارتی ہے تو تنقید کا طوفان سا آجاتا ہے۔ کسی نے غور کیا کہ اِسی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کیسے کیسے تماشے ہوئے ہیں؟ ویسٹ انڈیز نے افغانستان سے کس قدر ''معصومانہ‘‘ انداز سے مات کھائی؟ آسٹریلیا نے بھارت کے آگے زانوئے شکست کس قدر مودبانہ انداز سے تہہ کیا؟ اور ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہنے والی کیوی ٹیم (نیوزی لینڈ) پہلے سیمی فائنل میں انگلینڈ کے مقابل کتنے فرماں بردارانہ انداز سے ''اسکرپٹ‘‘ کے مطابق کھیلی؟
یہ سب کچھ ناقابل فہم ہے نہ حیرت انگیز۔ دیدۂ بینا تو بہت بڑی چیز ہے، جو ذرا غور سے دیکھے اُسے بھی دکھائی دے سکتا ہے کہ کہاں
کہاں معاملہ کتنا گڑبڑ ہے۔ کرکٹ کے تین بڑے ہر معاملے میں اپنی مرضی چاہتے ہیں۔ جس نے کسی پہاڑی علاقے میں ٹرین کا سفر کیا ہے وہ جانتا ہی ہوگا کہ بعض مقامات پر ٹرین کو اوپر لے جانے کے لیے پیچھے بھی انجن لگانا پڑتا ہے۔ بھارت کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ گزرے وقتوں میں انجن کا کردار امپائرز ادا کیا کرتے تھے۔ اب یہ کام ذرا بہتر اور منظّم ڈھنگ سے کیا جانے لگا ہے۔ ٹورنامنٹ کے آغاز سے قبل ہی طے کرلیا جاتا ہے کہ کسے کہاں تک لے جانا ہے یعنی کس مرحلے پر ٹورنامنٹ سے باہر کرنا ہے! بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ کرکٹ پر راج کر رہے ہیں۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کا معاملہ یہ ہے کہ انتظامی امور ان کے ہاتھوں میں ہیں اور بھارت چونکہ بڑی مارکیٹ ہے اِس لیے مصلحت کا تقاضا ہے کہ اُس کی گُڈّی اونچی اُڑتی رہے! پاکستان سے مقابلہ درپیش ہو تو کئی اور چیزیں بھی جُڑ جاتی ہیں۔ بھارتی عوام پاکستان کے ہاتھوں شکست کسی طور گوارا نہیں کرتے۔ اِسی حقیقت نے لازم سا کردیا ہے کہ جب بھی کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں پاکستان اور بھارت کا میچ ہو تو بین الریاستی سطح پر رابطے ہوں اور معاملات طے کیے جائیں۔ 2011ء کے ففٹی اوور ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں جب پاکستان اور بھارت 30 مارچ 2011ء کو موہالی (چنڈی گڑھ) میں ٹکرائے تھے تب بھی پہلے اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک بھارت گئے اور پھر حتمی طور پر معاملات طے کرنے کے لیے اُس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو بھارت جانا پڑا۔ اُس میچ میں شاہد آفریدی کی باڈی لینگویج صاف بتا رہی تھی کہ جو کچھ بھی طے ہوا ہے اُس سے وہ کسی بھی طور مطمئن نہیں۔ ڈریسنگ روم میں جو ہوا سو ہوا، میدان میں بھی شاہد آفریدی نے کئی بار اپنے رویّے سے ظاہر کیا کہ وہ کرکٹ کھیلنے کے مُوڈ میں تھے، کچھ اور نہیں!
کرکٹ بورڈز اب دکانوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کوئی بھی بڑا کھیل اب کھیل سے زیادہ بزنس کا معاملہ ہے۔ سب کچھ تجارتی ذہنیت کے سانچے میں ڈھل چکا ہے۔ اور یہ سب کچھ محض کرکٹ تک محدود نہیں ہے۔ فٹبال کی دنیا میں ایک زمانے سے معاملات مشکوک ہیں۔ اب ٹینس کی دال میں بھی بہت کچھ کالا دکھائی دے رہا ہے۔ آپ ہی سوچیے، ہمارا کوئی باکسر کسی بین الاقوامی مقابلے کے فائنل میں بھارتی یا امریکی باکسر سے ٹکرائے اور اُسے ہرانے کی پوزیشن میں بھی ہو تو کیا ہرانے کا ''حقدار‘‘ ہوگا؟ اب ہمیں معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاک صاف یعنی اصل کرکٹ دیکھنی ہے تو اپنے علاقے میں کلب لیول کی ٹیموں کے مقابلے دیکھیے!